اِکز اقبال
ارشد اپنے صحن میں زار و قطار رو رہا تھا۔ وہ اپنے باپ اور بہنوں کے انتظار میں رو رہا تھا۔ اُن کے رشتہ د ار اور آس پاس علاقے سے آئے ہوئے لوگ اس کا یہ دکھ برداشت نہیں کر پا رہے تھے۔ ارشد کی نانی اسے چپ کرانے کی کوشش کر رہی تھی۔ مگر سولہ سالہ ارشد کے آنکھوں سے آنسووں ختم ہونے کا نام ہی نہیں لے رہے تھے، اور ہوتے بھی کیسے ؟
اس کا باپ ، اُسکا بڑا بھائی اور دو پیاری گڑیا شفیق بہنیں گذشتہ شام ایک حادثے میں ہلاک ہوچکے تھے۔ ارشد دسویں جماعت میں پڑھتا ہے اور وہ اپنے والد،اپنے بھائی اوراپنی بہنوں کو ہمیشہ ہمیشہ کے لئے کھو چکا تھا۔آس پاس کا پورا علاقہ جمع ہوچکا تھا۔ آج ایک ہی گھر سے ایک ساتھ چار جنازے نکل رہے تھے۔ سارا علاقہ ماتم کدہ بن چکا تھا۔ اُس شام کو ارشد نے اپنی ماں سے جلدی کھانا مانگا تھا۔ مگر ماں نے یہ بتا کر ٹال دیا کہ بابا بھائی اور بہنیں پانی لانے گئے ہیں۔ ’’پانی آجائے تو ہم سب مل کر کھانا کھائیں گے ،بس تھوڑا انتظار کرو۔‘‘مگر ماں کو کیا پتہ تھا کہ اُس کا سب کچھ لُٹ چکا تھا۔ کافی انتظار کے بعد جب وہ واپس نہیں لوٹے تو ارشد اپنے دوسرے بھائی کے ساتھ اُنکی تلاش میں نکلےاور وہاں سے پانی کے بجائے خون میں لت پت اپنے پیاروں کی صرف لاشیں واپس لاسکے۔
کسی کے وہم و گمان میں بھی نہیں تھا کہ پانی لانے نکلے بٹ خاندان کبھی واپس نہیں لوٹے گا۔ یہ پانی بٹ خاندان کے چار چراغ ایک ساتھ گل کرگیا ۔ حادثے میں ارشد کا بابا غلام رسول بٹ ( 55 سال ) بھائی طاہر احمد بٹ ( 25 سال ) دو بہنیں _ شبنم آرا ( 20 ) اور رفعت آرا ( 17 ) اللہ کو پیارے ہوگئےتھے۔
یہ سانحہ قیامت ِصغریٰ سے کم نہیں ہے۔ ایک پورا خاندان ہی برباد ہوگیا اور الزام آج بھی حکام کی صرفِ نظری اور لاپرواہی پر عائد ہوتا ہے۔ تحصیل ہندواڑہ کا یہ دور دراز علاقہ کافی عرصے سے پینے کی پانی جیسی بنیادی سہولت سے محروم ہے۔ مقامی باشندوں کو روزانہ گھر سے تقریباً ایک کلو میٹر دور پانی لانے کے لیے جانا پڑتا ہے۔ یہ المناک سانحہ بنیادی سہولیات فراہم کرنے میں حکام کی ناکامی کو اُجاگر کرتا ہے۔ جل جیون مشن کے تحت پانی دستیاب کرانے کے وعدوں کے باوجود، راجپورہ کا یہ علاقہ پینے کے پانی سے محروم ہے، جس سے اس کے باشندے غیر محفوظ اور ناقابل تصور خطرات سے دوچار ہیں اور آج ایک ہی خاندان کے چار افراد کی جانیں پانی کی تلاش میںہی تلف ہوئیں۔
اقتدار پر بیٹھے ہوئے حکام کو چاہیے کہ لوگوں کو اُن کی بنیادی سہولیات بہم پہنچائیں جو کہ اُن کا حق ہے، تاکہ آیندہ کوئی بھی ایسا دلدوز سانحہ پیش نہ آئے۔
عوام الناس سے مودبانہ التماس ہے کہ ہم اپنے جان و مال کی خود حفاظت کریں۔ اسلئے ضرورت اس بات کی ہے کہ وقت پر اربابِ اقتدار تک اپنی شکایت درج کرائیں اور ضروریات کے سارے کام وقت پر اور احسن طریقے سے کریں۔ یہ بات سچ ہے کہ لوگ کافی حد تک اپنی حالت کے خود ہی ذمہ دار ہوتے ہیں، تو عوام کی ذمہ داری ہے کہ اپنے حق کے حصول کےلیے آواز اٹھائیں تاکہ آئندہ اس طرح کے سانحات دوبارہ نہ ہونے پائیں۔ یہ قیامت خیز سانحہ ہم سب کے لیے ایک لمحہ فکریہ ہے کہ ہم سب اپنی ذمہ داریوں کو سمجھے اور دوسروں کو بھی اُنکی ذمہ داریوں کا احساس دلائیں تاکہ ایک خوش حال معاشرہ وجود میں آئے ۔
(رابطہ۔ 7006857283)