Facebook Twitter Youtube
  • تازہ ترین
  • کشمیر
  • جموں
  • شہر نامہ
  • برصغیر
  • بین الاقوامی
  • سپورٹس
  • صنعت، تجارت
  • کالم
    • مضامین
    • گوشہ خواتین
    • خصوصی انٹرویو
    • جمعہ ایڈیشن
    • تعلیم و ثقافت
    • طب تحقیق اور سائنس
  • ملٹی میڈیا
    • ویڈیو
    • پوڈکاسٹ
    • تصویر کہانی
  • اداریہ
  • ادب نامہ
    • نظم
    • غرلیات
    • افسانے
  • تازہ ترین
  • کشمیر
  • جموں
  • شہر نامہ
  • برصغیر
  • بین الاقوامی
  • سپورٹس
  • صنعت، تجارت
  • کالم
    • مضامین
    • گوشہ خواتین
    • خصوصی انٹرویو
    • جمعہ ایڈیشن
    • تعلیم و ثقافت
    • طب تحقیق اور سائنس
  • ملٹی میڈیا
    • ویڈیو
    • پوڈکاسٹ
    • تصویر کہانی
  • اداریہ
  • ادب نامہ
    • نظم
    • غرلیات
    • افسانے
Kashmir Uzma
  • تازہ ترین
  • کشمیر
  • جموں
  • شہر نامہ
  • برصغیر
  • بین الاقوامی
  • سپورٹس
  • صنعت، تجارت
  • کالم
    • مضامین
    • گوشہ خواتین
    • خصوصی انٹرویو
    • جمعہ ایڈیشن
    • تعلیم و ثقافت
    • طب تحقیق اور سائنس
  • ملٹی میڈیا
    • ویڈیو
    • پوڈکاسٹ
    • تصویر کہانی
  • اداریہ
  • ادب نامہ
    • نظم
    • غرلیات
    • افسانے

Kashmir Uzma

Latest Kashmir News | Kashmir Urdu News | Politics, India, International, Opinion

Font ResizerAa
Search
Follow US
مضامین

! آن لائن جوےکی وبائی صورت حال معاشرے کے لئےتباہ کُن بے جا اُمیدوں اور پُر فریب خوابوں میں زندگی گزارنا خود کو دھوکہ دینے کے مترادف

Towseef
Last updated: August 16, 2024 11:21 pm
Towseef
Share
13 Min Read
SHARE

سید مصطفیٰ احمد ۔ بڈگام

حیراں ہو کہ دل کو روؤں کہ پیٹوں جگر کو میں۔ عجیب داستاں ہے یہ کہاں شروع کہاں ختم، یہ موجودہ زمانے کی نسل کس مٹی کی پیداوار ہے؟گذشتہ روز علی الصبح غیر سرکاری ذرائع سے یہ خبر موصول ہوئی کہ کشمیر کے ایک باشندے نے آن لائن جوے میں لگ بھگ پچیس لاکھ سے زائد کی رقم گنوا دی ہے اور اب وہ اپنے گردوں کو سر بازار نیلام کرنے پر آمادہ ہے۔ آن لائن جوے میں پیسے گنوانے کےاس طرح کے کئی اور واقعات رونما ہوئے ہیں،تاہم ان واقعات کا معاملہ اتنا زیادہ سنگین نوعیت کا نہیں ہے۔ ’’نہ خدا ملا نہ وصال صنم۔ نہ اِدھر کے رہے نہ اُدھر کے‘‘ کے مصداق یہ شعر ہمارے معاشرے کے بیشتر نوجوانوںکی حالتِ زار کا بھرپور ترجمان ہے۔ جب سے موبائل فونز نے اپنے زہریلی کانٹے اِس زمین میں سختی کے ساتھ گاڑدیئے ہیں، تب سے ان کانٹوں کی شکل میں’’ آن لائن جوے‘‘ کی خار دار جھاڑیوں نےہمارے نوجوانوںکے دامن کو سختی سے پکڑکے رکھا ہے۔ کسی شاعر نے کیا خوب لکھا ہے کہ کوئی کیا سمجھے گا رازِ گلشن، جب تک نہ اُلجھے کانٹوں سے دامن۔ اس شعر کی افادیت آفاقی ہے، لیکن ہمارا دامن جوے کے کانٹوں میں اس طرح اُلجھ گیا ہےکہ رازِ گلشن کے ساتھ ساتھ زندگی کے راز بھی داؤ پر لگ گئے ہیں اور زندگی مفلسی کی بددعا بن کر رہ گئی ہے۔اس لئے یہ کہنا بالکل بے جا نہ ہوگا کہ اس گھر کوآگ لگ گئی ہے اپنے ہی چراغ سے۔جس کے تناظر میں ہم نے خود ہی اپنے آپ کو تباہی کے حوالے کردیا ہے۔ تعجب ہے کہ ایسے بہت سے پُر فریب خوابوں نےکشمیری نوجوانوں کی ایک بڑی تعداد کی نیندیں اُڑادی ہیں ،جن کے حصولِ تعبیر کے لئے وہ نہ صرف اپنا قیمتی وقت بُرباد کررہے ہیں بلکہ اپنے والدین کی کمایا ہوا پیسہ مفت میں گنوا رہے ہیں۔ ایسی کونسی مجبوریاں اور مصائب اُن پر آن پڑے ہیں،جن سے چھٹکارا پانے کے لئے وہ ہر ناجائز راستے کا انتخاب کرتے ہیںاور اس شغل میں اپنی آن بان اور شان کو بھی مٹا رہے ہیں۔

