مسعود محبوب خان
انسان کی عزت و توقیر کا تصور انسانی فطرت کا ایک بنیادی حصّہ ہے۔ ہر انسان کے اندر عزت کا ایک فطری تقاضا موجود ہوتا ہے، جو اس کی خود شناسی اور معاشرتی حیثیت کے لئے انتہائی اہمیت رکھتا ہے۔ عزت کا یہ تقاضا انسان کے باطنی وقار کا ایک اظہار ہے، جو اسے اپنے اور دوسروں کے لئے احترام کرنے پر اکساتی ہے۔ اللّٰہ تعالیٰ نے قرآن میں بارہا انسان کی عزت اور احترام کی تعلیم دی ہے، اور نبی کریمؐ کے اخلاق و کردار میں یہ تعلیم اپنے اعلیٰ ترین درجے پر نظر آتی ہے۔ رسول اللّٰہؐ کی زندگی ہمیں سکھاتی ہے کہ کس طرح ہر شخص کو اس کے وقار اور عزت کے ساتھ پیش آنا چاہئے۔ آپؐ کی شخصیت میں وہ تمام خوبیاں موجود تھیں جو انسانی وقار کو نمایاں کرتی ہیں۔
حدیث میں آپؐ کے بارے میں کہا گیا ہے: ’’آپؐ سب سے زیادہ باوقار انسان تھے۔‘‘ یہ اس بات کی طرف اشارہ کرتا ہے کہ نبی کریمؐ انسانوں کی عزت کا بہت زیادہ خیال رکھتے تھے۔ آپؐ ہر کسی کے ساتھ نہایت احترام کے ساتھ پیش آتے تھے، چاہے وہ غریب ہو یا امیر، چھوٹا ہو یا بڑا، مسلم ہو یا غیر مسلم۔ رسول اللّٰہؐ نے کبھی کسی کی تذلیل نہیں کی اور ہمیشہ لوگوں کو ایک دوسرے کی عزت کرنے کی ترغیب دی۔ آپؐ نے اپنے اصحاب کو بھی یہی تعلیم دی کہ وہ معاشرتی معاملات میں ایک دوسرے کا احترام کریں اور کسی کی بھی بے عزتی سے گریز کریں۔ نبی کریمؐ کا یہ طرزِ عمل ہمیں سکھاتا ہے کہ ایک کامیاب اور خوشحال معاشرہ وہی ہوتا ہے جہاں افراد ایک دوسرے کے وقار کا احترام کرتے ہیں۔ نبی کریمؐ کی زندگی میں ہمیں دوسروں کے ساتھ احترام اور رواداری برتنے کی بے شمار مثالیں ملتی ہیں۔
اس بات کو یوں سمجھا جا سکتا ہے کہ انسانی وقار اور عزت اسلام کی بنیادوں میں شامل ہیں، اور نبی کریمؐ کی سیرت اس بات کا بہترین نمونہ ہے کہ کس طرح انسانوں کو عزت و توقیر کے ساتھ جینا چاہیے۔ آپؐ کی حیات طیبہؐ سے ہمیں یہ درس ملتا ہے کہ کسی بھی فرد کو ذلیل کرنا یا اس کی تحقیر کرنا نہ صرف ایک اخلاقی خرابی ہے بلکہ اسلامی اصولوں کے بھی منافی ہے۔
تکریمِ انسانیت کا مطلب ہے انسانوں کی عزت اور احترام کرنا، ان کی بنیادی حقوق کا تحفّظ کرنا اور ان کے ساتھ عزت و وقار سے پیش آنا۔ یہ تصور اسلامی تعلیمات کا ایک اہم حصّہ ہے، جس کا مقصد انسانی وقار کو برقرار رکھنا اور ہر فرد کو اس کے حقوق اور احترام کے ساتھ برتاؤ کرنا ہے۔ اس تصور کی جڑیں اسلامی تعلیمات، بین الاقوامی انسانی حقوق کے اصولوں اور اخلاقی و سماجی اقدار میں پائی جاتی ہیں۔ اسلامی تعلیمات میں تکریمِ انسانیت پر بہت زیادہ زور دیا گیا ہے۔ تکریمِ انسانیت ایک ایسی بنیاد ہے جس پر ایک پُرامن، انصاف پر مبنی اور متوازن معاشرہ تعمیر کیا جا سکتا ہے۔ اس کے ذریعے ہم دنیا کو بہتر جگہ بنا سکتے ہیں جہاں ہر انسان عزت و احترام کے ساتھ زندگی گزار سکے۔
