اعجاز میر
سرینگر // جنگلی حیات کی پناہ گاہ ہیر پورہ میں’ پیر کی گلی‘ کے علاوہ اور بھی بہت سی چیزیں دیکھنے کے قابل ہیں۔ قدرتی حسن سے مالا مال اس علاقے کو( سات سر) 7چشموں کی جگہ بھی کہا جاتا ہے۔ہیر پورہ میں مغل سرائے کے علاوہ دبجن ناگ اور دیگر 7قدرتی چشمے بھی ہیں جو ہمالیہ کے پہاری سلسلے کے دامن میں واقع ہیں۔ہیر پورہ سے آگے علی آباد سرائے ہے۔ یہ سرائے مغل بادشاہ جلال الدین اکبر کے گورنر علی مردان خان نے تعمیر کی ہے اور اسی لئے اسے علی آباد سرائے یا مغل سرائے کے نام سے بھی جانا جاتا ہے۔ مغل طرز تعمیر کا منفرد نمونہ یہ سرائے اب خستہ حالت میں ہے اور ابھی تک محکمہ آرکیو لوجی آف انڈیا کی جانب سے اسے محفوط بنانے کیلئے ایک پیسہ بھی خرچ نہیں کیا جاسکا ہے۔چونکہ یہ علاقہ عام آبادی کی پہنچ سے بہت دور، لہٰذا انسانی مداخلت کا خطرہ کم رہا ہے ۔ لیکن رفتہ رفتہ اسکی دیواریں شدید برفباری اور بارشوں کی وجہ سے خستہ ہوتی جارہی ہیں اور آئندہ چند برسوں کے بعد اسکی موجودگی کہیں نظر نہیں آئے گی۔مغل سرائے کے بعد دبجن ناگ کا مقام ہے ۔ اس چشمے میں نہانے سے جلد پر لگی بیماریاں ٹھیک ہونے کی روایت ہے۔دبجن چشموں کا مرکز کہا جاتا ہے۔اسکے روپڑی سعدیو کی طرف ننگ سر، بیگم پتھری، گمسر،سرنسر، کٹوری سر،ٹکلر سر، باغ سر،برنائی سر، گولئیر سر موجود ہیں۔ان قدرتی چشموں میں’ کالا سر‘ کے نام سے ایک چشمہ ہے جس کا پانی کالا ہے۔یہ چشموں کا سلسلہ بالآخر ماہی ناگ اور کوثر ناگ پر ختم ہوتا ہے۔دنجن کے دائیں جانب یوسمرگ کا پہاڑی سلسلہ ہے۔ اس علاقے میں دبجن ناگ کے بعدلکھ سکھ سر، چندن سر، نندن سر اورٹھکلہ سر آتے ہیں۔ٹریکنگ کے لئے یہ علاقہ وادی کشمیر میں سب سے موزون اور سب سے بہترین کہلاتا ہے۔یہاں اونچے اونچے پہاڑوں پر واقع یہ قدرتی چشمے خوبصورتی کے شاہکار ہیں اور گرمیوں کے دنوں میں ہیر پورہ کو بیس کیمپ کے طور پر استعمال کرکے ان قدرتی چشموں تک ٹریکنگ کی جاسکتی ہے۔
اس علاقے میں موسم کی صورتحال بالکل مختلف ہوتی ہے۔یہاں پل بھر میں موسم تبدیل ہوتا ہے اور دھوپ چھائوں کا کھیل جاری رہتا ہے۔بادل اتنے نزدیک آتے ہیں کہ ان میں ہر ایک چیز گم ہوجاتی ہے۔دبجن سے ٹریکنگ شروع ہونے کے بعد یوسمرگ کے پہاڑی سلسلے میں داخل ہونے کے بعد سب سے اونچائی کی جگہ ’ داں زب‘ کا وسیع علاقہ آتا ہے۔یہ بہت خوبصورت وادی کی شکل کی ہے۔ ’ داں ذب‘ کے ارد گرد دیوار اور کائرو کے گھنے جنگلات اور بیچ میں وسیع میدان ہے۔ بہت اونچائی پر اس قدر وسیع میدان وادی کے اور کسی علاقے میں نہیں ہے۔یہاں صدیوں پرانے دھان کے کھیتوں کا عکس بھی ہے۔ یہاں چھوٹے چھوٹے کھیت کے خدوخال واضح طور پر نظر آتے ہیں ۔محکمہ ٹورازم کی طرف سے اس علاقے کو یکسر طور پر نظر انداز کیا گیا ہے۔وادی میں صرف گلمرگ،پہلگام، سونہ مرگ جیسے پہاڑی مقامات نہیں ہیں بلکہ پلوامہ اور شوپیان میں ایسے دلکش مقامات ہیں جنہیں اگر سیاحتی نقشے پر لایا جائے تو سیاحوں کی مزید تعداد کو مدعو کرنے میں مدد ملے گی۔اس علاقے میںسیاحوں کوراغب کرنے کی بھر یور صلاحیت ہے کیونکہ یہاں صرف قدرتی خوبصورتی موجود ہے، انسانی مداخلت بہت کم ہے بلکہ نہ ہونے کے برابر ہے۔وائلڈ لائف رینج آفیسر ہیر پورہ فاروق احمد نے کشمیر عظمیٰ کو بتایا کہ یہ پورا علاقہ جنگلی جانوروں کا مسکن ہے۔ انکا کہنا تھا کہ مغلوں کے دور میں یہ علاقہ شکار گاہ کے طور پر استعمال کیا جاتا تھا اور اسی لئے مغل سرائے تعمیر کرائی گئی اور نالہ پنژال کے کنارے دبجن سے ہوتے ہوئے شادی مرگ کا پڑائو رکھا گیا تھا۔انکا کہنا ہے کہ دبجن اور یوسمرگ کا درمیانی علاقہ وادی کا سب سے خوبصورت علاقہ ہے ، جو ٹریکنگ کے لحاظ سے بہترین ہے۔انہوں نے کہا کہ دور دور تک پہاڑی چوٹیاں، انکے بیچ میں چشمے، گھنے جنگلات،انسانی مداخلت کا کہیں نام و شان نہیں، کیمپنگ کیلئے میدان اور پانی کے جھرنے ہر جگہ دستیاب ہیں۔