سید مصطفیٰ احمد ، بڈگام
اپنی ذات کو ہر گزرتے دن کے ساتھ نکھارنا زندگی کے بنیادی مقاصد میں ایک ہے۔ یہ ایک حقیقت ہے کہ انسان کی زندگی نار اور نور کے دو متضاد چہروں کا نام ہیں۔ اب کون نار اور کون نور ہے اس کا فیصلہ انسان کے ہاتھ میں ہی ہے۔ اس کے لئے مشاہدہ کے علاوہ بصارت اور بصیرت کی بھی نہایت ضرورت ہے۔ باہری ساخت سے ہم کسی بھی انسان کے بارے میں حتمی فیصلہ نہیں لے سکتے ۔ اس کو اس مثال سے سمجھا جاسکتا ہے کہ کوئلے کی کان سے ایک تجربہ کار آدمی اپنی قابلیت اور بصیرت کی بدولت ایک ہی آن میں ہیروں کی پہچان کرتا ہے۔ لوگ اپنے دانتوں تلے انگلیاں دبانے پر مجبور ہوجاتے ہیں کہ ہم بھی تو آنکھوں اور کانوں کی نعمتوں سے مالا مال ہیں، لیکن ہم اس حالت میں کیوں نہیں کہ چیزوں کی گہرائی میں اُتر کر دیکھیں۔ اصل میں ہیرےکی پہچان کرنے والے شخص نے اپنے کام کو اس حد تک نکھارا ہوتا ہے کہ اس کے لئے ایک جیسے دِکھنے والے کوئلے اور ہیرے کے درمیان فرق کرنا آسان ہوجاتا ہے۔ جیسے کہ مضمون کی ابتداء میں اس بات کی طرف اشارہ کر دیا گیا ہے کہ ایک انسان آگ ہونے کے علاوہ نور بھی ہے۔ اشاروں اور کنائیوں میں کئی گئی بات کا معنی بڑی گہرائی کا حامل ہے۔ انسان آگ ان معنوں میں ہے کہ وہ خود کے علاوہ اپنے خالق کی پہچان کرنے سے قاصر ہے۔ انسان اپنے اندر دیکھنے کے بجانے باہری چیزوں کے پیچھے دوڑتا رہے۔ ایک کہانی مجھے یاد آرہی ہے۔ اس کہانی میں لکھنے والا لکھتا ہے کہ انسان کو بنانے کے بعد Lord انسان سے گھبرا گیا۔ اس نے سب سےانسان سے بچنے کے لئے تجویز مانگی۔ بہتوں نے بہت ساری تجویزیں دیں لیکن Lord ان کی بات سے متاثر نہیں ہوا۔ آخر پر Lord نے ایک ترکیب سوجھی۔ اس نے سوچا کیوں نہ انسان کے اندر ہی چھپا جائے کیونکہ دنیا میں انسان مجھے ڈھونڈ ہی نکالے گا۔ پہاڑوں کی چوٹیوں پر بھی وہ مجھے کھوجنے آئے گا۔ اس لئے میں اس کے اندر ہی چھپ جاتا ہوں تاکہ وہ مجھے باہر کہیں ڈھونڈ نہ سکے۔ دنیا کی چیزوں کو ڈھونڈتے ڈھونڈتے اس کے ذہن میں کبھی بھی یہ خیال نہیں آئے گا کہ میرے اندر بھی کوئی بڑی ہستی چھپی بیٹھی ہے۔ اس کہانی کا تعلق براہ راست مضمون کے ساتھ ہے۔ جب اپنے اندر جھانکنے کے بجائے باہری دنیا کی چیزوں پر ساری نظریں مرکوز ہوجاتی ہیں تب انسان آگ کی شکل اختیار کرتا ہے۔ بظاہر نہ دِکھنے والی آگ اپنے اندر ایسی تپش چھپائے بیٹھی ہے کہ پہاڑوں کو تباہ کرنے کا مادہ اپنے اندر سموئے ہوئے ہے۔ اس کے برعکس جس نے اپنے اندر چھپے بیٹھے Lord کو دیکھنے کی کوششیں جاری و ساری رکھیں تو ایسا انسان علم اور آگاہی کی معراج کو پہنچ جاتا ہے اور یہ انسان نور کی طرح مادیت اور گمراہی کی آگ کو بجھا دیتا ہے۔ اس حقیقی نور سے چار سو روشنی پھیلتی ہے اور جہالت اور انا پرستی کے مختلف اندھیرے زائل ہوجاتے ہیں۔
