اسد مرزا
بزرگ کمیونسٹ سیاست دان کے پی شرما اولی نے پیر کو نیپال کے وزیر اعظم کے طور پر حلف اٹھایا، جو کہ پانچ سالوں میں چوتھی مرتبہ ہے، اس امید کے ساتھ کہ ہمالیائی ملک میں سیاسی استحکام کو یقینی بنایا جاسکے گا جس سے کہ ملک کی معیشت کو مستحکم بنانے کے لیے اور غیر ملکی سرمایہ کاروں کو راغب کرنے اور نئی ملازمتیں شروع کرنے کی مہم میں حکومت کی جانب سے ٹھوس اقدام لیے جائیں گے اور ساتھ ہی ملک میں جاری سیاسی غیر استحکام کو ختم کرنے کی کوشش کی جائے گی۔
اولی، جو نیپال کی اعتدال پسند کمیونسٹ پارٹی (یونیفائیڈ مارکسسٹ لیننسٹ) کے سربراہ ہیں، کو صدر رام چندر پاڈیل نے اپنے عہدے کا حلف دلایا، ان کے پیشرو پشپا کمل دہل کے پارلیمانی اعتماد کا ووٹ کھونے کے تین دن بعد۔اولی نے 22 رکنی کابینہ کا اعلان کیا، جس میں بشنو پاڈیل کو وزیر خزانہ بنایا گیا، اور اتحادی پارٹنر نیپالی کانگریس (NC) کی آرزو رانا دیوبا کو وزیر خارجہ نامزد کیا گیا۔ آرزو این سی صدر اور سابق وزیر اعظم شیر بہادر دیوبا کی اہلیہ ہیں۔
پیر کے روز، ہندوستانی وزیر اعظم نریندر مودی نے اولی کو ٹوئٹر کے ذریعے مبارکباد پیش کی اور کہا کہ وہ’’ہمارے دونوں ممالک کے درمیان دوستی کے گہرے رشتوں کو مزید مضبوط کرنے اور اپنے ملک کی ترقی اور خوشحالی کے لیے باہمی طور پر فائدہ مند تعاون کو مزید وسعت دینے کے لیے نیپال کے ساتھ مثبت طور پر کام کرنے کے منتظر ہیں۔‘‘ابھی تک ان کے اس پیغام کا جواب نیپالی حکومت نے نہیں دیاہے، غالباً اس کی وجہ یہ ہوسکتی ہے کہ اولی ہی وہ سیاست داں ہیں جن کی حکومت کے دوران نیپال اور ہندوستان کے تعلقات میں کڑواہٹ قائم ہوئی تھی۔
نیپال 2008 میں 239 سالہ بادشاہت کے خاتمے کے بعد سے سیاسی طور پر غیر مستحکم رہا ہے۔ اولی کی نئی حکومت 2008 کے بعد سے 14ویں حکومت ہوگی، جبکہ 72 سالہ اولی خود چوتھی مدت کے لیے واپس لوٹ رہے ہیں۔یو ایم ایل نے اپنی کمیونسٹ پارٹی آف نیپال (ماؤسٹ سینٹر) سے حمایت واپس لینے اور پارلیمنٹ کی سب سے بڑی پارٹی NC کے ساتھ ایک نیا اتحاد بنانے کے بعد دہل کو 20 ماہ کے ہنگامہ خیز دور میں پانچویں بار اپنی اکثریت ثابت کرنے پر مجبور کردیا گیا۔یو ایم ایل کے رہنماؤں نے کہا کہ سیاسی استحکام کو یقینی بنانے کے لیے نئے اتحاد کی ضرورت تھی لیکن انھوں نے اس کی وضاحت نہیں کی۔ نیپال دنیا کے غریب ترین ممالک میں سے ایک ہے اور سیاسی عدم استحکام نے سرمایہ کاری کی حوصلہ شکنی کی ہے اور اس کی معاشی ترقی میں رکاوٹ ڈالی ہے، جس سے لاکھوں نوجوان بنیادی طور پر ملائیشیا، جنوبی کوریا اور مشرق وسطیٰ میں کام تلاش کرنے پر مجبور ہیں۔
