بشارت بشیرؔ
اقبال مندانِ ازلی پورے جوش وجذبے کے ساتھ حج بیت اللہ کے ارادے سے گئے تھے اور بہت ہی اہتمام کے ساتھ ما شاء اللہ اُن کی واپسی ہورہی ہے۔اُن سے ملنے مصافحہ کرنے اور دعائیں لینے کے لئے ہر دل تڑپتا نظر آتا ہے ۔یقینا ًوہ سعادت مند ہیںاور سفر محمود نے اُنہیںمزید محترم بنادیا ہے۔ اس لئے حجاج کرام کی زیست کے اطوار و انداز بھی اب کچھ ایسے ہوں کہ اُس سابننے کی لوگوں میںخواہش پیدا ہوساتھ ہی یہ بھی لازم ہے کہ اُن کی آمد یہ پتہ بھی دے کہ اُن کی زندگی بدل چکی ہے تو بہ وانابت کے لئے بھی گئے تھے، اب لوٹ گئے ہیں۔ اور زبان رسالت مآب صلی اللہ علیہ وسلم کے مطابق ایسے سعادت مند جن کا حج قبول ہوتا ہے ایسے ہوتے ہیں،جیسے اُنہوں نے اپنی مائوں سے نیا جنم لیا ہو۔ ظاہر ہے کہ صورت حال جب ایسی ہو تو پھر لگنا بھی چاہیے کہ حاجی کامل طور پر بدل گیا ہے۔ گو وہ بشر ہے اور فرشتہ بن کر واپس نہیں آرہا، لیکن کیا اس کے عقائد کی درستگی ہوگئی ہے۔ کیا اب اللہ کے احکام کی تعمیل اُس کا معمول بن جائے گا ٗ کیا حج کے درس وحدت سے متاثر ہو کر وہ ملت کا جزولا ینفک بن کرکے رہے گا،کیا توبہ واستغفار اب اُس کا شعار بن کے رہے گا، کیا رمی جمرات کے عمل نے اُسے سکھایا ہے کہ شیطان کے دائو وپیچ میں اب نہیں آنا، اُس کی فسوں کاری کی نذر نہیں ہونا ، اُس کے دھوکوں سے بچ کے رہنا ،وہ گناہ کو حسین صورت میں پیش کرتا ہے، اس کی ان چالبازیوں ، مکاریوں اور دھوکہ دہی سے ہوشیار ہنا، کیا احرام کی چادر نے اُسے اُس سفید لباس کی یاد بھی دلائی ہے جو دنیا سے روانگی کے وقت اُس کا پہناوا ہوگا، کیا عرفات میں حی وقیوم کے دربار میں کھڑے،بیٹھے ، گڑگڑا نا ،فریاد کرنا اپنے حاجات کا فائل رکھنا، اُسے اب ساری زندگی بس مولا کی دہلیز پر رہنے اور ہر شئے اُ سے طلب کرنا سکھائے گا۔
یاد رکھئے ہر اچھا یا بُرا عمل اپنے اندر ایک تاثیر رکھتا ہے۔ اسلامی عبادات میںحج بھی ایک ایسی بے مثال عبادت ہے، جوانسانی ارواح وابدان پر اپنے اثرات مرتسم کرتی ہے۔ مقامات مقدسہ کانورانی ماحول، انوار وبرکات ورحمتوں کی مسلسل بارشیں یہ سعادتیں اور عظمتیں اور کہاں؟ساری زندگی ایک مسلمان دوبارہ دیکھنے کے لئے تڑپتا ہے۔ یہاں پتھر دل بھی موم ہوکے رہ جاتے ہیں۔ واضح ہے کہ حج انسان کی گذشتہ اور آنے والی زندگی میں ایک فصیل قائم کرتا ہے۔ یہاں سے انسان گذشتہ زندگی کے اوراق کو بند کرکے نئی زندگی کی شروعات کرتا ہے۔ اس حج کو زبان معجز بیان صلی اللہ علیہ و سلم نے حج مبرور فرمایا ہے۔ کون نہیں جانتا کہ اس وقت دنیا میںسات بڑے عجوبوں نے اہل دنیا کو ورطۂ حیرت میں ڈال رکھا ہے۔ علاوہ ازیں اور کئی خاص مقامات ،آثار قدیمہ اور تواریخی جگہیں بھی ہیں، جو انسانی قلوب کو گھنٹوں، دنوں موہ لیتی ہیں۔ لیکن اتنا کچھ ہونے کے باوجود باربار دیکھنے سے جی بھر جاتا ہے ۔