اس کے علاوہ اگر بغور جائزہ لیا جائے تو آگ اور نور کاملاپ انسان کے خصائل میں ہے، جس کی حیثیت ایک حباب کی سی بھی ہے۔ اپنے آپ کو نکھارنے کے لئے اتنا کم وقت موجود ہے کہ ہر عمل کرنے کے باوجود بھی ہر عمل نامکمل سا لگتا ہے۔ دنیا میں ایک انسان کی عمر بہت کم ہے۔ آگ بننے کے لئے ایک انسان کے پاس بہت کام سال ہیں جن کو انگلیوں پر آرام سے گنا جاسکتا ہے۔ دوسرے الفاظ میں الوہیت اور روحانیت سے ہٹ کر گندی روح بننے کے لئے ایک انسان کے پاس بہت کم وقت بچا ہوا ہے۔ اسی طرح نیکیاں انجام دینے کے لئے بھی ہمارے پاس اتنا وقت ہے ہی نہیں کہ انسان ٹال مٹول کرنے کی حماقت کرے۔ جو سانس ہمارے نتھنوں سے باہر جاتی ہے اس کا واپس اندر لانا ہمارے بس کی بات نہیں ہے۔ کہنے کا مطلب ہے کہ ایک سیکنڈ میں بھی ہم کسی بھی وقت اس پتھریلی زمین سے اُتر کر موت کے شکنجوں منہ میں چلے جاسکتے ہیں۔ جب ہماری حالت ایسی ہے تو پھر اپنے آپ کو ہر آن سنوارنا کتنا ضروری ہے۔کیسے انسان ٹال مٹول کرنے کی حماقتیں کرسکتا ہے، جس کی وجہ سے آگ کی ہولناکیاں اس کو ہر طرف سے گھیر سکتی ہے۔ اصل میں دو پل جیون سے ہی اک عمر چرانی ہے اور ہر غم کو چاندنی کی شکل دینی ہے۔ ’’کبھی ہنسنا ہے کبھی رونا ہے جیون سکھ دکھ کا سنگم ہے‘‘کےمصداق ہمیں سکھ دکھ کے ملے جلے تاثرات سے روح کی پاکیزگی کا انتظام کرنا ہے۔ زندگی پَت جھڑ ہے، ساون ہے اور کبھی آتا جاتا موسم بھی ہے۔ ان موسموں میں ہمیں اپنی اندرونی دنیا میں بھی روشنی کے پتے اُگانے ہیں اور جہالت اور بغض کے پتوں کو آگ لگاتے رہنا ہے۔ اس کے علاوہ پت جھڑ اور ساون کے بیچ میں پائے جانے والے کچھ لمحات کا بھرپور فائدہ اٹھا کر ہمیں حباب کی سی ہستی کو پائیداری مہیا کرنی ہے۔
اب جو سوال ذہن میں گردش کررہا ہے وہ یہ ہے کہ ایک انسان نور کیسے بن جائے یا ہوجائے۔ یہاں پر میں نور کی تشبیہ پانی سے کرنےکی بے ادبی کرنے جارہا ہوں۔ اپنی بات کو میں اس طرح بڑی آسانی سے بول سکتا ہوں۔ آگ کی تپش کو کم یا ختم کرنے کے علاوہ راستے میں پڑی رکاوٹوں سے بنا لڑتے ہوئے کیسے پانی اپنی راہ بنالیتا ہے، اسکے اندر ہمارے لئے سب سے بڑا سبق پنہاں ہے۔اگر اس پانی کی مثال سے بھی بات پوری نہیں ہوپاتی ہے تو ہمیں پھر کیا کرنا چاہیے تاکہ نور ہمارا اٹھنا بیٹھنا ہوجائے۔ ایسا کیا کرنا چاہیے جس سے ناپائیدار ہستی میں تھوڑا سا سدھار، مضبوطی اور حقیقی نکھار پیدا ہو۔ پانی کا بلبلہ کب تک اپنی چمکتی ہوئی ساخت کے ساتھ لوگوں کے درمیان اپنی پہچان برقرار رکھے گا، یہ آنے والا وقت ہی بتا سکے گا لیکن جب تک سانسیں چلتی ہیں تب تک جدوجہد کرتے رہنا نہایت ضروری ہے۔ وقت اور صحت دو ایسی نعمتیں ہیں جن کا متبادل ڈھونڈنا بہت مشکل ہیں اور ان ہی دو نعمتوں سے خار دار جھاڑیوں اور وادیوں سے نکل کر مس خام کو کندن بنایا جاسکتا ہے۔ کبھی وقتی سب زخموں کا مرہم ہےں تو کبھی وقت غموں کو بھلانے کا سبب۔ جو بھی بات ہو وقت ہی ایسا پیمانہ ہے جس سے مضبوطی، ناپائیداری، خاکی، عرشی، وغیرہ جیسے چیزوں کا تعین کیا جاتا ہے۔ سیپی میں بن رہے موتی پر کیا گزرتی ہے اس کا فیصلہ وقت اور صبر کرتا ہے۔اس کے علاوہ وقت ہی ایسی شئے ہے جس کا بروقت استعمال کرکے علم و حکمت کی آخری سیڑھی چڑھ کر ایسا مقام حاصل کیا جاسکتا ہے جو دنیا و مافیہا سے پرے ایک ایسی دنیا میں پایا جاتا ہے، جہاں قلب سکون کے علاوہ نورانی بصیرت اور بلاغت و فصاحت کے چشمے پھوٹتے ہیں۔ اس کے علاوہ صحت ایسی اعلیٰ نعمت ہے کہ جس کی بدولت ایک انسان اعلیٰ منازل طے کرنے میں کبھی بھی پیچھے نہیں رہ سکتا ہے اور اپنی حیثیت کو ہر گزرتے دن کے ساتھ روحانیت کے مختلف مراحل سے گزار سکتاہے ۔ صحت مند انسان ٹوٹی ہوئی امیدوں کو پھر سے حوصلہ اور جلا بخشتا ہے۔ ایک حقیقی صحت مند انسان رات کی تنہائی میں اپنے آپ سے ہمکلام ہوکر ندامت کے دو آنسوؤں گرا کر اپنی خاکی ہستی کو مضبوط اور ٹھوس بنا دیتا ہے اور اس کارخان دنیا سے قلبی سکون کے ساتھ رخصت ہوکر ایک نکھرے ہوئے ہیرے کی طرح اپنی قیمت کو آسمان تک لے جاتا ہے۔ اس کے علاوہ جو چیز سب سے زیادہ ضروری ہے جس سے زندگی میں نکھار آنے کے مواقع زیادہ ہیں، وہ یہ ہے کہ ایک انسان کسی اور سے پوچھنے کے بجائے خود سے پوچھے کہ میں کہاں کھڑا ہوں، میں نے آج تک کیا حاصل کیا ہے، اتنے دنوں تک اس دنیا پر رہ کر میں نے اپنے اندر کون کون سی تبدیلیاں لائیں تاکہ میں اس حالت میںر ہوں کہ میرا دل چین کی سانسیں لے سکیں۔
دوسروں سے حاصل کیا ہوا نکھار دراصل پھیکا نکھار ہے۔ دوسروں سے لیا ہوا علم اور روحانیت دونوں گھاٹے کے سودا ہیں۔ اپنا نکھار کیوں نہ پھیکا ہی ہو، دوسرے کے چمکنے والے نکھار سے لاکھ درجہ بہتر ہے۔ اپنی اندر کی آواز کو ہی اپنا امام بنانا ہے، اپنے اندر چھپی ہوئی ہستی سے ہی پوچھنا ہے کہ کیا کرنا چاہیے اور کیا نہیںاور دیر کرنے سے بہتر ہے کہ ہوش کے ناخن لیتے ہوئے ہم اپنے اندر حقیقی نکھار لانے کی فکر میں لگ جائیں۔ کسی الفاظ یا جملے سے کسی کی دل آزاری ہوئی ہو، اس کے لئے میں معذرت خواہ ہوں۔ نار اور نور کی اس کشمکش میں زہر کے پہاڑ کھانے کے علاوہ اندھیروں سے روشنی حاصل کرنی پڑتی ہے تب جاکر حسن اپنے شباب پر پہنچ جاتا ہے۔ اس راہ میں لوگ ملتے ہیں مگر لوگ نہیں ملتے، یہ عشق اتنا آسان نہیں ہے، اس راہ میں آگ کی تھپیڑے روح کو چھلنی کردیتے ہیں اور آہ کبھی فغاں میں تبدیل ہوجاتی ہے۔امید ہے کہ نکھار کے خاطر لکھے گئے اس مضمون سے کسی کی زدگی میں کچھ نکھار آجائے۔
(رابطہ۔7006031540)
[email protected]