عدمِ استحکام نے بادشاہت کی بحالی کا مطالبہ کرنے والے لوگوں میں اضافہ کے ساتھ ساتھ چھٹپٹ مظاہروں کو بھی جنم دیا ہے جس میں کہا گیا ہے کہ یکے بعد دیگرے حکومتیں ملک کو ترقی دینے کے وعدوں کو پورا کرنے میں ناکام رہی ہیں۔جس کی وجہ سے نیپال کی معاشی صورت حال بھی دن بدن بد سے بدتر ہوتی چلی جارہی ہے۔ افراطِ زر میں کافی اضافہ آچکا ہے، نوکریوں میں بہت کمی آئی ہے، زیادہ تر نوجوان بے روزگار ہیں اور ملک کے صنعتی شعبے کو بھی اس غیر یقینی سیاسی صورتحال کی وجہ سے مثبت طور پر کام کرنے میں دشواری ہورہی ہے۔
کھٹمنڈو میں ہونے والی سیاسی پیش رفت کو حریف نئی دہلی اور بیجنگ قریب سے دیکھتے ہیں چوںکہ نیپال میں ترقیاتی امداد اور بنیادی ڈھانچے کی سرمایہ کاری دونوں ہی کرتے ہیں اور نیپال میں اپنے اپنے جغرافیائی اور سیاسی اثر و رسوخ کو بڑھانے کے لیے ایک دوسرے کے حریف ہیں۔ایک وقت ایسا تھا کہ جب ایک طریقے سے نیپال کو ایک ہندوستانی ریاست ہی سمجھا جاتا ہے، لیکن فی الوقت نیپال چین کے زیادہ قریب آچکا ہے۔اولی نے 2016-2015 میں بطور وزیر اعظم اپنی پہلی حکومت میں بیجنگ کے ساتھ ایک ٹرانزٹ معاہدے پر دستخط کرکے نیپال کو چین کے قریب کردیا تھا، جس سے نیپال کی غیر ملکی تجارت پر ہندوستان کی اجارہ داری کا خاتمہ ہوا۔
تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ نیپال کی دو سب سے بڑی پارٹیوں NC اور UML نے دہل کی حکومت کو گرانے اور ایک نیا اتحاد بنا کر خطرہ مول لیا ہے۔آزاد تجزیہ کار گیجا شرما واگلے نے کہا کہ یہ خطرناک اور آخری آپشن ہے۔’’اگر یہ اتحاد حکمرانی اور سیاسی استحکام فراہم کرنے میں ناکام رہا تو نیپالی عوام اسے آئین اور نظام کی ناکامی سے تعبیر کریں گے۔‘‘جب سے نیپال 1990 میں مطلق العنان بادشاہت سے آئینی نظام میں تبدیل ہوا، اور پھر 2008 میں ایک مکمل جمہوریہ میں تبدیل ہوا، اس کی جمہوری سیاست عدم استحکام اور اقتدار میں مسلسل تبدیلیوں کی وجہ سے نشان زد ہوئی ہے، اور اس کی وجہ سے وہاں پر حکمرانی خراب تر ہوتی چلی گئی ہے۔ وفاقیت سے متعلق آئینی اصلاحات کے ادارے اور خانہ جنگی اور بادشاہت کے خاتمے کے بعد پسماندہ قوتوں کے لیے نمائندگی کی ضمانت کے باوجود، نتائج ملک کی “کم ترقی یافتہ ملک” کی حیثیت کو برقرار رکھنے کا باعث بنے ہیں۔یہ بات بالکل عیاں ہے کہ نیپال کی تینوں بڑی جماعتوں کی قیادت نے کسی بھی طریقے سے اقتدار پر قائم رہنے میں زیادہ دلچسپی ظاہر کی ہے، قطع نظر اس کے کہ وہ قبل از انتخابات اتحادوں کے ذریعے اپنی حکومت قائم رکھ پاتی ہیں یا نہیں۔ اس کے علاوہ، پارلیمانی نظام میں موروثی عدم استحکام جو ملک میں سماجی دراڑ کی عکاسی کرتا ہے، اتحادی سیاست کی ایک ایسی شکل کا باعث بنا ہے جو نظریاتی یا اصولی تحفظات سے کم اور اقتدار کی ہوس سے زیادہ اثر انداز ہوتیہے۔ اس طرح کے عدم استحکام اور اقتدار کے غیر اصولی تعاقب کا نتیجہ نہ صرف نیپالی عوام میں جمہوری عمل سے مزید مایوسی کا باعث بن سکتا ہے بلکہ بادشاہت حامی گروپ نیپال میں صدارتی نظام کو قائم کرنے کے لیے زیادہ متحرک ہوسکتے ہیں۔کبھی چاول کا برآمد کنندہ، نیپال اب غذائی اجناس کی درآمدات پر انحصار کرتا ہے اور سیمنٹ کی صنعت، جو ملک کے اہم آجروں میں سے ایک ہے، 30 فیصد صلاحیت کے ساتھ چل رہی ہے۔ عالمی بینک کا اندازہ ہے کہ رواں مالی سال میں ملک کی اقتصادی شرح نمو 4 فیصد سے زیادہ نہیں رہنے کا امکان ہے اور آئی ایم ایف نے نیپال کو خبردار کیا ہے کہ اگر معیشت کی بہتری کے لیے اقدامات نہ کیے گئے تو بہت جلد ہی نیپال کو مالی بحران کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے۔
نئی دہلی کھٹمنڈو میں ہونے والی ہر سیاسی پیش رفت کو احتیاط کے ساتھ دیکھتا ہے۔ جب کہ پراچندا کو ہندوستان میں خیر سگالی حاصل تھی اور انھیں ہندوستان حامی مانا جاتا تھا،وہیں دوسری طرف اولی کا 2015 میں سرحدی ناکہ بندی کے دوران سخت گیر موقف، ان کا چین نواز موقف اور نیپال کے نقشے میں متنازعہ علاقوں کو شامل کرنے کی کوشش کو ہندوستان نے اپنی مخالفت کے طور پر تصور کیا تھا۔اور تب ہی سے دونوں ممالک کے درمیان پرانے خوشگوار رشتوں میں دراڑ پڑ گئی تھی۔وہیں دوسری جانب نیپال میں چینی قدم بڑھ رہے ہیں۔ تاہم، ہندوستان بدستور نیپال کا سب سے بڑا تجارتی شراکت دار ہے اور تقریباً 80 لاکھ نیپالی شہری ہندوستان میں رہتے اور کام کرتے ہیں۔ لہٰذا، نئی دہلی ہمالیائی ملک کی سیاست پر ایک اہم پوزیشن لینے اور اس بات کو یقینی بنانے کے لیے کہ بیجنگ کھٹمنڈو میں تازہ ترین سیاسی موڑ کو اپنے فائدے کے لیے استعمال نہ کرسکے وہ ضرور کوئی ایسی نئی حکمت عملی کو استعمال کرسکتا ہے جس سے کہ نیپال میں ہندوستان کو پھر وہی مقام حاصل ہوجائے جو کہ اسے ماضی میں حاصل تھا۔کیونکہ اس کی خواہش کرنا صرف معاشی یا تجارتی رشتوں کو فروغ دینا ہی نہیں ہے بلکہ اس کی اصل وجہ جغرافیائی جیو پولیٹکس ہے کیونکہ اگر نیپال چین کے قریب ہوتا ہے تو دفاعی طور پر ہندوستان کو نیپال کے ساتھ اپنی سرحدوں پر اپنی فوج کی تعداد کو زیادہ کرنا پڑے گا جو کہ ابھی نہ کہ برابر ہے۔اور اگر ہندوستان کو نیپال کی سرحد پر فوجیں منتقل کرنا پڑتی ہیں تو ہندوستانی فوج کو اس کا منفی اثر ان علاقوں میں دیکھنا پڑے گا جہاں پر کہ چینی جارحیت اپنے عروج پر ہے جیسے کہ لداخ اور شمال مشرقی ریاستیں۔
(مضمون نگارسینئر سیاسی تجزیہ نگار ہیں ، ماضی میں وہ بی بی سی اردو سروس اور خلیج ٹائمزدبئی سے بھی وابستہ رہ چکے ہیں۔ رابطہ کے لیے: www.asadmirza.in)