ندیم احمد میر
اسلام مایوسی اور ناامیدی کا سخت دشمن ہے۔چونکہ مایوسی کفار کا شیوہ ہے اس لیے مسلمان کو یہ قطعاً زیب نہیں دیتی ہے۔اس چیز کا تذکرہ کرتے ہوئے قرآنِ پاک ہمیں ان الفاظ میں رہنمائی فرما رہا ہے:’’جن لوگوں نے اللّٰہ کی آیات کا اور اس سے ملاقات کا انکار کیا ہے وہ میری رحمت سے مایوس ہو چکے ہیں اور ان کے لیے دردناک سزا ہے۔‘‘(العنکبوت:٢٣)جس طرح ربِ کریم کے فضل و رحمت کا کوئی کنارہ نہیں ہے اسی طرح ایک بندہ مومن کی امید بھی بیکراں ہوتی ہے اور اس سے زیادہ پُرامید شخص دنیا میں کوئی اور ہو ہی نہیں سکتا۔اہلِ ایمان مایوسی کا شکار کبھی نہیں ہوتے ہیں کیونکہ وہ ایمان لا کر ایسی عظیم ہستی کو تسلیم کرتے ہیں جو پوری کائنات کا نظام اس طرح چلا رہی ہے کہ اس کی نظر سے نہ تو کوئی چیز اوجھل ہے اور نہ ہی وہ کسی کام کے کرنے سے عاجز ہے۔اہلِ ایمان کو اللّٰہ پر ایمان اور اس کی صفات کا استحضار ہی مایوسی اور ناامید ہونے سے بچاتا ہے،جیسا کہ ارشاد باری تعالیٰ ہے:’’اللہ کی رحمت سے مایوس نہ ہو،اس کی رحمت سے تو بس کافر ہی مایوس ہوا کرتے ہیں۔‘‘(یوسف:٨٧)
قرآنِ پاک اُمید کے دِیے روشن کرنے والی کتاب ہے،جس کے الفاظ جابجا اور ہر گھڑی بندہ مومن کے لیے امید کا چراغ روشن کرتے نظر آتے ہیں۔مایوسی اور ناامیدی کو اللّٰہ تعالیٰ کس قدر ناپسند کرتا ہے،اس کا اندازہ ذیل کی آیتِ مبارکہ سے ہوتا ہے:
’’جو شخص یہ گمان رکھتا ہو کہ اللہ دُنیا اور آخرت میں اُس کی کوئی مدد نہ کر ے گا اُسے چاہیے کہ ایک رسّی کے ذریعے آسمان تک پہنچ کر شگاف لگائے،پھر دیکھ لے کہ آیا اُس کی تدبیر کسی ایسی چیز کو رد کر سکتی ہے جو اس کے ناگوار ہے۔‘‘(الحج:١٥)
اس آیت کی دلنشیں تشریح کرتے ہوئے مولانا ابو الکلام آزادؒ لکھتے ہیں کہ:’’جس انسان نے امید و یقین کی جگہ شک و مایوسی کی راہ اختیار کی،خواہ دنیا کی زندگی کے لیے ہو خواہ آخرت کے لیے،اسے سمجھ لینا چاہیے کہ اب اسے زندہ رہنے کا کوئی حق نہیں۔ایسے آدمی کے لیے صرف یہی چارہ رہ جاتا ہے کہ گلے میں پھندا ڈالے اور زندگی ختم کر ڈالے۔ سبحان اللّٰہ!انسانی زندگی کے تمام مسائل اس ایک آیت نے حل کر دیے۔زندگی امید اور سعی ہے۔موت مایوسی اور ترک سعی ہے۔پس اگر ایک بد بخت نے فیصلہ کر لیا کہ خدا کے پاس اس کے لیے کچھ نہیں۔دنیا میں بھی اور آخرت میں بھی،تو پھر اس کے لیے باقی کیا رہا؟کیا ہے جس کے سہارے وہ زندہ رہ سکتا ہے؟ اور وہ زندہ رہے تو کیوں رہے؟
