ہمارے سامنے جو وسائل ہیں ،اچھے بُرے جیسے بھی حالات ہیںاورہمارے دل میں جیسےعزم و ثبات ہیں، اُنہی کی بنیاد پر ہم اپنے مستقبل کی تعمیر کرسکتے ہیں۔ٹال مٹول ،انتظار اور کاہلی سے ہم کبھی بھی اپنی زندگی کی تجدیدنہیں کرسکتے ہیں بلکہ ایسے طریق کارسے ہم اپنے مسائل و مصائب یا حالات کوہمیشہ برقرار رکھتے ہیں، جن سے ہم نجات پانے کے خواہشمند ہوتےہیں۔اپنے کشمیری معاشرے میں اکثر یہی دیکھا جارہا ہےکہ انسان چاہتا ہے کہ اپنی زندگی کا نیا صفحہ کھولے اور اپنی حالت بدل ڈالے، لیکن اس کے لئے وہ زیادہ تر کسی قدرتی کرشمے کا انتظار کرتا رہتا ہے یا کسی خاص وقت پر زندگی بدلنے کی ٹھان لیتا ہے،یہ سوچ اُس کے وہم و خیال سے آگے نہیں بڑھ پاتی اور وہ دھرے کا دھرا رہ جاتا ہے۔ظاہر ہے کہ زندگی میں بہتری لانے کے لئےانسان کو سب سے پہلے خود اپنے اندر انقلاب لانے کی ضرورت ہےاور جو انسان عزم و استقلال اور دور اندیشی کے ساتھ آگے بڑھنے کی کوشش کرتا ہے، وہی کامیاب و کامران ہوتا ہے۔
در حقیقت جو انسان اپنے آپ پر قابو رکھے ، اپنے وقت کا صحیح استعمال کرے اور مشکل حالات کو عبور کرتارہے تو وہ دوسروں کی مدد کے بغیر بھی بہت کچھ کرسکتا ہے، اپنے اندر پوشیدہ طاقتوں سے کام لے کر محدود مواقع میں اپنی زندگی کو استوار کرسکتا ہے ۔محض دل میں پیدا ہونے والی تمنائوں کی بنیاد پر زندگی کو معلق نہیں رکھاجاسکتااورنہ اس طرح کی تمنائوں سے کوئی فائدہ پہنچتاہے۔اس لئے بہتریہی ہے کہ ہم وقتاً فوقتاً اپنے آپ کی تنظیم ِنو کرتے رہیں اور اپنے تمام پہلوئوں پر تنقیدی نگاہ ڈالتے رہیں تاکہ ہم اپنے نقائص و عیوب سے آگاہ رہ کر اُن سے بچنے کے لئے حکمت ِ عملی بنائیں۔کیونکہ ہر انسان سب سے زیادہ ضرورت مند اس کا ہے کہ وہ اپنی زندگی کی کامیابیوں اور ناکامیوں پر نظر ثانی کرتا رہے اور اپناتوازن و اعتدال برقرار رکھے،اگر ہم نے نفس کو اپنے حال پر چھوڑ دیا اور خواب و خیالوں میں بھٹکتے رہے تو ہمیشہ منتشر ہی رہیں گے۔اس لئے ضروری ہے کہ نفس کی تنظیم اور اس کی نگرانی کا عمل جاری رہے۔اللہ تعالیٰ ہر صبح سے ہر انسان کو یہ شوق دلاتا ہے کہ وہ ہر آنے والے دن کے ساتھ اپنی زندگی کی تجدید ِنو کرے،آرام کے ساتھ گذرنے والے کل کی تھکن سے نجات پائے اور نئے دن کے استقبال کی تیاری کرنے کے فیصلہ کُن لمحات میں غور کرے کہ اُس نے اب تک کتنے مصائب جھیلے، کتنی ٹھوکریں کھائیں ،کتنی خود غرضی کا شکار ہوا،کتنی ذلیل کاموں میں ملوث ہوا اور کس قدر پراگندگی سے لت پت ہوا ،تو انہی بیداری کے لمحات میںاپنی خامیوں اور خرابیوں کی خود اصلاح کرنے کا فیصلہ لے کر وہ توفیق ِ الٰہی اور اُمیدو یقین کے ساتھ اپنی زندگی کی تجدید ِ نو کرسکتا ہے ۔چنانچہ انسان کی کہانی ہمیں بتاتی ہے کہ اللہ تعالیٰ نے اُسے عزت بخشنے کے لئے پیدا کیا ہے نہ کہ ذلیل کرنے کے لئے،اُسے دنیا کی سربراہی کے لئے تخلیق کیا ہے نہ کہ اُس کا مرتبہ گھٹانے کے لئے۔جبکہ دین کا کام یہی ہے کہ وہ لوگوں کے باہمی تعلقات و معاملات کو حق و انصاف کی بنیاد پر منظم کرے تاکہ وہ اس دنیا میں ایسی زندگی گزاریں جس میں ظلم و جہالت نہ ہو ۔گویا اللہ تعالیٰ نے تمام انسانوں کے لئے بس آسانی ،عزت اور سر بلندی چاہی لیکن انسان نے اللہ کی ہدایتوں کے مطابق چلنے سے انکار کیا،نفسانی خواہشات نے انہیں ہر پستی میں گرا دیا اور دنیا کے خطے اُن کے باہمی مظالم اور نفرتوں سے بھر گئے لیکن اس گمراہی کے باوجود اللہ تعالیٰ ہر انسان کی توبہ اور واپسی پر جتنا خوش ہوتا ہے ،اُسے بیان نہیں کیا جاسکتا ۔لیکن اس کا یہ مطلب نہیں کہ ہم بُرے اخلاق اور مذموم عادات کے ڈھیر میں ایک آدھ نیک نیتی یا نیکی داخل کردیں اور بس۔اس طرح کی ملاوٹ سے ہمارا مستقبل قابل تعریف ہوسکتا اور نہ ہمارا طرز عمل۔جبکہ اصل تقاضا یہ ہے کہ ہم خود اپنی اصلاح کرکے اپنے آپ کو نئی زندگی دیں ،اپنی زندگی از سر نو منظم کریں،سنبھل کر اپنے پر ور دِگار کے ساتھ بہتر تعلق قائم کریں،حرام کردہ روزی سے بچتے رہیں،رشک و حسد میں نہ پڑیںاور ہر کسی کے ساتھ نیکی اور احسان کرتے رہیںاور اپنے خالق کا بندہ ہونےکے عہد اور وعدے کے پابند رہیں۔یہی اصلاح ہمیں مصلح بنائے گی اورہمیں زندگی کی تجدیدنَوکرنے کے قابل بنائے گی۔