تحریر ناصر منصور
سنتور ہوٹل سرینگر میں۱۶؍ اگست۲۰۲۴ ءکتاب میلہ کا پہلا دن تھا۔ احقر نے غنیمت جانا اور چند دوستوں کے ساتھ شہر سرینگر کے مشہور ہوٹل جو سنتور ہوٹل کے نام سے جانا جاتا تھا۔ آج جب کئی دوستوں کے سنگ دوبارہ جانا ہوا تو ہوٹل کے دربان سے میں نے پوچھا کہ میرے ایک عزیز یہاں کام کرتےہیں تو چوکیدار نے کہا ،کیا وہ پُرانے سنتور ہوٹل میں تھے یا آج کے ایس کے آئی سی سی میں؟ اس سے میں نے مکمل طور جانا کہ سنتور کا نام سرکار نے ڈلیٹ کیا ہے ۔ رواں سال کے میلہ میں انتظامات کے حوالے سے میرا گمان تھا ،کہ گزشتہ میلوں کے مقابلے میں اعلیٰ انتظامات ہونگے لیکن عملا ًایسا کچھ بھی نہیں دکھائی دیا ،نہ بیت الخلاء نہ ہی چائے پانی کے انتظامات تھے بمشکل پینے کا پانی کے چند نل لگے ہوئے تھے ۔میلہ میں ہندوستان کے مختلف صوبوں سے متعدد مسلم و غیر مسلم ناشرین نے شرکت کی تھی اور کشمیر کے بک اسٹور کے مالکان نے بھی شرکت کی ہوئی تھی۔ ساتھ ہی چند ادیب حضرات جن کی روزی روٹی ادبی کتابوں کی فروخت سےچلتی ہے، وہ بھی شامل حال ساتھ ہی پر جوش تھے ۔بذات خود احقر دینی و ادبی کتابوں کو پڑھنے کا انتہائی ذوق و شوق رکھتا ہے ۔پندرہ سولہ سال کی عمر سے ہی احقر مطالع میں بغیر ناغہ مشغول ہے۔ احقر کا پہلا استاد والد صاحب تھے جو کورٹ کچہری میں ریٹائر ہونے کے بعد پٹیشن رائٹر یعنی اراضی نویس کی حیثیت سے کام انجام دیتے تھے ۔ آپ بہت اچھے لکھاری تھے، ان کا خطِ شکستہ دیکھ کر میں بہت متاثر تھا گرچہ یہ اسلوب انتہائی دشوار ہے پر دلچسپی کا حامل ہے ۔ بہر کیف میلہ میں پہنچتے ہی پہلا اِسٹال جو گڈ ورڑ بکس ( دہلی ) نے آراستہ کی ہوئی تھی انتہائی دلچسپی کا باعث بنا فوٹو میں دیکھا جاسکتا ہے ،بزرگوار شخصیت انتہائی سادہ مزاج مصنف عبدل الرحمان کوندو صاحب ان کے زیر قلم کئی کتابیں طبع ہوچکی ہیں، جن میں ’’ربّنا دعا کی کتاب‘‘ایک مشہور کتاب ہے ۔ان سے پہلی ملاقات کا شرف قریبا ًدو ہزار بیس میں باالواسطہ عزیزم غلام نبی کشافی صاحب ہوئی تھی ،ناچیز کی چند خصائص سن کر احقر کو ڈھیر ساری دعائیں دی تھی ۔کوندو صاحب نے سابق وزیر اعلیٰ جموں و کشمیر میر قاسم 1971 سے 1975 کے حوالے سے ایک واقع سنایا کہ میں نے ان کی خدمت میں مولانا وحید الدین کا اس زمانے سے شائع ہونے والا الرسالہ کا ایک شمارہ پیش کیا ۔پڑھنے کے بعد میر قاسم صاحب نے کہا کیا یہ واقعی کسی مولوی کا لکھا ہوا رسالہ ہے، انہوں نے حیرانگی کا اظہار کیا ۔ اصل میں مولانا وحید الدین خان صاحب نے الرسالہ میں جو اسلوب استعمال کیا تھا ،اگر کہا جائے تو میری نظر میں یہ بات منظور نظر ہے کہ آپ کا اسلوب دور جدید کا سائنٹفک اسلوب تھا یہی وجہ ہے لوگوں کو آپ مولانا نہیں بلکہ کوئی سائنس دان معلوم ہوتے تھے۔ دوسری شخصیت جن سے ملاقات ہوئی وہ مولانا وحیدین خان صاحب سے قریب تر ادیب فاروق مضطر صاحب جو انتہائی ملنسار اور خوش گوئی کے مالک ہیں ان سے مل کر لگ رہا تھا جیسے مولانا سے محو گفتگو ہوں، انہوں نے ڈھیر سارے مشورے اور نصیحتوں سے نوازااور چند مجلدات جن کی ترتیب و تہذیب ان ہی کی زیر صدارت ہوتی ہیں ۔احقر کو دوسری کتابوں سمیت تحفے میں دے دیں ۔ جن کے نام یہ ہیں ۔ دبستانِ ہمالہ ۔ دَھنک۔ مولانا وحید الدین خان اہل قلم کی تحریروں کے آئینے میں وغیرہ ۔ ان کے معاون ایک صاحب نے کہا میں نے ایک بار جسٹس کرمانی صاحب کو مولانا کی کتاب اسفار ہند کا ایک نسخہ پیش کیا، جسے لیکر کرمانی صاحب نے میز پر رکھ دیا۔ اسی اثنا میں ایک وکیل صاحب آئے کتاب کو دیکھ کر انہوں نے کہا جناب! کیا آپ مولانا خان کی کتابیں پڑھتے ہیں ۔ وکیل صاحب کا یہ منفی تاثر تھا کہ کرمانی صاحب نے وکیل صاحب سے کہا اگر یہ کتاب پڑھنے کی لایق نہیں ہے تو آپ اس کے متبادل میں کوئی کتاب دکھائیں لیکن آج تک وکیل صاحب کوئی کتاب نہ لا سکیں ۔ اصل میں اسفار پر لکھی گئیں کتابیں سفری معلومات کے تحت لکھی جاتی ہے ۔ مولانا نے اسفار پر جو بھی کتابیں لکھی ہیں ،جیسے اسفار ہند یا سفر نامہ غیر ملکی اسفار وغیرہ معلومات فراہم کرنے کے ساتھ ساتھ تذکیری پہلو کو زیادہ اُجاگر
کرتے ہیں یہی وجہ ہے کہ وکیل صاحب آج تک اس مثل کی کوئی کتاب نہ لاسکے ۔
میرے ہمراہ میرے دو قریبی دوست بھی کتاب میلہ میں شریک تھے، شیخ مدثر صاحب اور قیصر احمد جو کتب بینی کے اتنے شوقین ہیں کہ کتابوں کی فروخت اس انداز سے کرتے ہیں کہ بعض دفعہ احقر کو معلوم ہوتا ہے کہ خریداری میں ان سے پیچھے رہ گیا ہوں ۔کتابیں خرید نا انہیں پڑھنا زندہ قوم کی مثال ہے۔دار الندوہ کے ایک استاد چند شاگردوں کے ساتھ مولانا وحید الدین خان کے دولت خانہ پر وارد ہوئے، ان سے ملاقات کے آخر میں اُن کے استاد نے مولانا سے کہا ،جاتے جاتے آخری نصیحت فرمائے تو مولانا نے کہا ۔
پڑھو پڑھو، لکھو لکھو ،پڑھنے سے پڑھنا آتا ہے، لکھنے سے لکھنا آتا ہے ۔
(اومپورہ ہوسنگ کالونی بڈگام ۔رابطہ۔ 9906971488)