گلفام بارجی۔ہارون
اسلامی تواریخ میں واقعہ کربلا ایک ایسا واقعہ ہے جس کی ہمیں کوئی مثال نہیں ملتی اور نہ ملے گی۔ دین اسلام کی بقاءکے لئے واقعہ کربلا کی پیشنگوئی اگرچہ پیغمبر اسلام حضرت محمد مصطفیٰ ؐ نے اپنے اس وقت کی تھی جب حضرت امام حسنؑ اور حضرت امام حسین ؑ کمسن تھے۔وہیں ایسی بھی کئی روایات موجود ہیں جن میں کہا گیا ہے کہ حضرت آدمؑ نے بھی امام حسینؑ کی شہادت پر رویا حالانکہ اس وقت اگرچہ نواسہ رسول بظاہر دنیا میں تشریف نہیں لائے تھے لیکن ان کے نور سے عالم منور ہوچکا تھا۔ واقعہ کربلا ہمیں اس واقعہ کی یاد تازہ کرتاہے جب امام حسینؑ نے اپنے قافلے کو کربلا میں لٹادیا۔یکم محرم سے دس محرم تک ان پر کتنے مصائب ڈھائے گئے ان کا کوئی شمار نہیں۔ایک روایت میں یہ بھی ہےکہ یزید نے امام عالی مقام ؑ کو بارہ سو خطوط ارسال کئے کہ آپ ہماری دعوت قبول فرمائیں ہم آپ کی بیعت کرنا چاہتے ہیں لیکن امام عالی مقامؑ کو سب معلوم تھا کہ یزید کا اصلی مقصد کیا ہے۔امام عالی مقامؑ جانتے تھے کہ کوفہ اور شام میں یزید نے کس طرح دین اسلام کو مزاق بنا رکھا ہے۔ امام عالی مقامؑ یہ بھی جانتے تھے کہ یزید کس طرح دین اسلام پر حاوی ہونا چاہتا تھا اور حضرت امام حسین علیہ السلام یہ بھی جانتے تھے کہ یزید کو معلوم ہے کہ جب تک حسین ؑ زندہ ہے تب تک یزید دین اسلام کو اپنی گرفت میں نہیں لےسکتا۔کچھ لوگ یہ بھی کہتے ہیں کہ یزید اور حسینؑ کی لڑائی حق و باطل کی لڑائی نہیں بلکہ اقتدار کی لڑائی تھی لیکن وہ لوگ اس بات سے شاید بے خبر ہے یا جان بوجھ کر انجان بننے کی کوشش کرتے ہیں کہ اگر یزید اور حسین علیہ السلام کی لڑائی اقتدار کی لڑائی ہوتی تو امام عالی مقام ؑمدینہ سے کربلا کے لئے روانہ ہوتے وقت اپنے اہل و عیال کو ساتھ نہ لے جاتے۔اگر حضرت امام حسینؑ کو یزید کے ساتھ اقتدار کی جنگ لڑنے جانا ہوتا تو امام عالی مقامؑ خواتین اور معصوم بچوں کے بجائے اپنی لشکر کو ساتھ لے جاتا لیکن امام حسینؑ جانتے تھے کہ کل اسے اقتدار کی لڑائی سے تعبیر کیا جائے گا اس لئے امام علیہ السّلام نے دنیا کو دکھا یا کہ ہم کوئی اقتدار کی جنگ لڑنے نہیں نکلے ہیں بلکہ ہم حق و باطل کی جنگ لڑنے نکلے ہیں اس لئے امام حسینؑ نے قافلے میں معصوم بچوں اور خواتین کو شامل کیا۔مدینہ شریف سے روانگی کے وقت امامؑ اپنے اہل و عیال اور اپنے چند رفقاءکے ساتھ کربلا کے لئے روانہ ہوئے۔یزید کو جب امام عالی مقامؑ کی کربلا میں آمد کی خبر ملی تو یزید نے اپنے قاصد کو امام عالی مقامؑکے پاس یہ پیغام لیکر بھیجا کہ اگر آپؑ ہماری بیعت کریں گے تو میں آپ ؑ کو اپنی سلطنت کا باشاہ بناؤں گا لیکن حسین ؑ کسی سلطنت یا بادشاہت کی غرض سے کربلا میں وارد نہیں ہوئے تھے بلکہ ان کا مقصد صرف اور صرف اپنے نانا جناب حضرت محمد مصطفیٰ ؐکے اس دین اسلام کی حفاظت کرناتھا جس دین اسلام کو یزید اپنی من مرضی سے چلانا چاہتاتھا۔یکم محرم سے سات محرم تک حسینؑ کو یزید کی طرف کئی پیغام موصول ہوئے کہ آپ علیہ السلام ہماری بیعت تسلیم کریں لیکن حسین ؑ کا ایک ہی جواب ہوتا تھا کہ میں اپنے اہل و عیال کے ہمراہ اپنے ناناجان کے دین اسلام پر قربان ہوئے کے لئے تیار ہوں لیکن تمہاری بیعت نہیں ہوگی۔ اسی طرح یزید نے امام عالی مقامؑ اور ان کے اہل و عیال پر ایک اور حربہ آزمایا سات محرم سے نواسہ رسول پر پانی بندکردیا لیکن پھر بھی امام حسینؑ کے قول فعل میں کوئی فرق نہیں آیا آئے گا بھی کیسے حیدر قرار کے جگر کا جو ٹکڑا تھا۔ آخر کار تھک ہار کر یزید اس نتیجے پر پہنچا کہ اب صرف ایک ہی راستہ ہے کہ امام عالی مقامؑ اور ان کے رفقاءکو شہید کیا جائے۔ اسی سوچ کو یزید نے 10 محرم کو عملی جامہ پہنانے کی سئی کرلی اور 10 محرم جس سے یوم عاشورہ بھی کہتے ہیں کو یزید نے امام حسین ؑ کے تمام رفقاءکو ایک ایک کرکے شہید کردیا۔ان شہداءمیں جوان، بوڑھے اور بچے بھی شامل تھے۔ ان شہداءمیں جہاں تیرہ سال کا ابھرتا نوجوان امام عالی مقام علیہ السلام کا بھتیجا اور امام حسنؑ کا لخت جگر حضرت قاسم بھی شامل تھا وہیں اٹھارہ سال کا نوجوان امام حسین ؑ کا بیٹا حضرت علی اکبرؑ بھی ان شہداءمیں شامل تھا۔ اتنا ہی نہیں بلکہ صرف چھ ماہ کا معصوم بچہ بھی حرمل کے تیر کا نشانہ بنا اور وہ چھ ماہ کا معصوم ننھا سا پھول بھی حضرت امام حسینؑ جگر کا ٹکڑا تھا ۔یوم عاشورہ کو کربلا میں حضرت امام حسینؑ کے 72 اصحاب و انصار شہید ہوئے جن میں سب سے چھوٹا اور ننھا شہید حضرت علی اصغرؑ بھی شامل ہیں۔تین دن کی پیاس نے جہاں کربلا کے میدان میں تمام اہلبیت و اطہار علیہ السلام کو نڈھال کردیا تھا، وہیں کربلا کا ننھا شہید حضرت علی اصغرؑ بھوک اور پیاس سے تڑپ رہا تھا۔ حسینی قافلے کے سالار امام عالی مقام کے بہادر برادر حضرت عباس ؑ تھے اور حضرت امام حسینؑ نے قافلے میں شامل خواتین کی پہرہ داری اور پانی لانے کی ذمہ داری انہی کو سونپ رکھی تھی اور جب عاشورہ کے دن حضرت عباس ؑ نے خیموں میں پیاس سے تڑپتے معصوموں کی آہ و پکار سنی ،ان سے برداشت نہ ہوا اور خیمے میں جاکر ان پیاسے معصوم بچوں کو یہ وعدہ دیکر کہ میں پانی لاو ں گا اور نہرفرات کی طرف چل پڑے لیکن نہرے فرات کے دونوں اطراف سے یزید نے پہرا بٹھا دیا تھا حضرت عباس ؑ نے پہرے کو نظر انداز کرتے ہوئے جب مشکیزہ میں پانی برا تو ظالموں نے ان پر حملہ کردیا پہلے ان کے دونوں بازوئے مبارک شہید کردئیے لیکن حضرت عباسؑ نے شجاعت اور بہادری سے مشکیزہ کو اپنے دندان مبارک میں لیا لیکن فرات کے پہرہ داروں نے مشکیزہ پر تیر چلائے اور مشکیزہ بھی چھلنی ہوگئی اور سارا پانی زمین پر گر پڑا ،یہ سب دیکھ کر جب حضرت عباسؑ کو اب یہ یقین ہوگیا کہ پیاسے معصوموں سے کیا ہوا وعدہ اب پورا نہیں ہوگا بھائی حسین ؑ کو آواز دی کہ اے میرے مولا پیاسے معصوم بچوں کو کہنا کہ میں ان کے ساتھ کیا ہوا وعدہ پورا نہ کرسکا، مجھے معاف کرنا ۔ امام حسینؑ کو جب کربلا کے اس ننھے شہد کی پیاس برداشت نہ ہوئی تو مولا نے شیر خوار علی اصغرؑ کو چادرمیں لپیٹ کر اپنی گود میں لیا اور میدان کی طرف یہ سوچ کر چل پڑا کہ شاید ظالموں کو اس شیر خوار پر ترس آئے گا اور وہ اسے پانی پلادیں گے۔ جب امام عالی مقامؑ ظالموں کے سامنے پہنچا اور ان سے کہنے لگا کہ اے یزید کے پیروکارو اگر بقول تم ہم نے خطا کی ہے لیکن اس چھ ماہ کے معصوم کا کیا قصور ہے، اسے تو پانی پلاو یہ شیر خوار کربلا کی اس تپتی ہوئی گرمی سے نڈھال ہو چکا ہے ۔امام عالی مقام علیہ السلام کا یہ کہنا اور ایک عشقیہ نے حرمل نام کے ایک ظالم کو حکم دیا کہ تم اس شیر خوار کو ایسا پانی پلاو تاکہ قیامت تک اسے پیاس نہ رہ سکے یہ حکم پانے کے بعد حرمل امام عالی مقام ؑ سے مخاطب ہوکر کہنے لگا آپ علیہ السلام اس شیر خوار کا روئے مبارک میری طرف کرلیں میں اسے پانی پلاؤں گا۔ امام حسین ؑ نے جب شیر خوار حضرت علی اصغر کے روئے نازنین سے چادر ہٹائی تو حرمل نے تین نوک والا تیر اس چھ ماہ کے تین دن کے پیاسے اور بھوکے شیر خوار کے حلقہ مبارک میں پیوست کردیا، تیر کھانے کے بعد اس چھ کے شیر خوار نے آہ تک نہیں نکالی، نکالتا بھی کیسے جو تیر ان کے حلقہ مبارک میں پیوست ہوا وہ تیر شیر خوار معصوم علی اصغرؑ کے وزن سے کہیں زیادہ بھاری تھا اور اپنے باباجان کی گود میں شہید ہوکر کربلا کے ننھے شہید کا درجہ حاصل کیا۔