گذشتہ چند برسوں کے دوران ، ہزاروںآن لائن جواریوں نے اپنے گھرانے ویران کرکے رکھ دیئے ہیں۔ بہتوں کی تو یہ خبر تک نہیں کہ وہ اس وقت کس حال میں ہیں۔جبکہ بہت سارے لوگ اپنے اس بُرے کام کو بیان کرنے کی ہمت تک نہیں کرپارہےہیں۔ راقم نے خود کئی افراد کو اس کا ناجائزدھندے میں بھرپور طریقے پرلُٹتے ہوئے بھی دیکھا ہے۔جس کے نتیجے میں بھائیوں نے بہنوں کی جائیداد وںپر قبضہ جمالیا ہے، یہاں تک کہ اپنی بہنوں کے زیورات پر ڈھاکہ مارنے سے بھی گریز نہیں کیااور پھریہ زیورات اُن بےغیرت اور بے ضمیر لوگوں کی گود میں ڈال دیا جو لوگوں کو نام نہاد ترقی،خوشحالی اور تن آسانی کا جام پلاتے رہتے ہیں۔ اُن بے ضمیروں سے ہمیں کوئی گلہ نہیں ،کیونکہ اُن کا کام ہی گورکھ دھندہ ہے۔البتہ ہمیںاگر دُکھ ہے تو اس بات کا کہ ہمارے معاشرے کے لوگ بار بار ٹھوکر کھانے کے بعد بھی کیوں سُدھر نہیں جاتے، اور وہی غلطیاں دہراتے چلے جاتے ہیں،جن سےنہ اُن کی زندگی سنورتی ہےنہ دنیا بنتی ہے اور نہ ہی آخرت۔بیشتر نوجوانوں نےاپنے والدین کی جمع پونجی کو مفت میں گنوا کر اپنےگھر والوں کے لیے بڑے بڑے چاہ کھوددیئے ہیں،جن میںافرادِ خانہ کا بیڑا ہی غرق ہورہا ہے۔ایسے بے شمار گھرانے ہیں،جو اپنی اولاد کی اس کالی کرتوت سے خستہ حال بن چکے ہیں۔ستم ظریفی کا عالم یہ بھی ہے کہ لڑکوں کے علاوہ لڑکیاں بھی اس جوےکی لت میں اس طرح مبتلا ہوچکی ہیں کہ عقل دھنگ رہ جاتی ہے۔ تعلیم اور سوشل کنکشنز کو برقرار رکھنے کی خاطر ہر ایرےغیرے نتھوخیرے کے ہاتھ میں موبائل فون آجانے کا ہی نتیجہ ہے کہ پڑھائی کرنے کے بہانے اپنے کمرے میں بیٹھ کر بیشتر لڑکے اور لڑکیاں جوے اور بےحیائی کی گہرائیوں میں اس قدر ڈوب جاتے ہیں کہ وہاں سے صحیح سلامت واپس نکلنا تک محال دکھائی دیتا ہے۔ گویاشاہین کا لقب پانے والے،اب ذاغ بن کر رہ گئےہیں۔ یہ بات بھی سمجھ سے بالاتر ہوگئی ہےجہاں علم ،نور کی شکل میں راستوں کا صحیح تعین کرواتا ہے وہیں ہمارے یہاں اُلٹی گنگا کیوںبہتی ہے،جس سےاب یہاں کاعلم گھاٹے کا سودا بن گیا ہے، بہ الفاظِ دیگر یہاں عمل، بربادی کی طرف گامزن ہوکر رہ گیا ہے۔ اب ایسے کونسے وجوہات ہیں جن کی وجہ سے لوگ آن لائن جوے کا تر نوالہ بن رہے ہیں۔ کچھ کا مختصر ذکر آنے والی سطروں میں کیا جارہا ہے۔

