لیاقت عباس
قدیم زمانے سے ہی انسان کو ایک جگہ سے دوسری جگہ منتقل ہونا پڑا ہے۔ کبھی روزگار کے سلسلے میں، کبھی ہجرت کی وجہ سے اور کبھی پڑھائی کے سلسلے میں۔ غرض یہ سلسلہ قدیم زمانے سے ہی چلتا آ رہا ہے۔ قدیم زمانے میں لوگ زیادہ تر پیدل ہی سفر کرتے تھے۔ سائنس کی نئی نئی ایجادات نے زندگی کے ہر شعبے کو متاثر کیا۔ وہی رسل و رسائل کے نظام میں دن بدن تیزی آتی گئی۔ گھوڑے کی سواری سے لے کر جہاز تک کا سفر انسان نے کچھ ہی برسوں میں طے کیا۔ آج صورتحال یہ ہے کہ شہر ہو یا گاؤں سڑکوں کا جال بچھایا گیا ہے۔ کئی مرکزی و ریاستی ادارے ان سڑکوں کے رکھ رکھاؤ میں مصروف نظر آتے ہیں۔ پہلے پہل وسائل کی عدم موجودگی کی وجہ سے لوگ ایک جگہ سے دوسری جگہ پیدل سفر کرتے تھے۔ پھر گھوڑا، ٹانگا، کرنچی، بیل گاڑی، بس، ٹرک، منی بس، آٹو، ٹاٹا سومو سے لے کر ہوائی جہاز تک کا سفر طے کرنا پڑا۔ غرض کہ انسان نے سائنس کی مدد سے نئی نئی ایجادات کیں۔ ترقی ہوئی وہیں آج اگر ہم شہر کی بات کریں تو سڑکوں پر دوڑتی ہوئی ہر طرح کی گاڑیوں نے انسان کا سفر آرام دہ اور آسان بنا دیا ہے۔ لیکن غفلت شعاری کی وجہ سے اکثر جانی نقصان سے دوچار ہونا پڑتا ہے۔ آج شہر ہو یا گاؤں رسل و رسائل کی کوئی کمی نہیں۔
لوگ معمول کے مطابق ایک جگہ سے دوسری جگہ کا سفر کرتے ہیں۔ وقت کی کمی کی وجہ سے لوگ اکثر تیز رفتار گاڑیوں میں سفر کرنا پسند کرتے ہیں تاکہ وہ وقت پر منزل مقصود تک پہنچ سکیں۔ اکثر مشاہدے میں آیا ہے کہ گاڑی سواریوں سے بھری تو ہوتی ہے۔ بزرگ، عورتیں، بچے، نوجوان لڑکے اور لڑکیاں اکثر انہی گاڑیوں میں سفر کرتے ہیں۔ مگر پھر بھی ڈرائیور حضرات اپنی من مانی سے ہی گاڑی چلانے کو ترجیح دیتے ہیں۔شہر سرینگر کی بات کریں تو یہاں ٹریفک کا نظام بالکل درہم برہم ہو چکا ہے۔ پانچ سے سات کلومیٹر تک کا سفر ایک گھنٹے میں یا پونے گھنٹے میں طے ہوتا ہے۔ جہانگیر چوک سے پارم پورہ منڈی تک کا سفر ہو یا پھر خمینی چوک بمنہ، نو گام، پانتھہ چوک، خانیار، درگاہ حضرت بل، صورہ، حیدر پورہ، بٹوارہ، رام باغ، سنت نگر کے علاوہ شہر کے کئی اندرونی علاقوں خصوصاً نالہ مار سرکل روڑکا سفر ہو تو منی گاڑیوں کی رفتار کچھوے کی رفتار کی مانند ہوتی ہے۔ جگہ جگہ پر رُکنا، ہر سواری کا انتظار کرنا، اوپر سے ستم ظریفی یہ کہ ان گاڑیوں میں سواریوں کو بھیڑ بکریوں کی طرح بھرا جاتا ہے۔نالہ مار روڑ پر چلنے والی مسافر گاڑیوںمیں سفر کرنا انتہائی عذاب دہوتا ہے،یہی صورت حال مزدہ گاڑیوں کی ہے کہ اوور لوڈنگ کے دوران گاڑی کے بیچ کھڑا رہنے کی گنجائش تک نہیں ہوتی ہے۔ ایک منی بس کی بات کریں تو اس میں 15 سے 18 سواریوں کی بیٹھنے کی جگہ ہوتی ہے مگر 30 سے 40 سواریوں کو اس میں بٹھایا جاتا ہے ،سواریوں سے گاڑی بھری ہوئی ہوتی ہے مگر ڈرائیور حضرات پھر بھی اپنی من مانی سے گاڑی چلاتے ہیں۔ گرمی ہو یا سردی ڈرائیور اور کنڈکٹر کو کوئی فکر نہیں ہوتی اور نہ ہی کسی کی عمر کا لحاظ کیا جاتا ہے۔ اگر کوئی حق کے لیے اپنی آواز بلند کرتا ہے تو یہ لوگ اتنے چالاک ہوتے ہیں پہلے تو یہ سنتے ہی نہیں، اگر سنیں گے بھی تو ہاتھا پائی اور لڑائی تک کی نوبت پہنچ جاتی ہے۔ دوسری اہم بات یہ کہ ان کے پاس گاڑی کے پورے کاغذات بھی نہیں ہوتے اور گاڑی کی حالت اتنی خستہ ہوتی ہے کہ دل نہیں کرتا اس میں سفر کرنے کا۔ مگر مجبوری کی وجہ سے سفر کرنے کی نوبت آ جاتی ہے۔ اس کے علاوہ محکمہ ٹریفک کے اہلکار کبھی بھول کر بھی ان گاڑیوں کے کاغذات کی جانچ پڑتال نہیں کرتے اور نہ ہی انہیں فکر ہوتی ہے کہ ایک منی بس میں کتنی سواریوں کے بیٹھنے کی جگہ ہے اور کتنے لوگ سفر کر رہے ہیں۔ بس محکمے کے اہلکار سکوٹی اور دوسری چھوٹی گاڑیوں کے کاغذات کی جانچ پڑتال میں دن بھر مصروف نظر آتے ہیں۔ خدارا ایک نظر ادھر بھی کرنے کی ضرورت ہے۔ ایک اور اہم مسئلہ درپیش آتا ہے کہ سڑک کے چوراہے پر محکمے کے اہلکار کم ہی نظر آتے ہیں۔ اس طرح کچھ کلومیٹر کا سفر گھنٹوں میں طے ہوتا ہے۔ اس کے برعکس جموں میں تو ایسا نہیں ہوتا۔ یہاں ٹریفک کا سارا نظام بد نظمی کا شکار ہو چکا ہے۔ ایک ستم ظریفی یہ بھی ہے کہ شام ہوتے ہی گاڑیاں سڑکوں سے بالکل غائب ہو جاتی ہیں اور لوگ در بدر کی ٹھوکریں کھانے پر مجبور ہو جاتے ہیں۔ ان سے دُگنا کرایہ وصول کیا جاتا ہے۔ کئی لوگ گھر نہیں پہنچ پاتے۔ یہ لمحہ فکریہ ہے۔ سب کو سوچنے کی ضرورت ہے۔ ہماری بھی کچھ ذمہ داریاں ہیں۔ ہم ان کو بخوبی سے کیوں نہیں نبھا پاتے۔ دغا بازی، جھوٹ، فریب سے اپنا روزگار کما لیتے ہیں اور اس کی پوچھ تاچھ تو ہو گی۔ یہ تو تھا شہر کا منظر۔
اب ایک نظر دیہات کی طرف۔ دیہات میں بھی ٹریفک کے نظام کی کہانی اس سے مختلف نہیں، البتہ انوکھی ضرور ہے۔ سرینگر سے راجوری اور پونچھ کا سفر 150 کلومیٹر سے زیادہ کا ہے۔ ٹاٹا سومو میں سات سے نو سواریوں کی بیٹھنے کی جگہ ہے لیکن ڈرائیور حضرات اپنی من مانی سے کبھی 11 اور کبھی 13 سواریوں کے ساتھ سفر کرتے ہیں۔ کسی بھی سواری کا سفر آرام دہ نہیں ہوتا۔ یہ لوگ آواز بلند کرنے نہیں دیتے۔ اگر کوئی لب کشائی کرتا بھی ہے تو ہاتھا پائی اور جھگڑے تک کی نوبت آ جاتی ہے۔ اس طویل سفر میں محکمہ ٹریفک کے اہلکار کبھی کبھار ہی نظر آتے ہیں لیکن وہ زحمت گوارا نہیں کرتے کہ ان گاڑیوں کے کاغذات کی جانچ پڑتال اچھی طرح کی جائے اور کتنی سواریاں ہیں اس پر بھی غور و فکر کی جائے۔ مگر کہانی اس سے مختلف ہے۔ اس کے علاوہ دوسرے دیہات کی کہانی بھی اس سے مختلف نہیں لیکن عوام کا کوئی پرساں حال نہیں۔ گاندر بل، بانڈی پورہ، کپواڑہ، اننت ناگ، بارہمولہ ہو یا اوڑی اور کرناہ کے سرحدی گاؤں ہوں۔ اگر ہم اوڑی کی بات کریں یہاں کا ٹریفک نظام بالکل درہم برہم ہو چکا ہے۔ بس ہو یا منی بس یا پھر ٹاٹا سومو۔ ان میں سواریوں کی تعداد مقدار سے زیادہ ہوتی ہے مگر کوئی پوچھنے والا نہیں۔ یہ لوگ اپنی مرضی کے مطابق گاڑی چلاتے ہیں اور وقت کی کوئی پابندی نہیں ہوتی۔ اوپر سے ستم ظریفی یہ کہ ان کے پاس ان گاڑیوں کے پورے کاغذات بھی نہیں ہوتے۔ پہلے تو وقت پر گاڑی ملتی ہی نہیں اگر ملتی بھی ہے تو ان میں سواریوں کو بھیڑ بکریوں کی طرح بھرا جاتا ہے۔ ہمارے ہاں 2005 کے تباہ کن زلزلے کے بعد ٹریفک کے نظام میں تبدیلی آئی۔ اب لوگ زیادہ تر ٹاٹا سومو میں ہی سفر کرنا پسند کرتے ہیں۔ مگر ان کی حالت دیکھ کر ایسا لگتا ہے کہ ان کی معیاد ختم ہو چکی ہے ان کے پاس کاغذات بھی نہیں ہوتے اور یہ سڑکوں پر چلنے کے قابل نہیں ہوتیں۔ مگر آخر پوچھے گا کون؟ لوگ وقت پر دفتر نہیں پہنچ پاتے۔ عام لوگوں کو دقتوں کا سامنا کرنا پڑتا ہے جب کوئی لب کشائی کرنے کی کوشش بھی کرتا ہے تو وہ اکیلا کیا کرے گا ،کوئی اس کا ساتھ دینے والا نہیں ہوتا۔ آئے روز ان کی من مانیوں کی وجہ سے سینکڑوں کی تعداد میں لوگوں کی جانیں تلف ہو جاتی ہیں۔ اکثر یہی گاڑیاں حادثات کی شکار ہو جاتی ہیں۔ انہیں معاوضہ تو مل جاتا ہے مگر جس کی جان تلف ہوئی نقصان اسی کا ہوتا ہے۔ اس کی ایک تازہ مثال اس سال کے اوائل میں بھج تالا ٹٹھہ مولا بونیار میں ہوئے الم ناک حادثے کی دی جا سکتی ہے۔ اس حادثے میں 10 سے زائد قیمتی جانوں کا ضیاں ہوا۔ اس ٹاٹا سومو میں نو سواریوں کی بیٹھنے کی جگہ تھی مگر ڈرائیور کی من مانی کی وجہ سے 15 سے 18 سواریوں کو بٹھایا گیا۔ اس کا انجام سب نے دیکھ لیا۔ اس کا ذمہ دار کون ہے ہم سب۔ اس طرح ہم آئے دن دیکھتے ہیں کہ گاڑیوں کی تیز رفتاری کی وجہ سے اکثر راہگیر کچل دیے جاتے ہیں اور اسی تیز رفتاری کی وجہ سے گاڑیاں حادثات کا شکار ہو جاتی ہیں۔ یہ ہم سب کی اولین ذمہ داری ہے کہ ہم اس مسئلے کی طرف خصوصی توجہ دیں۔ محکمہ ٹریفک کے ساتھ تعاون کریں۔ حکومت کا ہی کام نہیں بلکہ عام لوگ بھی اس کا حصے دار بن سکتے ہیں۔
