نشاط جبین نشاط
واجد اختر صدیقی، کاتعلق روحانی سر زمین الند شریف ضلع گلبرگہ کرناٹک انڈیا سے ہے۔ انکی پیدائش10 اکتوبر 1974 کو علمی وادبی گھرانے میں ہوئی۔ آپکے والد مولوی محمد شفیع الدین صدیقی شاعری سے گہرا شغف رکھتے ہیں۔ واجد اختر صدیقی کی ابتدائی تعلیم وہیں اپنے آباء گاؤں میں ہوئی۔کم سنی یعنی 22سال کی عمر میں وہ پیشہ درس و تدریس سے وابستہ ہوئے ۔ بی اے گلبرگہ یونیورسٹی سے تکمیل کیا۔بی ایڈ کی تعلیم انھوں نے مولانا آزاد نیشنل اوپن یونیورسٹی حیدرآبادسے مکمل کرنے کے بعد کرناٹک اسٹیٹ اوپن یونیورسٹی میسور سے ایم اے اردو میں گولڈ میڈل حاصل کیا اور وہیں سے ایم فل کی اعلیٰ سند حاصل کی۔ آپکی پہلی تخلیق غزل1993 میں ماہنامہ بیسویں صدی نء دہلی میں شائع ہوئی۔ ویسے تو وہ بنیادی طور پر شاعر ہیں،ان دنوں بہ حیثیت مبصر،تجزیہ نگار،تدوین کار، محقق اور تنقید نگار کے آپکی شہرت اور مقبولیت چہار سو پائی جاتی ہے۔ وہ اردو کے ایک ممتاز شاعر اور نامور ادیب ہیں ،جنہیں ان کی اہم ادبی خدمات کے لیے جانا جاتا ہے۔ انہوں نے اب تک پانچ مشہور کتابیں تصنیف و تالیف کیں۔ جن میں 1۔تعلیم احتساب و توازن (تعلیمی مضامین 2003) 2۔آفاق (گلبرگہ کے نامور قلمکاروں کا انتخاب 2005ڈاکٹر وحید انجم کی شراکت سے)’3۔نشانات سہر وردی (فرد اور فن 2018)4۔نقش تحریر (گلبرگہ کی معروف قلمکاروں پر تحریر یں 2023)اور 5۔ شمع رحمت (معروف شاعر سعید عارف کی نعتوں کا مجموعہ ترتیب و تحقیق 2023) شامل ہیں۔انکی یہ کتابیں اردو ادب میں سرمایہ کی حیثیت رکھتی ہیں۔ صدیقی صاحب اردو ادب کے ساتھ ساتھ علمی تعلیمی میدان میں سرگرم عمل ہیں اور ہندوستان بھر کے ممتاز اردو ادبی حلقوں کے ساتھ آپکی دیرینہ وابستگی ہے، ان کے کام باقاعدگی سے موقر قومی اخبارات میں شائع ہوتے رہتے ہیں۔ آپ کی تخلیقات میں لسانی فراوانی اور زندگی کی بصیرت سے بھرپور تجزیہ کا ہم آہنگ امتزاج موجود ہوتاہے۔
صدیقی صاحب کے مضامین اور تجزیے اپنی دیانتداری، درستگی اور وضاحت کے لیے مشہور ہیں۔ صدیقی صاحب موضوعات کی حساسیت کو سمجھتے ہوئے غیر ضروری لفاظی سے گریز کرتے ہیں۔ ان کی ہر تخلیق شاعری اور ادب میں عصری مطابقت پیدا کرنے کی ان کی غیر معمولی صلاحیت کو ظاہر کرتی ہے، جو انہیں جدید قارئین کے لیے قابل رسا اور دلکش بناتا ہے۔ صدیقی صاحب کی مسلسل نثر سے وابستگی اور تحریر کی دلکشی انکو دیگر سے ممتاز کرتی ہے۔ ان کی اختراعی صلاحیتیں جنوبی ہندوستانی ادب میں ان کی شراکت کو نمایاں کرتی ہیں۔ ان کی کتاب ”نقش تحریر” ان لوگوں کے لیے اہمیت کی حامل ہے جو سوچے سمجھے اور اچھے ادبی تجزیے کے خواہاں ہیں۔کتاب تعلیم احتساب و توازن میں انھوں نے اپنی علمی تعلیمی اور تدریسی تجربات کا نچوڑ پیش کیا ہے۔ کتاب آفاق میں گلبرگہ کے نامور قلمکاروں کی تخلیقات کو پیش کرتے ہوئے ان کی ادبی سمت و رفتار کا ہدف متعین کیا ہے۔کتاب نشانات سہروردی میں ہندو پاک کے معتبر جدید افسانہ نگار پروفیسر حمید سہروردی کے فن اور شخصیت کا محاکمہ منظر عام پر لایا ہے۔ کتاب شمع تحریر میں گلبرگہ کے معروف مرحوم شاعر کی نعتوں کو یکجا کرتے ہوے انکے فنی محاسن اور کمالات کا جائزہ لیا ہے۔
تعلیمی مو ضوعات پر انکے مضامین اور ان میں شامل انکی آراء، اور دیگر مواد انکے تجربات و مشاہدات کی بھٹی میں تپ کر سماج و معاشرے کے روشن مستقبل کی ضمانت بنتے ہیں۔ انکی شخصیت کے کئی پہلو ہیں اور ہر پہلو میں انکی تہہ داری ان سے خاص ہے گویا ان کا ثانی ملنا محال ہے۔ عاجزی انکساری اور منکسرالمزاجی انکے مزاج کے اوصاف حمیدہ ہیں۔
اپنی ادبی کامیابیوں سے ہٹ کر، صدیقی صاحب نے کرناٹک کے ادبی منظر نامے کو مالا مال کیا ہے، اپنی تحریروں کے ذریعے جنوبی ہندوستانی ثقافت اور اسلامی اخلاقی اقدار کی میراث کو آگے بڑھانے میں اہم کردار ادا کیا ہے۔ آپ کی تخلیقات نہ صرف اس خطے کے زر خیز ادبی ورثے کی عکاسی کرتے ہیں بلکہ مستقبل کی ادبی کوششوں کو بھی متاثر کرتے ہیں۔ میں واجد اختر صدیقی کی اسی طرح مسلسل کامیابی کی توقع کرتی ہوں اور ان سےآنے والے برسوں میں مزید ادبی کامیابیوں کی متمنی بھی ہوں۔
رابطہ۔9739501549
[email protected]