اسد مرزا
ایران میں واقع چابہار بندرگاہ کی ترقی کے لیے ہندوستان کے 10 سالہ معاہدہ کے لیے ایران کی جانب سے مثبت پیش رفت اس وقت ہوئی جبکہ ہندوستان میں عام انتخابات کا سلسلہ جاری تھا۔اور یہ مثبت پیش رفت دو دہائیوں کی تاخیر کے بعد عمل میں آئی ہے۔ یہ معاہدہ سب سے پہلے 2003 میں بھارتیہ جنتا پارٹی کے سابق وزیر اعظم اٹل بہاری واجپائی نے تجویز کیا تھا اور اسے حتمی شکل دینے میں 21 سال لگ گئے،جس کے درمیان تین ہندوستانی حکومتیں اور تین وزرائے اعظم تبدیل ہوگئے۔ لیکن ایران کے جنوب مشرقی صوبہ سیستان- بلوچستان میں واقع چاہ بہارر کو چلانے کا معاہدہ، دونوں ممالک کے لیے تجارتی فوائد کے مواقع فراہم کرتا ہے لیکن ساتھ ہی اسے کئی رکاوٹوں کا بھی سامناہے، جن میں سے ایران کے خلاف امریکی پابندیاں سب سے اہم کردارا ادا کرسکتی ہیں۔
13 مئی کو، ہندوستان نے ایران کی اسٹریٹجک چاہ بہار بندرگاہ کے شاہد بہشتی ٹرمینل کو تیار کرنے اور چلانے کے لیے ایران کے ساتھ10 سالہ معاہدے پر دستخط کیے تھے۔ نیا معاہدہ 2016 میں 500 ملین ڈالر کی ممکنہ ہندوستانی سرمایہ کاری کے بعد عمل میں آیا ہے۔ یہ مئی 2016 میں چابہار بندرگاہ پر دو ٹرمینلز اور پانچ گودیوں کو تیار کرنے کے لیے کیے گئے پچھلے معاہدے کو مکمل طور پر نافذ کرنے میں متعدد ناکامیوں کے بعد سامنے آیا ہے تاکہ وسطی ایشیا سے ہندوستان تک سامان اور گیس کی ترسیل اور دیگر بین الاقوامی کارگو کی بہ آسانی ترسیل کے لیے نیا راستہ مل سکے۔
پی ایم مودی نے2016 میں اصل چاہ بہار معاہدے کی جگہ، نئے معاہدے کے لیے ایران کا سفر کیا، اس کے علاوہ تہران نے بندرگاہ کے بنیادی ڈھانچے کو بڑھانے کے لیے تیار کردہ بین الاقوامی ٹرانسپورٹ اور ٹرانزٹ کوریڈور معاہدے پر بھی دستخط کیے تھے۔ لیکن تہران پر امریکی پابندیوں نے نئی دہلی کو بندرگاہ کی ترقی کے اپنے سابقہ وعدوں سے پیچھے ہٹنے پر مجبور کردیا۔ آخرکار ہندوستان نے امریکہ کے ساتھ ایک معاہدے پر بات چیت کی تاکہ بندرگاہ میں ہندوستانی سرمایہ کاری کی اجازت دی جاسکے۔مئی 2024میں تازہ ترین معاہدہ، جس پر انڈین پورٹس گلوبل لمیٹڈ اور ایران کی پورٹ اینڈ میری ٹائم آرگنائزیشن نے دستخط کیے، اگست 2023 میں جنوبی افریقہ میں برکس سربراہی اجلاس کے موقع پر مودی کی آنجہانی ایرانی صدر ابراہیم رئیسی سے ملاقات کے بعد سامنے آیا۔ یہ طویل مدتی معاہدہ شہید بہشتی ٹرمینل کی توسیع پر توجہ مرکوز کرے گا، جس میں IPG (انڈین پورٹس گلوبل) کی جانب سے $120 ملین کی سرمایہ کاری اور $250 ملین کی کریڈٹ سہولت فراہم کی جائیں گی۔معاہدے پر دستخط کے بعد امریکہ نے اس پر اپنا اعتراض جتایا تھا اور کہا تھا کہ اس کی وجہ سے ہندوستان کو بھی پابندیوں کا سامنا کر پڑسکتا ہے۔ لیکن وزیرِ خارجہ ایس جے شنکر نے پچھلے مہینے تیسری مرتبہ وزیرِ خارجہ کے عہدے پر فائز ہونے کے بعد امریکی اعتراضات کو سردست بے بنیاد قرار دیا ،جس سے ظاہر سے ہوتا ہے کہ ہندوستان اس معاملے پر کڑا رخ اختیار کرسکتا ہے اور پہلے کی طرح پابندیوں سے مستثنیٰ ہونے کے لیے امریکہ پر دباؤ بنا سکتا ہے۔
جنوب مشرقی ایران میں بحیرۂ عمان کے ساحل پر شہید کلانتری پورٹ ٹرمینل کے ساتھ واقع، شہید بہشتی ٹرمینل چاہ بہار فری ٹریڈ۔صنعتی زون کے اندر کام کرتا ہے، جس کا مقصد کارگو جہازوں کو چاہ بہار میں گودی اور سامان اتارنے کی ترغیب دینا ہے۔ لیکن تجارت کو راغب کرنے کی ایرانی کوششوں کے باوجود، تجارتی زون کو دبئی کی بین الاقوامی سطح پر تسلیم شدہ جبل علی بندرگاہ اور کئی دیگر علاقائی فری زونز سے سخت مقابلے کا سامنا ہوسکتا ہے۔پھر بھی، خلیج کے گہرے پانیوں میں چاہ بہار بندرگاہ کا مقام ممکنہ طور پر بین الاقوامی شمالی۔