ڈاکٹر نذیر مشتاق
معاصر اردو ناولوں میں مختلف قسم کے موضوعاتی اور فنی تجربے دیکھنے کو ملتے ہیں ان میں بیان کی سادگی ،کہانی پن ،بیانیہ،اسلوب،علامت کے استعمال میں اعتدال و توازن اسلوب بیان میں ندرت، تکنیک میں نئے تجربات ،زندگی کی حقیقت اوراس کے مختلف پہلوؤں کی عکاسی شامل ہیں ۔کہا جاتا ہے کہ ناول اپنے زمانے کا آئینہ دار ہوتا ہے ۔تاریخ تو صرف واقعات بیان کرتی ہے ،ناول میں صرف واقعہ نہیں ہوتا بلکہ اس میں زمانے کی روح سمائی ہوتی ہے ۔ناول سے زیادہ مستند معتبر دستاویز کوئی دوسرا نہیں ہوسکتا ہے ۔غیرمعمولی کو معمولی بنادینا اور معمولی کو غیر معمولی کے قالب میں ڈھالنا ایک ایسا آرٹ ہے جو صرف کہانی کار (یہاں اشارہ رینو بہل کی طرف ہے)ہی کو ودیعت ہوا ہے ۔ناول تاریخی ،رومانی،اصلاحی،معاشرتی،سماجی،نفسیاتی،جاسوسی،ادبی، سوانحی ہوسکتا ہے،مگر مصنفہ نے دشت بے نوا کو المیاتی ناول قرار دیا ہے اور وہ اپنی جگہ صد در صد درست ہیں ۔میں وثوق کے ساتھ کہہ سکتا ہوں کہ یہ ناول المیاتی ہے ۔اسے پڑھ کر دل میں درد کی لہریں اٹھتی ہیں اور ایک عجیب قسم کی بے چینی محسوس ہوتی ہے ۔یہ ناول پنجاب کے نوجوانوں میں اعتیاد وجوہات علامات زود رس اور دیر رس نتائج اور اس کی وجہ سے ہونے والی تباہی کی مکمل تصویر ہے ۔
محترمہ رینو بہل کسی تعارف کی محتاج نہیں ہیں۔آپ برصغیر کی ایک جانی پہچانی علمی و ادبی شخصیت ہیں جنہوں نے اردو ادب کو بہترین افسانے اور ناول دئیے، آپ نے اس سے پہلے چار ناول،نوافسانوی مجموعے اور کئی کتابوں کا ترجمہ بھی کیا ہے۔ ناول ’میرے ہونے میں کیا برائی ہے‘اور’نجات دھندہ ‘قلمبند کرکے داد وتحسین وصول کر لی۔آپکوشرومنی ساہیتہ کار ایوارڈ سے نوازا جاچکا ہے۔اب کی بار آپ نے دشت بے نوا عنوان سے ناول لکھا ہے اور مختلف انداز میں مشہور ومعروف مغربی ناول نگاروں کے طرزپر،تحریر کیے گئے ناول کو انہوں نے پنجاب کی بدنصیب ماؤں کے نام، جن کی آنکھوں کے سامنے ان کی دنیا لٹ رہی ہے،منسوب کرکے ثابت کیا ہے کہ ان کے سینے میں ایک بے حد حساس ادیبہ کا دل دھڑکتا ہے اور وہ اپنے قوم کی ماؤں کا دکھ درد محسوس کرتی ہیں ۔سب سے بڑی اور دلچسپ بات یہ ہے کہ یہ ناول پڑھتے وقت ایسا محسوس ہوتا ہے کہ قاری ایک ایسی دستاویز پڑھ رہا ہے جس پر بہت تحقیق کی گئی ہے ۔ایسا نہیں ہے کہ خوابوں خیالوں میں قاری کو اُلجھائے رکھنے کی کوشش کی گئی ہے ۔ناول کو9بابوں میں تقسیم کیا گیا ۔عنوانات شاعرانہ اور دلچسپ ہیں :ہوے جو ہم مر کے رسوا ،جانے کس جرم کی پائی ہے سزا،ٹوٹ کر بکھرے خود اپنے سوگ میں،حوا کی بیٹیاں،تیرے عشق نچایاں،بے بسی جرم ہے ،طوفانوں کی زد پہ سفینہ،کھوئی ہوئی جنت،صبح کے انتظار میں، ہر عنوان کے ساتھ پوری طرح انصاف کیا گیا ہے ۔ناول پڑھ کر واضح ہو جاتا ہے کہ مصنفہ نے سب کچھ اپنی آنکھوں سے دیکھا ہے کانوں سے سنا ہے اور دل سے محسوس کیاہےاور پھر بہت سوچ سمجھ کر لکھا ہے۔ یہ ناول صفحات کے لحاظ سے اگر مختصر ہے مگر پیغام جو اس میں موجود ہے وہ سمندر سے بھی وسیع ہے۔ بین الاقوامی شہرت یافتہ ادیبہ ذکیہ مشہدی دشت بے نوا کے بارے میں رقمطراز ہیں ۔دشت بے نوا پنجاب میں اڈیکش کے موضوع پر لکھےگئےناول کو اپنی آواز عطا کی ہے ۔ارے بھائی کوئی تو سنو۔وہ لکھتی ہیں کہ مصنفہ نے مختلف علاقوں کا دورہ کرکے وہاں ان خاندانوں کواپنی آنکھوں سے دیکھا اور متاثرہ افراد سے بات چیت کرکے حالاتِ کا خود اندازہ کیا ،اخباری رپورٹوں یا سُنی سنائی باتوں کا سہارا نہیں لیا بلکہ ناول کے کردار ع واقعات آنکھوں دیکھی سے اخذ کئے اور انہیں دشت بے نوا کا روپ دیا ۔ اس نیک کام میں وہ پوری طرح کامیاب و کامران ہیں۔
اعتیاد ۔نشہ اور چیزوں کا استعمال بنی نوع انسان ہزاروں سالوں سے کر رہا ہے مگر ان دنوں وہ ان کے مضر اور جان لیوا اثرات سے بے خبر تھے ۔دور حاضر میں سائنس دانوں نے ثابت کیا ہے کہ اعتیاد ایک ذہنی بیماری ہے اور نشہ کی لت نہ صرف ایک فرد کو بلکہ پورے خاندان ،قبیلہ اور حتی قوم کی بربادی کا سبب بن جاتا ہے جیسے کہ مزکورہ ناول میں عیاں ہے ۔نشہ اور ادویات یا دیگر منشیات کہاں سے کس طرح ریاست میں وارد ہوتی ہیں اور کس طرح اس خونی کھیل میں نیچے سے اوپر تک سب ذمہ دار ہیں ،اس کا واضح خلاصہ اس ناول میں موجود ہے ۔ناول پڑھتے وقت بدن میں جھرجھری سی پیدا ہوتی ہے اور بعض جگہ آنکھیں بھی نم ہو جاتی ہے ۔مصنفہ نے گر چہ صوبہ پنجاب پر فوکس کیا مگر یہ ان تمام ملکوں اور ریاستوں کی واضح تصویر ہے جہاں کے نوجوان تباہی اور بربادی کی طرف گامزن ہیں ۔یہ جموں وکشمیر کی بھی مکمل تصویر ہے ،یہاں بھی نوجوان اسی تباہی کی طرف گامزن ہیں ۔مطلب یہ کہ ناول دشت بے نوا میں جو واضح پیغام ہے وہ بین الاقوامی ہے ۔ناول کی کہانی بڑی چالاکی اور چابک دستی سے بُنی گئی ہے ۔مصنفہ نے کمال کی تکنیک استعمال کی ہے اور آخر تک اپنے آپ کو اور قاری کو سنبھالے رکھا ہے۔ ذرا سی چوک اسے اخباری رپورٹ بنا سکتی تھی مگر مصنفہ کی ذہانت کام آگئی ہے اور دشت بے نوا منشیات اور معتادوں کی ایک بہترین دلنشین اور کامیاب کہانی بن سکی ہے ۔میں اس المیہ کہانی سے پردہ نہیں اٹھاؤں گا۔آپ خود مطالعہ کریں،یقیں کریں آپ ایک ہی نشست میں پورا ناول پڑھیں گے ۔صرف اتنا کہوں گا کہ دشت بے نوا کی کہانی رینو جی نہیں بلکہ ایک تڑپتی اور زخمی روح سناتی ہے ،وہ آپ کو ایسی ایسی جگہوں پر لے جاکر ایسے ایسے مناظر دکھانے گا کہ آپ کے رونگھٹے کھڑے ہو جائیں گے اور آپ بہت کچھ سوچنے پر مجبور ہوں گے۔
یہ ناول ہر کسی کو بالخصوص نوجوانوں کو پڑھنا چاہیے اور دشت بے نوا کو ہر سکول کالج یونیورسٹی اور سرکاری و پرائیویٹ لایبریروں کی الماریوں کی زینت بنایا جانا چاہیے تاکہ نوجوان نسل اس بیش بہا معلوماتی کتاب کا مطالعہ کریں اور اپنے آپ کو تباہی سے بچا سکیں ۔کتاب دیدہ زیب ہے۔قیمت موزوں ہے۔ اسے ایجوکیشنل پبلیشنگ ہاؤس نئی دہلی نے بے حد خوبصورت سرورق کے ساتھ شائع کیا ہے ۔
[email protected]