پہلی وجہ ہے کاہلی:۔اس غیر اخلاقی صفت نے ہم سب کو کہیں کا بھی نہ چھوڑاہے۔ ظاہر ہے کہ سُستی اور کاہلی بےغیرتی کا موجب بنتی ہےاور بے غیرتی جس قوم کا شیوہ بن جائے، اُس قوم سے اللہ بھی ناراض رہتاہے ۔ سُست ،کاہل اورمحنت و مشقت سے جی چرانے والے آخرکار تنِ آسانی کی راہوں پر چلنے پر مجبور ہوجاتے ہیںاور بے جا اپنے کمروں میں بیٹھ کر ماں باپ اور بھائی بہن سے اُدھار مانگے پیسوں سے جوا کھیلتے رہتے ہیں۔جب نوجوان لڑکےاور لڑکیاں معیاری موبائل فونز اور شاندار گاڑیوں کے حصول کے لئےبےپَر اوربےسَر کے خواب دیکھنے لگتے ہیں تو اُن کی جمع پونجی پر ضرورکاری ضربیں لگتی ہیں، جو اُن کےلئے مستقبل میں بےچینیوں کا سبب بنتی ہیں۔ دوسرا ہے بڑوں کی نااہلی اور لالچ:۔ اللہ پاک نے زور دے کر اس بات کو واضح کیا ہے کہ اولاد اور مال دونوں انسان کے لئے آزمائش ہیں۔ بہتریہی ہے کہ اپنی اولاد کی بہتر تربیت کی جائے اور اُن کے حرکات و سکنات پر کڑی نظر رکھی جائے۔ چنانچہ ہرماں باپ اپنی اولاد کوکامیاب دیکھنا چاہتے ہیں،جوکہ قابل قدرسوچ ہے لیکن کامیاب کس معاملے میں۔ کیامحض سماج کے بنائے ہوئے اصولوں پر کھرا اُترنے کا نام کامیابی ہے یا پھرپُر تعش و آرام دہ زندگی گزارنے کا نام کامیابی ہے۔ ہم ہر روز کھانا کھاتے ہیں، بعض دفعہ یہ پیٹ کھا کھا کے بھی نہیں بھرتا ہے۔ دولت بھی نمکین پانی کی طرح ہے، جتنا اس کو پیا جائے، اتنی ہی پیاس بڑھ جاتی ہے۔ ان حالات میں ہمیں اپنے اولاد کی تربیت کی فکر کتنی دامن گیر ہونی چاہیے ، ہم اس کا اندازہ خود لگا سکتے ہیں۔ ہم اکثر اپنے اولاد کو کامیاب دیکھتے ہوئے یہ بھول جاتے ہیں کہ کامیابی کیسے حاصل کی جائے۔ اولاد کولالچ کی نگاہوں سے دیکھ کرزیادہ تر والدین خسارے میں رہ جاتے ہیں۔ گاڑی، ڈگری، مکان، شادی، بینک بیلنس، زمین، جائداد وغیرہ کی خاطر والدین بلا سوچے سمجھےسولی پر چڑھنے کے لئے تیاررہتے ہیں،جس کے نتیجے میںبالآخر اُنہیںسولی پر ہی لٹک جانا پڑتا ہے۔ ہم نے شائد منشائے الٰہی پر مطمئن رہنے کی سوچ ہی بدل ڈالی ہے۔رات دن اپنی کم فہمی ،نااہلی اور لالچی سوچ میں وقت ضائع کرکےاپنی بربادی کا سامان پیدا کرتے رہتے ہیں۔ نتیجتاًدل کا سکون ختم ہونے کے ساتھ ساتھ ہماری زندگی کسی بھی بوجھ کو اُٹھانے کے قابل نہیں رہتی ہےبلکہ خود ایک بوجھ بن کر رہ جاتی ہے۔ تیسری اور آخری وجہ ہے ہماری کمزوریاں:۔قومیں خون اور پسینے کو ایک ساتھ بہانے سے بنتی ہیں۔ جب روح زخموں سے چھلنی ہوتا ہے تب جاکر شاندار حال اور مستقبل کی بنیاد پڑتی ہیں۔ اس کے برعکس ہمارے یہاں نہ تو تہذیب کا علم ہے نہ انسانیت کے اصولوں کا گھیان۔ جانوروں کی طرح جینے والوں کو بَس نفس سے غرض ہوتاہے۔یعنی مفاد پرستی اور مادیت پرستی کے شکار لوگوں کومحض پیسے اور منصب سے مطلب ہوتا ہے۔ وہ ہر انداز میں بَس پیسوں کا حصول چاہتے ہیں،گویا ان کا زندگی محض پیسے اور منصب کے محور میںہی گھومتی رہتی ہے۔ ایسے لوگوں کا جوے کا شکار ہونا فطری بات ہے۔ ایسے لوگ اس ٹوہ میں لگے رہتے ہیں کہ کہاں سے پیسے کمایاجائے۔جائز اور ناجائز کی ان میں تمیز نہیں ہوتی، وہ وہی راستے ڈھونڈتے رہتے ہیں،جن سے محنت کے بغیر پیسوں کے ڈھیر مہیا ہوسکیں۔