پرانی گاڑیوں کو سڑکوں پر نہ چلنے دیا جائے اور جس گاڑی کے پورے کاغذات نہ ہوں ۔اس پر سفر کرنے سے پرہیز کیا جائے۔ اسی کو سڑک پر چلنے کی اجازت دی جائے جس کے پورے کاغذات ہوں۔ ورنہ اکثر سڑکوں پر موت کا رقص ہم اپنی آنکھوں سے دیکھتے ہی ہیں۔ پھر ان غریبوں کا کوئی پرساں حال نہیں ہوتا۔ اب تو گاڑیوں کی تعداد دن بدن بڑھتی جا رہی ہے۔ دور دراز کے گاؤں میں بس ہو یا منی بس یا پھر ٹاٹا سومو وغیرہ سواریوں کو کھچا کھچ بھرا جاتا ہے۔ جب کسی موڑ پر گاڑی کو بریک نہیں لگتی تو اس کا انجام ہم نے اپنی آنکھوں سے دیکھا اور دیکھ بھی رہے ہیں۔ اگر محکمہ ٹریفک کے پاس عملے کی کمی ہے تو اس کمی کو جلد از جلد دور کرنے کی ضرورت ہے۔ جگہ جگہ ناکے لگائے جائیں تاکہ سڑکوں پر موت کی رقص کو ختم کیا جا سکے۔ عام لوگوں کی ذمہ داری یہ ہے کہ وہ ان گاڑیوں میں سفر کرنے سے گریز کریں۔ متبادل تلاش کریں۔ مسئلہ یہ ہے کہ متبادل ملتا ہی نہیں۔ آخر کب تک ایسا چلتا رہے گا اور ہم سب بے بس، لاچار دیکھتے رہیں گے۔ تبدیلی لازمی ہے۔ ٹریفک کے نظام میں بھی تبدیلی نا گزیر ہے تاکہ لوگ بآسانی سفر کر سکیں اور باحفاظت منزل مقصود تک پہنچ سکیں۔ ڈرائیور حضرات کو بھی سوچنے کی ضرورت ہے۔ دقیانوسی سوچ سے اوپر اٹھ کر لوگوں کی جان و مال کے تحفظ کو یقینی بنانا ان کی اولین ذمہ داری ہے۔ مگر حرص اور لالچ کو چھوڑے کون؟ ان کو خواب غفلت سے بیدار ہونے کی ضرورت ہے۔ ایک تو ضرورت سے زیادہ وقت نہیں لگنا چاہیے۔ دوسری بات جتنی سواری درکار ہے۔ ضرورت سے زیادہ ان گاڑیوں میں سواریوں کو نہ بھرا جائے۔ یہ کوئی بھیڑ بکریاں تو نہیں بلکہ انہیں انسان سمجھا جائے۔ کیونکہ عام لوگوں کی وجہ سے ان کا روزگار چلتا ہے۔ لالچ بری بلا ہے اور اسی لالچ میں آ کر کبھی کبھار انسان سے ایسی غلطی سرزد ہو جاتی ہے۔ جس کا خمیازہ اسے اور اس کے گھر والوں کو بھگتنا پڑتا ہے۔ تیز رفتاری سے پرہیز کیا جائے۔ جب کوئی گاڑی حادثے کا شکار ہوتی ہے تو کچھ دنوں تک تحصیل اور ضلع حکام متحرک ہو جاتے ہیں یہی حال پچھلے دنوں ہم نے بونیار کا بھی دیکھا۔ کچھ دنوں تک ہر گاڑی کی باریک بینی سے جانچ پڑتال کی گئی مگر مسئلہ ٹھنڈا ہوتے ہی عام لوگوں کو ان کے رحم و کرم پر چھوڑ دیا گیا۔ یہ کیسے ممکن ہے کہ کسی گاڑی کی معیاد ختم ہو چکی ہو ،اس کے پاس پورے کاغذات بھی نہ ہوں۔ پھر وہ گاڑی سڑکوں پر دوڑے۔ کیا کوئی اس کا جواب بتا سکتا ہے؟ وہ اس گاڑی میں سواریاں لے کر چلے تو کوئی پوچھنے والا نہیں۔ نہ کوئی جانچ کرنے والا ہے۔ یہ سب آپسی ملی بھگت کی وجہ سے ممکن ہو پاتا ہے۔ اب حکام بالا، محکمہ ٹریفک کے ساتھ ساتھ عام لوگوں کے اندر بیداری پیدا کرنے کی ضرورت ہے تاکہ لوگوں کی حفاظت کو یقینی بنائی جا سکے۔ اگر ایسا ہی ہوتا رہا تو گھروں کے گھر خالی ہو جائیں گے۔ جواب طلبی ضروری ہے یہ وقت کی پکار بھی ہے اور وقت کا تقاضا بھی۔
(رابطہ۔ایشم،اوڑی9697052804)