مفتی رفیق احمد
لوگ سال گزرنے پر جشن مناتے ہیں۔ تہوار کی طرح خوشیوں، شادمانیوں اور لہو ولعب میں منہمک رہتے ہیں۔ یہ خوشیاں اور جشن منانا اسلامی تعلیمات کے عین خلاف ہے۔ اسلام اپنے ماننے والوں کو سال گزرنے پر اظہار تاسف اور محاسبہ نفس کی تعلیم دیتا ہے۔ کیونکہ انسان کی زندگی سے ایک پل گزرنا گویا اس کی مقررہ میعاد سے ایک گھڑی ختم ہوگئی۔ اور وہ قبر کی طرف رفتہ رفتہ قریب ہوتا جارہا ہے۔ در حقیقت انسان کی زندگی ایک عالی شان پرشکوہ عمارت کی طرح ہے۔ اس کی زندگی کے لمحات اس عمارت کی اینٹیں ہیں۔ جیسے ہی ایک دن گزر گیا تو اس عمارت سے ایک اینٹ گرگئی۔ جیسے جیسے اس عالی شان فلک بوس عمارت کی اینٹیں گرتی جائیں گی وہ آخرت کی طرف دن بدن قریب سے قریب تر ہوتے جائے گا۔ پھر جب اس عمارت کی تمام اینٹیں سب گر جائیں گی تو سمجھو کہ پیک اجل آکر اس کی روح کو پکڑ کر چلا جائے گا۔ یہی دنیوی زندگی کی حقیقت ہے۔ ہماری پوری بھاگ دوڑ اسی فانی دنیا میں ناامید ہوکر رہ جائے گی۔ دنیا جی لگانے کی چیز نہیں ہے۔ جیسے کہ شیخ سعدی نے فرمایا حکیماں گفتہ اند ہرچہ نپاید دل بستگی را نشاید یعنی عقلمندوں نے کہا کہ جو شئی ناپائیدار ہے وہ جی لگانے کے قابل نہیں ہے۔
آج ہم سب عہد وپیماں کریں کہ ہمارے گزرے ہوئے لمحات کا جائزہ لیں اور خود احتسابی کرکے اپنے رب کی طرف رجوع ہوکر نفس کا محاسبہ کریں ۔ نفس کے محاسبہ کے متعلق حضرت امیر المؤمنین ارشاد فرماتے ہیں۔ حاسبوا انفسکم قبل ان تحاسبوا، وزنوہا قبل ان توزنوا۔ یعنی حساب لیے جانے سے پہلے حساب کرلواور اعمال وزن کیے جانے سے پہلے وزن کرلو۔ تو جب جب ہماری زندگی میں نیا سال جلوہ گر ہوتا ہے تو جشن منانے کے بجائے خود کا محاسبہ کریں اور گزرے ہوئے ایام پر ندامت کے آنسو بہاتے ہوئے آنے والے ایام میں حسن عمل کا عزم مصمم کریں۔ کیونکہ ہماری زندگی کے ایک ایک لمحے کے بابت ہم سے پوچھ گچھ ہوگی جیسے کہ سرکار دوجہاںؐ فرماتے ہیں کہ روز قیامت ابن آدم کے پاو?ں اس وقت تک اللہ تعالیٰ کے پاس سے نہیں کھسک سکیں گے، جب تک اس سے پانچ چیزوں کے بارے پوچھ گچھ نہ کر لی جائے گی، (۱) اس نے اپنی عمر کہاں فنا کی؟ (۲) اپنی نوجوانی کہاں کھپائی؟ (۳) مال کہاں سے اور کیسے کمایا؟ اور (۴) کہاں خرچ کیا؟ اور (۵) اس نے اپنے علم کے مطابق کتنا عمل کیا؟‘‘(سنن ترمذی) اس حدیث پاک سے یہ بات روز روشن کی طرح عیاں ہو گئی کہ انسان سے اس کے گزرے ہوئے ایام کے بارے میں بھی پوچھا جائے گا۔اس کے بچپن سے لیکر بڑھاپے تک کے ایک ایک لمحات کے بارے اس سے سوال ہوگا جیسے کہ حدیث پاک میں واضح طور ہے۔ کیونکہ تخلیق انسانی کے پیچھے قدرت کا عظیم مقصد پنہاں ہے۔ یوں ہی لہو ولعب میں وہ اس کی زندگی کو گزار نہیں سکتا۔ اس کی تخلیق کے پیچھے اعلیٰ مقاصد ہیں۔ جیسے کہ قرآن کہہ رہا ہے۔ میں نے جن اور آدمی اسی لئے بنائے کہ میری عبادت کریں۔(سورۃ الذاریات: 56) مزید فرماتا ہے کہ میں نے جن اور آدمی اسی لئے بنائے کہ میری عبادت کریں۔(سورۃ الذاریات: 56) پھر فرماتا ہے کہ کیا تم یہ سمجھتے ہو کہ ہم نے تمہیں بیکار بنایا اور تم ہماری طرف لوٹائے نہیں جائوگے(المؤمنون:115) تخلیق انسان کے مقصد کو بیان کرتے ہوئے رب قدیر فرماتا ہے کہ بڑی برکت والا ہے وہ جس کے قبضے میں ساری بادشاہی ہے اور وہ ہر چیز پر قادر ہے۔ وہ جس نے موت اور زندگی کو پیدا کیا تاکہ تمہاری آزمائش کرے کہ تم میںکون اچھے عمل کرنے والا ہے اور وہی عزت والا، بخشش والا ہے۔(الملک:1-2)
تو آپ خوب سمجھ گئے ہوں گے کہ انسان کو اس کے گزرے ہوئے ایام پر جشن نہیں بلکہ ندامت کے آنسو بہانا چاہئے۔ بیکار اور بیہودہ کاموں میں صرف ہوئے لمحات کو سوچ کر اللہ تعالی سے معافی تلافی کرتا رہیں۔ خود احتسابی کرتے رہیں اور محاسبہ ء نفس میں لگے رہیں۔اور عہد کریں کہ ان شاء اللہ العزیز یہ نیا سال میری زندگی کے لیے ایک داغ بیل اور نقطہء تحول ثابت ہوگا۔ اس میں اپنے رب کو راضی کرنے کی کوشش کروں گا۔ حتی الوسع گناہوں سے اجتناب کروں گا اور نیکی اور نیکی کی دعوت عام کروں گا۔ لوگوں کی خیر خواہی کرتے ہوئے بھلائیوں کا مشورہ دوں گا۔ اللہ اور اس کے حبیب پاک صلی اللہ علیہ وسلم کو پسندیدہ اعمال میں زندگی کے قیمتی لمحات وساعات کو گزاروں گا۔ نئے سال سے بہتر خود احتسابی اور محاسبہء نفس کا دوسرا موقع ہاتھ نہیں آئے گا۔ اس لیے چاہئے کہ اس ھجری و قمری نئے سال کی قدر کریں اور ضائع ہونے سے حفاظت کریں۔ ایک دوسرے کو مبارکبادی دینے سے بہتر یہ ہے کہ آپ گزرے ہوئے ایام پر افسوس کرتے ہوئے آنے والے دنوں کو رائیگاں ہونے سے بچائیں۔ پروردگار عالم سے دعا گو ہیں کہ اس قمری نئے سال میں ہمیں زیادہ سے زیادہ نیکی کرنے اور برائیوں سے دور رہنے کی توفیق رفیق عطا فرمائے۔ بالخصوص مغربی تہذیب سے دور ونفور ہوکر اسلامی تہذیب تمدن اپنانے کی توفیق عطا فرمائے ۔آمین