انسانیت کی عملی تفسیر میں درج ذیل پہلو اہم ہیں۔ ہر فرد کے ساتھ منصفانہ اور عادلانہ سلوک کرنا، چاہے وہ کسی بھی مذہب، قوم یا نسل سے تعلق رکھتا ہو۔ ہر انسان کی عزت و حرمت کو تسلیم کرنا اور اس کے حقوق کا خیال رکھنا، چاہے وہ کسی بھی طبقے سے تعلق رکھتا ہو۔ اسلامی تعلیمات میں تمام انسانوں کو ایک ہی اصل سے پیدا کیا گیا ہے، لہٰذا سب کو برابر سمجھا جانا چاہیے اور ہر ایک کے ساتھ بھائی چارے کا سلوک کیا جانا چاہیے۔ انسانیت کی عملی تفسیر میں دوسروں کی مدد کرنا اور ان کی خدمت کو اہمیت دی گئی ہے۔ نبی کریم ؐ کی زندگی اس کی بہترین مثال ہے جہاں انہوں نے اپنے عمل سے دوسروں کی خدمت کو فروغ دیا۔ معاشرت میں انسانیت کی تکریم اس وقت ممکن ہوتی ہے جب ہم ایک دوسرے کے جذبات، خیالات اور اختلافات کا احترام کریں اور صبر و برداشت کا مظاہرہ کریں۔ انسانیت کی عملی تفسیر یہ ہے کہ ہر فرد اپنی زندگی میں ان اصولوں کو اپنائے اور ان پر عمل پیرا ہو تاکہ معاشرے میں امن و سکون اور بھائی چارے کی فضا قائم ہو۔
قیدیوں کے ساتھ حسن سلوک:حضرت مصعب بن عمیرؓ کے بھائی حضرت عزیر بن عمیرؓ سے روایت ہے کہ میں جنگ بدر کے قیدیوں میں شامل تھا۔ رسول اللّٰہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا، قیدیوں کے ساتھ اچھا برتاؤ کرو۔ میں انصار کے کچھ لوگوں کے پاس تھا، وہ جب صبح و شام کا کھانا لاتے تھے تو خود کھجور کھاتے اور مجھے چپاتی کھلاتے۔ (طبرانی)
یہ حدیث اس بات کی نشاندہی کرتی ہے کہ رسول اللّٰہؐ نے قیدیوں کے ساتھ حسن سلوک کی ہدایت دی تھی اور انصار صحابۂ نے اس کی عملی مثال قائم کی۔
قرآن و سنّت اور فقہاء میں احترام انسانیت کے اصول تفصیل سے بیان کیے گئے ہیں، جن کی روشنی میں اسلامی معاشرتی نظام قائم کیا گیا ہے۔ یہ اصول انسانیت کی عزت، حقوق اور فرائض پر مبنی ہیں۔ رحم دلی کے اصول یہ بیان کئے گئے ہیں کہ ’’اللّٰہ اس پر رحم نہیں کرتا جو لوگوں پر رحم نہیں کرتا۔‘‘ (صحیح بخاری)۔ ’’مسلمان وہ ہے جس کی زبان اور ہاتھ سے دوسرے مسلمان محفوظ رہیں۔‘‘ (صحیح بخاری)انسانیت کی تکریم اسلامی تعلیمات میں ایک بنیادی اصول ہے، جسے اسلامی تعلیمات میں بڑے زور و شور سے بیان کیا گیا ہے۔ مختلف مکاتبِ فکر میں اس کی تفصیلات ذرا مختلف ہو سکتی ہیں، لیکن بنیادی اصول عموماً ایک جیسے ہیں۔اسلام میں انسانی جان کی حرمت کو بے حد اہمیت دی گئی ہے۔ قرآن میں قتل ناحق کی مذمت کی گئی ہے اور ایک انسان کے قتل کو پوری انسانیت کے قتل کے مترادف قرار دیا گیا ہے، ’’جس نے کسی انسان کو خون کے بدلے یا زمین میں فساد پھیلانے کے بغیر قتل کیا، گویا اس نے تمام انسانوں کو قتل کیا۔‘‘ (سورۃ المائدہ: 32)
