عابد کبرویؔ
’’ اگر معمار پہلی اینٹ غلط اور ٹیڑھی رکھ دے تو دیوار کو بلندی تک ٹیڑھا ہونے سے کیسے روکا جا سکے گا۔‘‘
اولاد ایک بہت بڑی نعمت ہے بشرطیکہ وہ نیک ہو۔ اسی لیے اللہ تعالیٰ کے برگزیدہ انبیائِ کرام نے بھی اللہ تعالیٰ سے اس عظیم نعمت کی خواہش کی۔ اولاد ہی وہ نعمت ہے جو والدین کے لیے خوشی کا باعث ہے۔ یہ ایسی نعمت ہے جس کے سامنے دنیا کے تمام مال و اسباب بے قیمت ہے۔ تمام دنیا کے مال کو خرچ کر کے بھی اولاد جیسی نعمت نہیں خریدی جا سکتی۔ اس نعمت کی قدر ان سے پوچھو جو لوگ اولاد جیسی نعمت سے محروم ہیں اور وہ اس نعمت کو پانے کے لئے بے بہا پیسہ لٹا چکے ہیں۔اولاد کی تربیت صالح ہو تو ایک نعمت ہے ورنہ یہ ایک فتنہ اور وبال جان بن جاتی ہے۔اگر کسی بندے کی ایسی اولاد ہے جو نیک اور صالح ہے تو یہ نیک اولاد بھی انسان کو برزخ اور آخرت کی منازل میں کامیابی عطا کرنے کا ذریعہ بنتی ہے۔
بچوں کی تربیت میں سب سے زیادہ والدین کا کردار ہے۔ ایک معصوم بچّے کے لیے اس کی پہلی درسگاہ اس کے والدین ہوتے ہیں۔ ماں کی گود بچے کی پہلی تربیت گاہ ہوتی ہے۔ اسی تربیت پر بچّے کی شخصیت پروان چڑتی ہے۔ جس قدر عمارت کی بنیاد مضبوط ہوتی ہے اسی قدر عمارت مضبوط و مستحکم ہوتی ہے اور اگر بنیاد کمزور ہو تو عمارت کمزور ہی رہے گی۔ یہ بات بالکل درست ہے کہ اگر ماں خود تربیت یافتہ ہو تو وہ وپنی اولاد کی تعلیم و تربیت کا کام خوبصورت انداز سے سرِ انجام دے سکتی ہے۔ بچّہ اپنے ارد گرد جو سنتا ہے ، دیکھتا ہے، اس سے اپنا کر وہ ایک خاکہ اپنے ذہن میں تیار کرتا ہے ۔ بچہ اگر اپنے والدین سے بدکاری کا سبق سیکھے تو جب وہ قوتِ لسانی کے درجہ پر فائز ہوتا ہے، پہلے وہی الفاظ اپنی زبان سے ظاہر کرتا ہے جو اس نے اپنے والدین سے سیکھے ہوتے ہیں۔ بچّہ اگرچہ لڑکپن میں بے گناہ اور تابندہ نظر آتا ہے مگر گھر والوں کی غیر شرعی تربیت سے یہ اندھیرے کنویں میں جا کر پھنس جاتا ہے۔ ساتھ ساتھ جب یہ مروجہ تعلیم پانے کے لیے اسکول کا رُخ کرتا ہے تو وہاں جب ایک قابلِ قدر استاد اس کے ہاں اخلاقی درس دینا شروع کر دیتا ہے تو اس وقت بچّے کو اپنی والدہ محترمہ اور اس کے والد صاحب کی باتیں یاد آتی ہے اور وہ سوچنے پر مجبور ہوتا ہے کہ شاید یہ استاد فضول کی باتیں میرے سامنے پیش کر رہا ہے۔آخر کار ماضی کے ہاتھوں کے پیشِ نظر ایک خوش گوار ماحول کو پا کر بھی اسے ناکامیوں کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔بقولِ علامہ اقبال:
جوانوں کو مری آہِ سحر دے
پھر ان شاہین بچوں کو بال و پر دے
خدایا میری آرزو یہی ہے
میر ا نورِ بصیرت عام کر دے
اولاد کی اچھی تربیت اس قدر اہم ہے کہ اللہ تعالیٰ نے اس کے بارے میں فرمایا، ’’ اے ایمان والو! اپنے آپ کو اور اپنے اہل و عیال کو دوزخ کی آگ سے بچائو ‘‘۔لہٰذا والدین کا فرض ہے کہ بچّوں کے سامنے حسنِ اخلاق کا نمونہ پیش کریں تاکہ ان کی اولاد عمدہ اخلاق کی حامل ہو۔ اگر والدین چاہتے ہیں کہ ان کی اولاد تابعدار ہو تو پھر وہ ان کی دینی نہج پر تربیت کریں۔ انھیں عزت عطا کریں کیونکہ ہمارے پیارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے بڑوں کے علاوہ بچوں کی بھی عزت کرنے کی طرف رہنمائی فرمائی۔ جو اپنی اولاد کی عزت نہیں کرتا کل ان کی اولاد بھی کسی کی عزت نہیں کریں گی۔ آج کل ہمارے پاس بہت کچھ ہیں لیکن اخلاق کا فقدان ہیں ۔ حلال و حرام اور نیک و بد کی تمیز مٹتی جا رہی ہے ۔ رشوت خوری ، بے حیائی اور بے شرمی عروج پر ہے۔ بچّے اور نوجوان روگردانی کی طرف اپنے قدم بڑھا رہے ہیں۔ مذہبی اصولوں سے دوری اور بے گانگی سے بلند انسانی اقدار پامال ہو رہے ہیں ۔ مفادِ خصوصی رکھنے والے عناصر بچوں کو بغاوت کا درس دینے کے لیے مختلف طریقے اپنا تے ہیں ۔ بغاوت کے یہ جراثیم بچّوں کو خود سر، خود پسند اور بے لگام بنا دیتے ہیں۔ اس طرح پورا معاشرہ ہی تباہ و برباد ہو رہا ہے۔