وقت کی ضرورت ہے کہ ہرذی حِس شخص ہوش کے ناخن لیں۔ اس ضمن میں سب سے زیادہ توجہ نوجوانوں پر مرکوز رکھنا لازمی ہے۔ بڑوں کا فرض ہے کہ وہ اپنے آپ کا جائزہ لیںاور ضروریات زندگی کو اعتدال میں پیدا کرکے نفسِ امّارہ کو مارکر اطمینان کی زندگی گزاریںاور اس بات کو گلے لگائیںکہ یہ زندگی عارضی ہے،جو محدود آمدنی پر بھی قائم رکھی جاسکتی ہے۔ہم کیوں اپنی زندگی کو اتنا کم بخت بنائیں کہ بالآخر مرنا ہی جینے سے بہتر سمجھا جائے۔ یا دہے کہ اَنّا کا مرض قوموں کی جڑوں کو کھوکھلا کردیتا ہے۔ اس سے اولاد اور سماج دونوں پربُرے اثرات مرتب ہوتے ہیں۔ مذاہب کے آفاقی اصولوں کے تحت زندگی گزارنا شروع کریں۔ گھر سے شروعات کرکے بازار میں بھی جتنا ہوسکے ایمان داری کا مظاہرہ کریں، اپنے اندر جوابدہی کا مادہ پیدا کرکے خود اچھا بننے کی کوشش کریںاور لوگوں کے بنائے ہوئے اصولوں کو اُتار پھینک کر اللہ کے طے کردہ اصولوں پر عمل پیرا ہوجائیں۔ ہاں! حقوق العباد کا دامن ہاتھ سے چھوٹنے نہ دیں۔ جو خواب پورے نہ ہوں، اُن سےپیچھے بھاگنے سے پرہیز کریں۔ موبائل فونس اور ٹیلی ویژن پر چلنے والے چلنے والے اُن ڈراموںاور بے حیا باتوں سے دور رہنے کی کوشش کریں،جن سے ہماری اچھائیوں پر وار ہوتے ہیں اور ہماری زندگیاں تباہ ہوجاتی ہیں۔ نابالغ رشتوں سے بچوں کو دور رکھا جائے۔ سب سے ضروری بات یہ ہے کہ شادی شدہ افراد غیر محرم رشتوں میں بندھنے سے پرہیز کریں، اس سے سماج گمراہی اور جنس پرستی کا شکار ہوجاتا ہے۔ اس کے علاوہ بیت المال کو فعال بنانے کی ضرورت ہے۔ مقصد بیت المال اور زکوٰۃ کی باریکیوں سے لوگوں کو روشناس کرایا جائے۔ نکاح کی افادیت پر زور دیا جائے، سادہ نکاح کی خوبیاں بیان کی جائیںاور سادہ زندگی گزارنے پر ہر کسی کو آمادہ کرنے کی ہر ممکن کوشش کریں۔ سرکار کو بھی ایسا نظام ترتیب دینا چاہیے کہ جس سے لوگ آن لائن جوے سے دور رہ سکیں۔جبکہ سرکار کو چاہئے کہ وہ بے کار نوجوانوں کو روزگار فراہم کرنے کے اسباب کریں۔ایک اور بات ، جس کی سب کو فکر کرنی چاہیے وہ یہ ہے کہ نیک کاموں میں ایک دوسرے کے معاون بنیں۔ لڑکھڑاتے ہوئے لوگوں کا کسی نہ کسی روپ سہارا بن جائیں۔ چنانچہ ہمارے معاشرے کے دن بہ دن ابتر ہورہے ہیں،اس لئے ہم سب کو جاگنا چاہئے۔ رنجشیں لاکھ سہی لیکن ہم اپنے جیسے لوگوں کو ڈوبتے ہوئے نہیں دیکھ سکتے ہیں۔ قبل اس کےپانی سر کے اوپرہوجائے،ہمیں جاگنے کی اشد ضرورت ہے۔وقت کا بھی تقاضا ہے،معاشرے کا ہر ذِی حس فردلوگوں کو جگانے میں جُٹ جائیںتاکہ اللہ ہمارے حال پر رحم فرمائے۔
رابطہ۔7006031540
[email protected]