مگر یہ بس اللہ کا گھر ہے جس کی مقناطیسی قوت ہر مسلمان کو بار بار اس کی جانب کھینچتی چلی جاتی ہے اور ہر بار کی حاضری اس کے شوق وولولہ میںکمی نہیں بلکہ اضافہ در اضافہ کا باعث بن جاتی ہے۔ آنکھیں سیرہی نہیں ہوتیںاور کعبہ پہ پڑی جب پہلی نظر کیا چیز ہے دنیا بھول گئے کے مصداق ہر شئے بھول جاتی ہے اور نظر بس اس گھر پر ٹک جاتی ہے۔ جس کی تعمیر سیدنا ابراہیم علیہ السلام نے اپنے فرزنددل بند کے ہمراہ کرکے باذن اللہ ساری انسانیت کو اس کی زیارت کرنے کے لئے بلایا تھا ۔ماشاء اللہ یہ ندا سنی جاچکی ہے اور ہزاروں لاکھوں لوگ دنیا کے ہر خطہ زمین سے ہر سال پا پیادہ سواریوں پر ٗ افتاں وخیزاں چلے آتے ہیں اور دامن مرادبھربھر کے لے جاتے ہیں۔اگر زندگی شرک سے بیزاررہی ہو اور اسی حالت پر موت سے ملاقات بھی ہوئی تو پھر اقبال وبخت کے کیا کہنے۔ کہ حج کے دوران قلب سلیم رکھنے والے لوگ خود محسوس کرتے ہیں کہ یہاں ’’میں‘‘ وہ نہیں جو اپنے گھر اور وطن میںتھا …کچھ اور ہو گیا ہوں، میرے اند ایک تبدیلی واقع ہورہی ہے۔ خیر کی،اللہ سے رجوع کرنے کی ٗ ساری انسانیت کا ہمدر بنے رہنے کی سو یہ تبدیلی باقی رہے۔ ہر آن اللہ تعالیٰ سے ملتجی رہا جائے۔سوچ یہ ہوکہ مولا حج کی ادائیگی ہوئی تو ضرور لیکن اسے قبول بھی فرما ۔ اس کے لئے شرط یہ کہ عبادات اخلاص سے سرشار ہوں ،کوئی ریا ، دکھاوا، سیلفیاں لینے کا شوق، حاجی کہلوانے کی ہوس، اپنی سرمایہ داری کے اظہار کی خواہش کچھ بھی نہ ہوعمل صرف اللہ فی اللہ ہو۔
حجاج لوٹ رہے ہیں ان کی جانب کتنی ہی نگاہیں اُٹھ رہی ہوں گی ،اپنوں کی ، دوست واحباب کی ، اعزہ واقارب کی، بچوں کی ، بڑوں کی کہ ہمارا پیارا ہمارے لئے کیا کیالے کر آیا ہے۔ اُن کے لئے حجاج کا کچھ لانا کوئی گناہ تو نہیں فراغت کے اوقات میں وہاں تجارت کرنے کی بھی اجازت ہے۔ لیکن اصل بات یہی ہے کہ حجاج خود اپنے لئے اپنے ہمراہ کیا لائے ہیں۔ کھجور ماشاء اللہ وہاں کی نعمت غیرمترقبہ ہے اور زمزم کی عظمت کے بھی کیاکہنے ٗاسے بھی ضرور لائیں۔لیکن اصل سوغات یہی ہے کیا آپ کی زندگی نے کروٹ لی ہے۔ مکہ کی گلیوں میںکیاتڑپتے بلال رضی اللہ عنہ کی کچھ یاد آئی کہ توحید کی سربلندی کے لئے کیسے کیسے جھلستی ریت پر لٹائے گئے ، گھسیٹے گئے ۔آل یاسر کی مشکلات کا اندازہ دعوت توحید قبول کرنے کی پاداش میںہوا بھی یا نہیں۔ہونا چاہیے اور ضرور ہونا چاہیے اور جو حج آپ نے کیاوہ شعوری طورہوا نا؟ اب آپ کی جانب ساری زندگی ہزاروں سینکڑوں نگاہیںاُٹھیں گی ،کار خانوںمیں ، دکانوں پر ، بازاروںکے اندر، رشتہ داروں کے ساتھ معاملات میں،ہمسایوں کے ساتھ سلوک کے دوران آپ کو ایک حاجی کی حیثیت سے کسوٹی پر پرکھا جائے گا۔کہ زندگی بدل گئی ہے یا نہیں! سر نے جوسر فرازی پائی ہے وہ کیا اب سر بلند رہنے کے لئے بس سر دینے والے کے سامنے ہی جھکارہے گا؟ عدل وانصاف کیا شیوہ بنا رہے گا؟ دیکھا جائے گا اورکیا ہر حال وقال میںاللہ سے ڈرنے کا عمل جاری رہے گا،ہر چیز کا جائزہ لیا جائے گا۔
