ابو سلیمان
دل کے دورے (ہارٹ اٹیک) یا اسٹروک (فالج) میں فوری طبی امداد کی فراہمی جان بچانے کا واحد طریقہ ہوتی ہے۔رپورٹ کے مطابق دل کی شریانوں کی بیماری یا سے جاں بحق ہونے والوں میں 85 فیصد کی عمریں 65 برس سے زیادہ ہوتی ہیں۔مردوں میں دل کا دورہ پڑنے کا خطرہ عورتوں کی بہ نسبت زیادہ ہے۔اگرکسی کے والدین،بھائی بہنیں دل کی بیماری میں مبتلا رہ چکے ہوں تو اس شخص میں دل کی بیماری میں مبتلا ہونے کا خطرہ زیادہ ہوتا ہے یعنی اس معاملے میں وراثت کا اہم کردار ہے۔دورِ جوانی اور ادھیڑ عمری میں مناسب احتیاط سے بعض اسباب کو قابو میں رکھا جائے تو دل کی بیماری میں مبتلا ہونے کے امکانات کم ہو سکتے ہیں،اگر بیماری کا حملہ ہو چکا ہو تو صورت حال کو مزید خراب ہونے سے روکا جا سکتا ہے۔اس لئے اُن افراد کے لئے لازم ہے،جن کے خاندان میں دل کی بیماریاں ہوں یا کسی شخص کو ہائی بلڈ پریشر،کولیسٹرول،ذیابیطس یا موٹاپے کا مسئلہ ہو تو ایسے افرادکو اپنی صحت پر زیادہ توجہ دینا چاہیے۔
صحت کی خرابی کی ایک اہم وجہ ذہنی دباؤ (Stress) ہے۔اسٹریس سے جسم کے ہارمونی نظام،بلڈ پریشر اور دل کی صحت پر مضر اثرات ہو سکتے ہیں۔ہر فرد کے لئے ضروری ہے کہ وہ اپنے والد، والدہ، دادا، دادی، نانا، نانی، والد کے بھائی، بہن والدہ کے بھائی بہن، اپنے اور اپنے بھائی بہنوں کی صحت کی حالت سے آگاہ ہو۔
خاندان کی صحت سے متعلق معلومات حاصل کرتے ہوئے یہ جاننے کی کوشش کی جائے کہ فیملی میں پیدائشی نقائص،دل کی بیماریوں،ذیابیطس،آنکھوں کے نقائص،گردوں اور جگر کی بیماریوں،ہڈیوں اور عضلات کی بیماریوں،نفسیاتی یا دماغی امراض،سانس کے امراض اور جلدی امراض کی کیا ہسٹری ہے۔
کئی بیماریاں موروثی بھی ہوتی ہیں جو خاندان کے ایک فرد یا ایک نسل سے دوسری نسل کو پہنچتی ہیں۔فیملی ہیلتھ ریکارڈ ایسی حالتوں میں بیماریوں کو روکنے اور ان کا علاج کرنے میں مددگار ہو سکتا ہے۔ممکن ہے، ابتداء میں یہ بات کچھ نامناسب ہی لگے کہ اسلاف کی بیماریوں کو ضبط تحریر میں لایا جائے مگر ان بیماریوں کو ریکارڈ میں لانے کا مقصد یہ ہے کہ آئندہ نسل کو ان بیماریوں سے محفوظ رکھا جا سکے۔علاج و تشخیص میں سہولت کے لئے ضروری ہے کہ مریض کی ذاتی صحت کا تفصیلی ریکارڈ موجود ہو۔یہ بات خوش آئند ہے کہ آج کل پڑھے لکھے لوگوں میں ہیلتھ ریکارڈ کی اہمیت کا احساس بڑھ رہا ہے،کئی لوگ فائل وغیرہ رکھ رہے ہیں۔بیماری کی کیفیت کا کوئی احوال ہو سکتا ہے کہ بیمار کے لئے اہم نہ ہو لیکن وہ معالج کے لئے اہم ہو سکتا ہے۔ اس لئے اپنی صحت کے حوالے سے ہر بات معالج کے علم میں لانا چاہیے۔