ایجنسیز
جنوبی کوریا//ہیپی نیس فیکٹری یعنی خوشی کی فیکٹری نامی جگہ میں ہر چھوٹے سے کمرے کا بیرونی دنیا سے رابطہ صرف دروازے میں موجود وہ چھوٹا سا سوراخ ہے جس سے کھانا اندر پہنچایا جاتا ہے۔ان جیل کی کوٹھڑی نما کمروں میں فون یا لیپ ٹاپ رکھنے کی اجازت نہیں۔ ان کمروں میں مقیم افراد کے پاس دیواروں کے علاوہ کچھ بھی نہیں۔یہ افراد جیل ہی کی طرح کے نیلے رنگ کے کپڑے زیب تن کیے نظر آ سکتے ہیں لیکن وہ قیدی نہیں ہیں، وہ جنوبی کوریا کے اس مرکز میں اپنی مرضی سے تنہائی کا تجربہ کرنے آئے ہیں۔ان میں سے اکثریت ایسے والدین کی ہے جن کا ایک بچہ معاشرے سے مکمل طور پر کٹ چکا ہے اور اب یہ افراد یہ سیکھنا چاہتے ہیں کہ دنیا سے کٹ کر جینا کیسا محسوس ہوتا ہے۔گزشتہ سال جنوبی کوریا کی وزارت صحت نے ایک سروے کیا تھا جس کے مطابق 19 سے 34سال کی عمر کے 15 ہزار افراد سے بات چیت کی گئی اور یہ جانا گیا کہ ان میں سے پانچ فیصد اپنی مرضی سے تنہائی کو چن رہے تھے۔اگر اس سروے کے نتائج کو جنوبی کوریا کی آبادی کے تناسب کے حساب سے دیکھا جائے تو اس کا مطلب ہو گا کہ تقریباً پانچ لاکھ 40 ہزار لوگ ایسی ہی صورت حال کا سامنا کر رہے ہیں۔رواں سال اپریل سے والدین غیر سرکاری تنظیموں کوریا یوتھ فانڈیشن اور بلیو ویل ریکوری سینٹر کے زیر انتظام 13 ہفتوں کے تعلیمی پروگرام میں شرکت کر رہے ہیں جس کا مقصد یہ سکھانا ہے کہ تنہائی پسند بچوں سے کیسے بات چیت کی جائے۔اسی پروگرام کے تحت ایک مرکز میں والدین ایسے کمروں میں وقت گزارتے ہیں جو قید تنہائی کے حالات پر مبنی ہیں۔ امید کی جا رہی ہے کہ اس تنہائی سے والدین اپنے بچوں کو زیادہ بہتر طور پر سمجھ سکیں گے۔جن ینگ نامی ایک خاتون کے بیٹے نے خود کو تین سال سے کمرے میں تنہا کیا ہوا ہے۔ لیکن خود تنہائی میں وقت گزارنے کے بعد وہ اپنے 24 سالہ بیٹے کی جذباتی قید کو بہتر سمجھ سکتی ہیں۔50 سالہ جن کہتی ہیں کہ ان کا بیٹا ہمیشہ سے بہت قابل تھا اور ان کے شوہر اور خود انھیں بھی اپنے بیٹے سے بہت امیدیں تھیں۔لیکن ان کا بیٹا اکثر بیمار رہتا تھا، اسے دوست بنانے میں مشکل پیش آتی اور پھر اسے خوراک کی ایک بیماری لاحق ہو گئی جس کی وجہ سے اس کا سکول جانا ہی مشکل ہو گیا۔جب ان کے بیٹے نے یونیورسٹی میں داخلہ لیا تو کچھ عرصے تک سب ٹھیک چلتا رہا لیکن پھر ایک دن وہ مکمل طور پر الگ تھلگ ہو گیا۔پارک ہان سل اپنے 26 سالہ بیٹے کی وجہ سے اس مقام پر آئیں جس کو تنہائی اختیار کیے سات سال ہو چکے ہیں۔ان کے بیٹے نے کئی بار گھر چھوڑا لیکن اب وہ اپنے کمرے سے کم ہی باہر نکلتا ہے۔ پارک نے کئی ڈاکٹروں سے بھی مشورہ کیا لیکن ان کے بیٹے نے ذہنی صحت کی کوئی بھی دوا لینے سے انکار کر دیا۔ اسے ویڈیو گیم کھیلنے کا جنون ہو چکا تھا۔واضح رہے کہ جنوبی کوریا ان ممالک میں شامل ہے جہاں دنیا میں سب سے زیادہ خودکشی کی شرح ہے اور گزشتہ سال حکومت نے اس مسئلے سے نمٹنے کے لیے پانچ سالہ منصوبے کا اعلان کیا تھا جس کے تحت 20 سے 34 سالہ افراد کا سرکاری خرچ پر ہر دو سال بعد طبی معائنہ کیا جائے گا۔جاپان، جہاں 1990 میں نوجوانوں کی پہلی لہر نے تنہائی اختیار کرنے کا آغاز کیا تھا، میں ایسے افراد اپنے بوڑھے والدین پر منحصر ہو کر رہ گئے تھے۔صرف اپنی معمولی پینشن پر اولاد کی مدد کرنے کی کوشش میں کئی والدین غربت اور ڈپریشن کا شکار ہو گئے۔