سید مصطفیٰ احمد ۔حاجی باغ بڈگام
سب سے بڑا انقلاب اذہان کا انقلاب ہے۔ جس دنیا میں ہم سانس لے رہے ہیں ،وہ مختلف اور متضاد عناصر کا ایسا جال ہے کہ اس کی جتنی بھی گرہے کھولی جاتی ہے، اُتنا ہی اُلجھنا ایک انسان کے نصیب میں آتا ہے۔ ایک انسان کو اس کی تہذیب سے پہچانا جاتا ہے۔ شعور کی معراج اور انسانیت کے اصولوں سے لبریز ایک انسان شائستہ اور باکردار لوگوں کی صفوں میں شامل ہوتا ہے۔ ہر تہذیب کی اتنی باریکیاں ہیں کہ یہ جیون ان کو سمجھنے کے لیے کم ہے لیکن ان متضاد تہذیبوں کے درمیان کچھ یکساں باتیں پائی جاتی ہیں جو ہر تہذیب کے لئے قابل اتباع اور دوسروں تک پہنچانے کے لائق ہیں۔ اگر موجودہ زمانے کو گزرے ہوئے زمانوں کے ساتھ موازنہ کیا جائے تو زیادہ فرق دکھائی نہیں دیتا ہے۔ مشکلات وہی ہیں مگر اب مشکلات کی شکلیں اور شدت میں بہت حد تک تبدیلیاں آئی ہیں۔ گناہ بھی وہی ہیں مگر شکلیں قدرے مختلف ہیں۔یہی میرے مضمون کا مغز اور نچوڑ بھی۔ ہر کوئی واویلا کررہا ہے کہ زمانہ خراب ہے۔ یہ بالکل غلط سوچ ہے۔ ہر دور گناہوں کی آماجگاہ رہا ہے۔ ہزاروں سال پہلی لکھی گئی کتابوں میں بھی ہمیں وہی گناہ ملتے ہیں جو آج کے زمانے میں پائے جاتے ہیں لیکن اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ تو پھر اس مضمون کو لکھنے کی ضرورت کیوں آن پڑی۔ ہاں! اس مضمون کو لکھنے کا بنیادی مقصد ہے کہ پہلے زمانے میں برائیوں اور خرابیوں کے خلاف روحانی سطحوں پر تدارک کی سبیلیں کی جاتی تھیں لیکن اب اس کے برعکس دکھائی دیتا ہے۔ ہر کوئی بدمست ہاتھی کی طرح اصولوں کی دھجیاں اڑا رہا ہے لیکن اس ہاتھی کو قابو میں لانے والے نایاب ہیں۔ اگر کوئی آواز بھی اٹھاتا ہے تو اس کی آواز صدا بصحرا ثابت ہورہی ہے۔ برائیاں زندگی کو سمجھنے کے بنیادی ستون ہیں۔ ابلیس سے خدا کی پہچان، تو نجات سے مغضوب کی پہچان ہوجاتی ہے لیکن ہمہ گیر نظریہ اس بات کا متقاضی ہے کہ متضاد اشیاء میں ایسی بھی کوئی راہ ہوسکتی ہے ،جس پر چلنے کی تلقین کی جاسکتی ہے۔ اس راہ کی طرف سب کو آنے کی دعوت دی جاسکتی ہے۔ دنیا کے جتنے فلسفے ہیں وہ اس بات پر آکر رُک جاتے ہیں کہ زندگی جینے کے لئے کچھ مخصوص باتوں کا پرچار اور کچھ گنے چنے اعمال کا کرنا نہایت ضروری ہیں۔ ان باتوں میں ہمدردی، وفاداری، شکرگزاری، غیبت سے پرہیز، بہتان سے دور رہنا، ناجائز رشتوں سے دامن کو بچانا وغیرہ شامل ہیں۔ مسائل تب پیدا ہوتے ہیں جب ان آفاقی اصولوں کی بےقدری کی جاتی ہیں۔ جب ان کے بارے میں بات کرنا جرم کہلاتا ہے، تب منہ کھولنے کی نوبت آتی ہے۔ ایسا کیونکر ہوتا ہے جو وجوہات ان حالات کو جنم دیتے ہیں ،ان کا ذکر مندرجہ ذیل سطروں میں کیا جارہا ہے۔