حقوق العباد:انسانوں کے حقوق کی حفاظت اسلام کا اہم اصول ہے۔ اسلام میں حقوق العباد (انسانوں کے حقوق) کو بہت زیادہ اہمیت دی گئی ہے۔ یہ حقوق انسانی جان، مال، عزت، اور آزادی کی حفاظت پر مبنی ہوتے ہیں۔ فقہاء نے ان حقوق کی تفصیلات بیان کی ہیں اور ان کی پامالی پر مختلف سزائیں مقرر کی ہیں تاکہ معاشرے میں انصاف اور عدل کو برقرار رکھا جا سکے۔کسی کی جان لینے کی ممانعت ہے اور قتل کو بہت بڑا گناہ قرار دیا گیا ہے۔ کسی کا مال ناجائز طریقے سے لینا حرام ہے، چوری، دھوکہ دہی، اور فراڈ کے لئے سخت سزائیں مقرر کی گئی ہیں۔ کسی کی عزت و ناموس کو نقصان پہنچانا یا بدنام کرنا ممنوع ہے اور اس کے لئے شرعی حدود مقرر ہیں۔ ہر انسان کو آزاد پیدا کیا گیا ہے اور اس کی آزادی کو چھیننا یا اسے غلام بنانا جائز نہیں ہے۔ اسلام نے ان حقوق کے تحفّظ کے لئے مختلف قوانین اور سزائیں مقرر کی ہیں تاکہ معاشرے میں امن و امان اور بھائی چارہ قائم رہے۔ اسلام کی تعلیمات کے مطابق ان حقوق کی حفاظت اور ان کا احترام کرنا ہر مسلمان کا فرض ہے۔
تعاون و ہمدردی :اسلامی اصولوں کے مطابق، تعاون و ہمدردی معاشرتی زندگی کا اہم جز ہیں، اور ہر مسلمان کا فرض ہے کہ وہ اپنے بھائیوں کی مدد کرے اور ان کے ساتھ ہمدردی سے پیش آئے۔ قرآن اور حدیث میں اس بات پر زور دیا گیا ہے کہ مسلمانوں کو ایک دوسرے کے ساتھ محبت، رحم دلی اور تعاون کا مظاہرہ کرنا چاہیے۔
قرآن میں تعاون اور ہمدردی کی کئی مقامات پر تعلیمات سے روشناس کرایا گیا ہے۔ سورۃ المائدہ آیت نمبر 2 میں فرمایا گیا: ’’اور نیکی اور تقویٰ کے کاموں میں ایک دوسرے کی مدد کرو اور گناہ اور ظلم کے کاموں میں مدد نہ کرو۔‘‘ سورۃ الحجرات نمبر 10 میں کہا گیا کہ ’’مومن تو آپس میں بھائی بھائی ہیں، لہٰذا اپنے دو بھائیوں میں صلح کراؤ اور اللّٰہ سے ڈرو تاکہ تم پر رحم کیا جائے۔‘‘تعاون اور ہمدردی کے بارے میں پیغمبر محمد صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’تم میں سے کوئی شخص اس وقت تک کامل مسلمان نہیں ہوسکتا جب تک وہ اپنے بھائی کے لیے وہی پسند نہ کرے ،جو اپنے لیے پسند کرتا ہے۔‘‘ حضرت محمدؐ نے فرمایا: ’’مسلمان، مسلمان کا بھائی ہے، نہ وہ اس پر ظلم کرتا ہے اور نہ اسے بے یارو مددگار چھوڑتا ہے، جو اپنے بھائی کی حاجت پوری کرتا ہے، اللّٰہ اس کی حاجت پوری کرتا ہے۔‘‘ (صحیح بخاری)۔ ایک اور حدیث میں فرمایا: ’’جو شخص لوگوں پر رحم نہیں کرتا، اس پر بھی رحم نہیں کیا جائے گا۔‘‘ (صحیح بخاری)