جنوبی ٹرانسپورٹ کوریڈور، ہندوستان، ایران، آذربائیجان، کے درمیان کارگو کی نقل و حمل کے لیے جہاز، ریل اور سڑک کے راستوں کے ایک وسیع نیٹ ورک میں شامل ہونے کے لیے خاصے بڑے پیمانے پر تجارتی کمپنیوں کواپنی جانب راغب کرسکتا ہے۔ لہٰذاہندوستان کی نظریں چاہ بہار کو استعمال کرتے ہوئے اپنے حریفوں، پاکستان اور چین پر مسابقتی تجارت سے فائدہ حاصل کرنے پر بھی مرکوز ہیں۔چین نے پاکستان میں گوادر کے مقام پر ایک نیا بندرگاہ تعمیر کیا تھا جو کہ CEPCکا ایک اہم جز ہے اور چاہ بہار سے محض 100 میل کے فاصلے پر واقع ہے، تاہم اس بندرگاہ کو علاقائی شورش کی وجہ سے وہ کامیابی حاصل نہیں ہوئی جو کہ چین اور ایران چاہ رہے تھے۔
تہران کے پاس چاہ بہار کو بین الاقوامی شمالی۔جنوبی ٹرانسپورٹ کوریڈور اور کرغزستان۔تاجکستان۔افغانستان۔ایران تجارتی راہداری سے تیز تر روابط کے لیے ایک وسیع قومی ریلوے نظام سے منسلک کرنے کا بھی منصوبہ ہے۔ مزید برآں، آرمینیائی حکام مجوزہ ایران۔آرمینیا۔ جارجیا۔ بحیرہ اسود کوریڈور کے ذریعے ہندوستانی سامان کی منتقلی کی پیشکش کر رہے ہیں۔ اس سے چاہ بہار ایک اہم تجارتی مرکز بن جائے گا جو 4,470 میل طویل راہداری کے ساتھ سمندر، ریل اور سڑک کے ذریعے تجارت کو فروغ دے سکتا ہے۔2000 میں روس کی طرف سے پہلی بار تصور کیے جانے والے اس منصوبے میں ممکنہ طور پر روس، بھارت، ایران، ترکی، آذربائیجان، بیلاروس، بلغاریہ، آرمینیا، یوکرین، عمان، کے ساتھ تجارت شامل ہوگی۔اگر امریکی پابندیاں اور علاقائی تنازعات اس منصوبے میں خلل نہیں ڈالتے ہیں تو مستقبل میں چاہ بہار کے ساتھ ایک علاقائی راہداری
ہندوستان کی دہلیز پر متبادل بین الاقوامی تجارتی راستہ پیش کر سکتی ہے، جس میں روس اور ایران بھی شامل ہوں گے۔ چاہ بہار راہداری بھی نقل و حمل کے وقت میں 40 فیصد تک کمی کر سکتی ہے، خاص طور پر یورپ جانے والے سامان کے لیےاور تنازعات سے متاثرہ بحیرۂ احمر اور تجارتی اعتبار سے زیادہ بھیڑ والی نہر سویز کے ذریعے نقل و حمل سے بھی کم خرچے پر سامان ایشیا اور یورپ کے درمیان آ جا سکے گا اور جس سے ہندوستان کو 5 ٹریلین ڈالر کی معیشت کے ممکنہ پھلنے پھولنے میں مدد حاصل ہوسکتی ہے۔
ایک بار پھر بندرگاہ کے منصوبے میں رکاوٹ بننے والی امریکی پابندیوں کے ممکنہ خطرے کو ذہن میں رکھتے ہوئے، ہندوستان اور ایران دونوں کو توقع ہے کہ اگر وہ چاہ بہار کو اس کی پوری صلاحیت کے مطابق تعمیر کرنا چاہتے ہیں تو انھیں مزید چیلنجز کا سامنا ہوسکتا ہے۔
ایران کے لیے سب سے بڑا سوال یہ ہے کہ ہندوستان، جس کے حکام نے کبھی چابہار کو سنہری مواقع کا گیٹ وے کہا تھا، اس منصوبے کو آگے بڑھانے کے لیے امریکی پابندیوں کے خلاف کہاں تک جاسکتا ہے۔ اگر ماضی کی پیش رفت دیکھیں، تو امکان ہے کہ ہندوستان اس بڑے معاہدے کو عملی جامہ پہنانے میں خاصی احتیاط کے ساتھ آگے بڑھے گا، تاکہ امریکہ کے ساتھ پابندیوں کے مسائل سے بچا جا سکے، لیکن اس مرتبہ وہ کڑا رخ اختیار کرسکتا ہے۔لیکن ساتھ ہی ایران کے ساتھ ہندوستان کی دوستی، جب تہران کی جانب سے غزہ میں فلسطینی گروپ حماس کی پشت پناہی نے مزید امریکی پابندیوں کو مزید دعوت دی ہے،تو نئی دہلی کو مزید پیچیدگیوں کا سامنا ہوسکتا ہے۔ لیکن جس طرح سے گزشتہ دو سال کے عرصے میں ہندوستان نے روس کے خلاف امریکی پابندیوں کے باوجود روس سے پیٹرولیم مصنوعات خریدنا جاری رکھیں اور امریکہ نے کچھ نہیں کیا، اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ غالباً اس مرتبہ بھی امریکہ کڑے تیور اختیار کرتے ہوئے ہندوستان کے خلاف کوئی بڑا قدم لینے سے پرہیز کرے گا۔
(مضمون نگارسینئر سیاسی تجزیہ نگار ہیں ، ماضی میں وہ بی بی سی اردو سروس اور خلیج ٹائمزدبئی سے بھی وابستہ رہ چکے ہیں۔ رابطہ کے لیے: www.asadmirza.in)