پہلی وجہ ہے اپنی ذات سے ناواقفیت۔ جو اپنی ذات سے ناقف ہوجاتا ہے ،اُسے اپنے نفس کے منافی چیزیں غلط دکھائی نہیں دیتی ہیں۔انسان کے جتنے بھی نفس ہیں، وہ ایک مخصوص محور کے اردگرد گھومتے ہیں۔ ان محوروں کی بنیاد نیک نیتی اور اعلیٰ اعمال پر کھڑی ہے۔ جب ایک شخص کے منہ سے ناشائستہ لفظ نکلتے ہیں تو روح کی دنیا میں طلاطم پیدا ہوتا ہے اور پاک نفس نجس نفس کو اس نجاست سے دور رہنے کی تلقین کرتارہتا ہے تاکہ اس انسان کی اندرونی دنیا میں احساسِ گناہ پیدا ہوجائے اور وہ اپنی اصلی حالت پر آجائے۔ اس کے برعکس آج کے بیشتر افراد اس خصوصیت سے خالی ہیں جس کی وجہ سے گناہوں کی شدت میں ہر روز اضافہ ہوتا ہے۔ دوسرا ہے آزمائش کو نظرانداز کرنا۔ جتنے منہ اتنی باتیں۔ کوئی بھی بات تب تک سچ کے زمرے میں نہیں ڈالی جاسکتی ہے جب تک وہ سچ کے کٹھن مراحل سے نہ گزرے۔ دنیا کی زندگی ایک عیاں آزمائش ہے۔ کوئی بھی شخص اس بات سے اختلاف کرنے کا حق رکھتا ہے۔ جینا مشکل ہے لیکن مرنا آسان۔ جینا مرنا ہے اور مرنا جینا ہے، جو اس متضاد بیانیہ کو سمجھ گیا، اس انسان کے اندر سے تبدیلیاں آنا شروع ہوجاتی ہیں۔ اس انسان کو پھر وعظ و نصائح کی ضرورت نہیں پڑتی ہے لیکن آج کے زیادہ تر لوگ دنیا کی زندگی کو ایک مفت میں ملا تحفہ سمجھ کر مزے سے اس کا ناجائز فائدہ اٹھا رہے ہیں۔ اس حالت میں اصولوں کی دھجیاں اُٹھنے کے علاوہ دوسرے لوگوں کے حقوق بھی سلب ہوجاتے ہیں۔ اس طرح مظلوم کی آواز نقارخانے میں طوطے کی آواز کے مترادف ہوجاتی ہے۔ امتحانات زندگی میں اصولوں کے پابند بناتے ہیں۔ جوابدہی کا مادہ اپنے آپ سے روبرو ہونے پر مجبور کرواتا ہے۔ جب ایسا مقام زندگی میں حاصل ہوجاتا ہے تو پھر شور اور شانتی کے بیچ کا فرق ہی مٹ جاتا ہے اور زندگی ثابت چٹانوں پر بنائے گئے ایک مضبوط عمارت کی شکل اختیار کرتی ہے۔ تیسرا اور آخری وجہ ہے دوسروں کی نقالی۔ دوسروں کی اندھی نقالی کبھی گہری کھائی میں گرانے کا سبب بنتی ہے۔ ہمارے ساتھ برابر یہی معاملہ ہے، ہمارے اندر خود کا راستہ بنانے کا مادہ جیسے ختم ہوچکا ہے جس کی وجہ سے ہم اوروں کی کئی باتوں کو من و عن تسلیم کرکے خود بھی گناہوں کی خرابیوں سے دامن چراتے ہیں۔
گناہوں کی کھیتی یہاں کھلتی رہے گی۔ صبح شام گناہ ہوتے رہیںگے۔ لوگ قتل کرتے رہیں گے۔ گھر اُجڑتے رہیں گے۔ خودکشیاں ہوتی رہیں گی۔ کسی کا بیٹا یا بیٹی ناحق موت کے منہ میں جاتے رہیں گے۔ ویرانیاں ہی ویرانیاں ہوگی۔ صبح رونے سے تو شام ماتم کرتے کرتے ختم ہونے کا نام نہیں لیں گی، لیکن ان تباہیوں میں ہی کم از کم امیدوں کی مشعل جلانے کی فکر کرنی ہے۔ نیک کاموں کو جتنا ہوسکے، عملانے کی ضرورت ہے۔ پھٹی ویران بستی میں جوڑنے کا کام کرنا ہے۔ احساس گناہ کا مادہ اپنے اندر پیدا کرنا ہے۔ راتوں کے اندھیروں سے لڑنے سے کیا ہوگا۔ ایک شمع کا انتظام کرکے رہزنوں اور رہبروں کے فرق کو سمجھایا جاسکتا ہے۔ گناہوں کا توڑ من کے اندر ہے۔ ڈر سے آج تک کوئی کام اپنے اختتام کو نہیں پہنچا ہے۔ اگر کچھ پہنچا ہے تو وہ ہے احساس ذمہ داری اور احساس جرم۔ چیزوں کو لوگوں پر تھوپنے سے بہتر ہے کہ خود سنبھل جائیں۔ ایک نیک کام انجام دینے سے ایک گناہ کا دروازہ ضرور بند ہوجاتا ہے۔ آہنی چنے چبانے کے مترادف یہ کام کافی صبر مانگتا ہے۔ اس صبر سے کم از کم طوطے کو نقار خانے میں چیخنے کی ضرورت نہیں پڑے گی۔ خرابیوں کا احساس اگر حاصل ہے، تب مطمئن رہے کہ آگے منزلیں آسان ہوگی۔ جتنا ہوسکے اپنے آپ کو صحیح راستے پر لانے کی کوشش کریں اور یہی وقت کی ضرورت بھی ہے۔
رابطہ۔7006031540
[email protected]