یہ صرف ایک استاد اور ساتھ ساتھ بچوں کے والدین ہی ہیں جو سماج کو اس بھنور سے نکال سکتے ہیں ۔ صحت مند سماج کی تعمیر و تربیت کے لیے اساتذہ کا یہ فرضِ منصبی بنتا ہے کہ اخلاقی تعلیم و تربیت پر زیادہ توجہ مبذول کریں۔ بچوں کی اچھی تربیت سے ایک مثالی معاشرہ وجود میں آتا ہے اس لیے کہ ایک اچھا پودا ہی مستقبل میں تناور درخت بن سکتا ہے۔ ماہرینِ تعلیم کے بقول استاد کا کردار ایک اچھے مالی کی طرح ہے جس طرح باغ میں پودوں کی مناسب افزائش مالی کی بھرپور توجہ کے بغیر نہیں ہو سکتی اسی طرح بچوں کی تعلیم و تربیت بھی معلم کی بھر پورتوجہ کے بغیر نہیں ہو سکتی۔
سبق پڑھ کر پڑھا دینا ہنر ہے عام لوگوں کا
جو دل سے دل جلاتا ہے اُسے استاد کہتے ہیں
بزرگوں کا ارشاد ہے کہ’’ ماں باپ ذریعہ بنتے ہیں اولاد کو عرش سے فرش پر لانے کا اور استاد تربیت کر کے ان بچّوں کو فرش سے عرش تک پہنچاتا ہے۔‘‘ اساتذہ کرام اپنی حیثیت پہچانتے ہوئے اس بات کا خیال رکھیں کہ آپ کا مقام یہ ہے کہ آپ اپنے شاگردوں کو فرش سے عرش تک پہنچاتے ہیں۔ لہٰذاآپ کو ہر مرحلے پر بہت ہی زیادہ خیال رکھنا چاہیے کہ میرا کوئی فعل و عمل شاگردوں کے لئے بُرا نمونہ نہ بن جائے۔
امام ابو یوسف ؒ کا قول ہے کہ اپنے شاگردوں کے ساتھ ایسے خلوص اور محبت سے پیش آوکہ دوسرا دیکھے تو سمجھے یہ تمہاری اولاد ہیں۔تعلیمی ادارہ جات بھی بچوں کی عقل و شعور کی نشو و نما اور مستقبل کی جہتوں کا تعین کرنے میں اہم کردار ادا کریں تاکہ وہ آنے والے کل سے روشناس اور زمانے کی مشکلات سے نبرد آزما ہونے کے لئے تیار ہو سکے۔ بچّوں کے لئے تعلیمی ادارہ ایک ایسی منطقی جگہ ہے جہاں انہیں بہتر طرزِ عمل اختیار کرنے کی ترغیب دی جاتی ہے، انسانی حقوق و فرائض کا احترام سکھایا جاتا ہے ۔ تعلیمی ادارہ جات میں اساتذہ بچوں کو نہ صرف تعلیم دیں بلکہ ان کی ذہنی ، جسمانی اور اخلاقی نشو و نما میں بھی اہم کردار ادا کریں تاکہ اس کی بنا پر وہ اپنے فیصلے اور مسائل خود حل کرنے کے قابل ہو جائیں۔ استاد کا فرض ہے کہ وہ طلبا کو معلومات فراہم کرنے کے ساتھ ان کی ذہنی پختگی اور بلندِ کردار کے لئے شائستہ طرزِ تکلم کا پیکر بنے تاکہ وہ اس کے نقشِ قدم پر چلتے ہوئے اپنے آپ کو اعلیٰ اخلاق کا نمونہ بنا سکیں۔استاد کا فرض ہے کہ وہ طلبا کے ایمان و اعتماد کو مضبوط کرنے کے لئے انہیں لسانی اختلافات اور قومیتوں کے تعصّبات سے بچائے۔ ان کے ذہنوں میں پاکیزہ اور اصلاحی خیالات و جذبات پیدا کرے تاکہ وہ دنیاوی زندگی میں نیک اعمال کر کے آخرت میں سرخ روئی حاصل کر سکیں ۔
لہٰذا اس پُر فتن دور میں اساتذہ صاحبان اور والدین اپنے نو نہالوں کی ابتدا ہی سے اس طریقے سے تربیت کریں کہ وہ معاشرے کے بہترین افراد ثابت ہو اور ہمارے لئے صدقہ جاریہ بن سکے ۔ اگر ہم نے اس فریضہ میں کوتاہی کی اور ہماری کاہلی کی وجہ سے بچوں میں جتنی بری خصلتیں پیدا ہو جائیں تو ہم بھی ان کے جرم میں برابر کے شریک ہوں گے۔ اللہ رب العزت ہمیں اپنی اولاد اور نئی نسلوں کو اسلامی تعلیمات سے بہر یاب کرنے، ان کی علمی، فکری، اخلاقی اور روحانی تربیت کرنے اورانہیںدین و دنیا کی ہر جہت سے با ادب بنانے کی توفیق عطا فرمائے۔آمین
رابطہ۔ڈورو شاہ آباد اننت ناگ
رابطہ۔6006795215