Share This Article
Facebook Twitter Whatsapp Whatsapp Copy Link Print
کشمیر میں اگلے چوبیس گھنٹوں کے دوران موسم گرم و مرطوب رہنے کا امکان
برصغیر
ریاستی درجہ بحال کرنے کے مطالبے کو لیکر کانگریس کا احتجاج، پولیس نے مارچ ناکام بنا دیا
تازہ ترین
جموں :کٹھوعہ میں ایم ٹی ایس ملازم منشیات فروشی میں ملوث ہونے پر برطرف
تازہ ترین
دومیل بالتل میں امرناتھ یاتری بے ہوش ہوکر جاں بحق
برصغیر

Related

کالممضامین

افسانوی مجموعہ’’تسکین دل‘‘ کا مطالعہ چند تاثرات

July 18, 2025
کالممضامین

’’تذکرہ‘‘ — ایک فراموش شدہ علمی اور فکری معجزہ تبصرہ

July 18, 2025
کالممضامین

نظموں کا مجموعہ ’’امن کی تلاش میں‘‘ اجمالی جائزہ

July 18, 2025
کالممضامین

حیراں ہوں دِل کو روؤں کہ پیٹوں جگر کو میں ؟ ہمارا معاشرہ

July 18, 2025

ملک و جہان کی خبروں سے رہیں اپڈیٹ

نیوز لیڑ ای میل پر پائیں

پالیسی

  • ڈیٹا پالیسی
  • پرائیویسی پالیسی
  • استعمال کرنے کی شرائط
  • ڈیٹا پالیسی
  • پرائیویسی پالیسی
  • استعمال کرنے کی شرائط

سیکشن.

  • اداریہ
  • برصغیر
  • بین الاقوامی
  • تعلیم و ثقافت
  • اداریہ
  • برصغیر
  • بین الاقوامی
  • تعلیم و ثقافت

مزید جانیں

  • ہمارے بارے میں
  • رابطہ
  • فیڈ بیک
  • اشتہارات
  • ہمارے بارے میں
  • رابطہ
  • فیڈ بیک
  • اشتہارات
Facebook

Facebook

Twitter

Twitter

Youtube

YouTube

Instagram

Instagram

روزنامہ کشمیر عظمیٰ کی  ویب سائٹ  خبروں اور حالات حاضرہ کے حوالے سے جموں وکشمیر کی  اردو زبان کی سب سے بڑی نیوز ویب سائٹ ہے۔ .. مزید جانیں

© GK Communications Pvt. Ltd.. All Rights Reserved.
Welcome Back!

Sign in to your account

Username or Email Address
Password

Lost your password?