تعاون اور ہمدردی کے ذریعے معاشرے میں استحکام اور بھائی چارہ پیدا ہوتا ہے۔ دوسرے مسلمانوں کی مدد کرنا اور ان کے ساتھ ہمدردی سے پیش آنا انسان کی روحانی ترقی کا باعث بنتا ہے۔ دوسروں کی مدد اور ہمدردی اللّٰہ کی رضا کا باعث بنتی ہے اور اس کے اجر کی ضمانت دی گئی ہے۔ یہ اصول نہ صرف انفرادی سطح پر بلکہ اجتماعی سطح پر بھی اسلامی معاشرت کی خوبصورتی اور مضبوطی کی عکاسی کرتے ہیں۔
عدل و انصاف:ا سلام ہر انسان کے ساتھ عدل و انصاف کرنے کا حکم دیتا ہے۔ کسی کے ساتھ ظلم و زیادتی نہ کرنا اور ہر انسان کو اس کے حقوق دینا تکریم انسانیت کا حصّہ ہے۔ انسانیت کی تکریم کے تحت عدل و انصاف قائم کرنا بھی ضروری ہے کیونکہ اسلامی نظام عدل و انصاف پر مبنی ہے، یہ اسلامی نظام کا بنیادی ستون ہے۔ اسلام میں عدل و انصاف کو بہت زیادہ اہمیت دی گئی ہے۔ قرآن اور سنّت میں عدل کی تاکید کی گئی ہے اور کسی بھی قسم کی ناانصافی کی مذمت کی گئی ہے۔
قرآن میں فرمایا گیا ہے کہ ’’بے شک اللّٰہ تعالیٰ عدل کا اور احسان کا اور قرابت داروں کو دینے کا حکم دیتا ہے۔‘‘(سورۃ النحل: 90)۔ قرآن کریم میں عدل کی تاکید کے ضمن سورۃ النساء آیت نمبر 135 میں فرمایا گیا ہے کہ: ’’اے ایمان والو! عدل کے علمبردار بنو اور اللّٰہ کے لئے گواہی دو خواہ وہ تمہارے اپنے خلاف ہو یا والدین اور قریبی رشتہ داروں کے خلاف ہو۔‘‘ سورۃ المائدہ آیت نمبر 8 حکم دیا گیا کہ ’’اے ایمان والو! اللّٰہ کے لیے قائم رہنے والے، انصاف کے ساتھ گواہی دینے والے بنو اور کسی قوم کی دشمنی تمہیں ہرگز اس بات پر آمادہ نہ کرے کہ تم عدل نہ کرو۔ عدل کرو، یہ تقویٰ کے زیادہ قریب ہے۔‘‘
حضرت محمدؐ نے فرمایا:’’جو شخص لوگوں کے درمیان عدل کرتا ہے وہ اللّٰہ اور اس کے رسول کے نزدیک بہت محبوب ہے۔‘‘ اسلام نے انصاف کی فراہمی کو ہر شخص کا حق قرار دیا ہے۔ کسی بھی معاملے میں انصاف کو یقینی بنانا ضروری ہے۔ اسلام نے معاشرتی عدل پر زور دیا ہے تاکہ معاشرے میں امن و امان قائم رہے اور ہر شخص کو اس کے حقوق مل سکیں۔ ظلم اور ناانصافی کی سخت مذمت کی گئی ہے اور ظالموں کو سخت سزا کی دھمکی دی گئی ہے۔ ظلم کی ممانعت میں قرآن کہتا ہے، ’’ظلم نہ کرو، بے شک اللّٰہ تعالیٰ ظالموں کو پسند نہیں کرتا۔‘‘ (سورہ البقرہ: آیت 190)یہ اصول اس بات کی غمازی کرتے ہیں کہ اسلام میں عدل و انصاف کی بنیاد پر ایک پُرامن اور متوازن معاشرہ قائم کرنے کی کوشش کی گئی ہے، جہاں ہر شخص کے حقوق کا تحفّظ ہو اور کسی بھی قسم کی ناانصافی یا ظلم کی گنجائش نہ ہو۔(جاری)
رابطہ۔09422724040