لیکن نہیں،ایمان نام ہی امید کا ہے۔اور مومن وہ ہے جو مایوسی سے کبھی آشنا نہیں ہوسکتا۔اس کا ذہنی مزاج کسی سے بھی اتنا بیگانہ نہیں جس قدر مایوسی سے۔زندگی کی مشکلیں اسے کتنا ہی ناکام کریں لیکن وہ پھر سعی کرے گا۔لغزشوں اور گناہوں کا ہجوم اسے کتنا ہی گھیرلے لیکن وہ پھر توبہ کرے گا۔نہ تو دنیا کی کامیابی سے وہ مایوس ہو سکتا ہے نہ آخرت کی نجات سے۔وہ جانتا ہے کہ دنیا کی مایوسی موت ہے اور آخرت کی مایوسی شقاوت۔وہ دونوں جگہ رحمت الٰہی کو دیکھتا اور اس کی بخششوں پر یقین رکھتا ہے۔ ‘‘(ترجمان القرآن، ص۷۸۵)۔ انسان کو اللّٰہ رب العزت کی طرف سے زندگی ایک ہی بار ملتی ہے لہٰذا کبھی بھی اُمید کو ختم نہ ہونے دیجیے کیوں کہ اگر یہ ختم ہوگئی تو زندگی بھی ختم ہو جائے گی۔اُمید ہماری زندگی کا قیمتی اثاثہ ہے،اس لیے ہر لمحہ اور ہر آن اس کی حفاظت کیجیے اور خاص طور پر ایسے لوگوں سے دور رہیے جو اُمید کو چھیننے والے ہیں۔زندگی ایک طویل سفر ہے اور اُمید اس کا زادِ راہ ہے۔اگر منزل تک پہنچنا ہے تو اپنے زادِ راہ کی حفاظت کرنی ہوگی۔منزل کی جانب بلا خوف و تردد کے ساتھ اپنا سفر جاری رکھنا ہے اور جب کبھی تھکن ہو،حوصلے اور جذبات کمزور پڑ جائیں تو پھر اُمید افزا لوگوں کو تلاش کرنا ہے اور ان کی صحبتِ صالح سے اپنے ایمان و اُمید کا چراغ روشن کرنا ہے تاکہ راہِ حیات پر آنے والے اندھیرے ہمارے سفر کو نہ روک سکیں۔یہ وقت جتنا بھی مشکل ہے،ایک دن ضرور ختم ہو جائے گا۔یہ رات اگرچہ تاریک تر ہے لیکن اس کے بعد ضرور سحر ہوگی،جو کہ از روئے قرآن اللّٰہ کا طے شدہ وعدہ ہے۔اس لیے ہمارے لیے ناگزیر ہے کہ ہم آج کے مایوس کن حالات میں اللّٰہ تعالیٰ کی ذاتِ اقدس پر پورا بھروسہ اور یقین رکھیں،اسی سے اُمید لگائیں،اُس کی رحمت کا انتظار کریں اور اچھا گمان رکھیں۔ویسے تو انسان کے حق میں اللّٰہ تعالیٰ کے فیصلے بہتر ہی نہیں بلکہ بہترین ہوتے ہیں۔اس لیے ایمان کا تقاضا ہے کہ مشکل حالات میں مایوس ہونے کے بجائے ہم ہر حال میں اللّٰہ تعالیٰ کے فیصلوں پر راضی رہیں اور یہی چیز ہمیں آج سکون و اطمینان کی دولت سے مالا مال کر سکتی ہے۔اللّٰہ تعالیٰ سے دعا کہ ہمیں صراطِ مستقیم پر مستقل مزاجی سے چلنے کی توفیق عطا فرما ئے۔آمین
رابطہ۔8082130273