یاد رہے کہ سفر حج سے واپسی کے بعد انسانی اعمال میںبہتری پیدا ہوجاتی ہے، ایک نیک عمل کرنے کے بعددوسرے کے کرنے کی چاہ بڑھ جاتی ہے، فرائض وواجبات کی بروقت ادائیگی کی فکر دامن گیر رہتی ہے ۔اس لئے یہ دیکھنا ضروری ہے کہ کیا ہمارے اندار حج کے بعد اس نوع کے احساسات جاگ رہے ہیں۔ہم جانتے ہیں کہ حج کا اصل مقصد آدمی کے اندر اللہ تعالیٰ کا تقرب اور خوف پیدا کرنا ہے، ایثار کے جذبات کو جگانا ہے لیکن جب حاجی مبارک سرزمین سے واپس اپنے معاشرہ میںآجاتا ہے۔ تو گناہوں سے بچنا اتنا آسان نہیں ہوتا جنتا سمجھ لیا جاتا ہے۔ قدم قدم پر اپنے اعمال کا محاسبہ کریں، گناہوں سے پاک زندگی گذارنے کا عہد بھی کریں اور اس حوالہ سے کاوشیں بھی کریں ۔ کاوشیں کیا وہی جو قرآن وسنت نے زندگی گذارنے کا لائحہ عمل دیا ہے۔ اسی کو عملانا ہے تو کامیابی گھر میں ڈیرہ ڈال کے رہے گی۔ معاشرتی آلودگیوں سے اپنے اور اپنے اہل خانہ کو بچا کے رکھیں تو بہت بڑی بات ہے۔ یہی بات اقبال ؒ نے یوں کہی ہے۔
زائرین کعبہ سے اقبال یہ پوچھے کوئی
کیا حرم کا تحفہ زمزم کے سوا کچھ بھی نہیں
ہاں واپسی پر اپنی عبادات و بندگی پر نجی اور عوامی مجالس میں فخر نہ کریں اگر وہاں کسی وجہ سے اپنے کسی ساتھی یا رفیق سے کچھ رنجش و اختلاف ہوا ہے۔ اس کا اظہار نہ کریں۔اس کے ساتھ کمزور ہوئے رابطہ کو مستحکم کریں ۔دوست واحباب کو زندگی بدلنے کا درس ناصحانہ اور متفقانہ انداز میں دیں۔اعزہ واقارب سے ٹوٹے رشتوں کو بحال کریں، نرمی اور متانت کو شعار بنائیں۔ یاد رہے کہ حج کے دوران قدم قد م پر جب سیدنا ابراہیم علیہ السلام کی یاد آتی ہے،اُن کی حیات مبارکہ کو دیکھیں تو عیاں یہی بات ہوتی ہے کہ کٹھن مرحلوں ، مشکلات کی ہر گھڑی اور آزمائش کے ہر موقع پر صبر ورضا کا پیکر بنے رہے۔ برداشت، تحمل اور بردوباری زندگی کا شعار رہا۔ اس لئے اے نیک بخت حجاج!زندگی میںکامیابی کا سب سے بڑا راز بھی ہی ہے کہ آدمی صبر کا پیکر بنا رہے اور قوت برداشت سے آراستہ ہو۔ ایک دوسرے کو سمجھنے اور ہر ایک کی بات کو سننے اور برداشت کرنے کی خوڈالنی ہوگی ۔آپ کو علی وجہ البصیرۃکسی سے اختلاف کرنے کا بھی حق ہے۔ لیکن اس کے لئے بھی انداز خوبصورت چاہئے۔ اختلاف کسی رنجش ، عداوت یا نفرت میں تبدیل نہ ہو۔ ان کو قربان کرنا ہوگا اور دنیا کی تاریخ دیکھ کر آپ کو صاف نظر آئے گا کہ شرافت ، متانت ، مروت ومحبت سے ہی ہم ایک دوسرے کے دل جیت سکتے ہیں اور اس کے لئے ضروری ہے کہ ہم قرآن وسنت کا خوب مطالعہ کریں۔ تو زندگی اَنا کے خول سے باہر آکر محبتوں وشفقتوں کی برسات برسائے گی۔
اللہ تعالیٰ ہماری زندگی کا رخ کامل طور اسلام کی جانب کردے۔ آمین
(رابطہ۔7006055300)