یو این آئی
نئی دہلی// راجیہ سبھا میں اپوزیشن لیڈر ملک ارجن کھڑگے نے پیر کو کہا کہ صدرجمہوریہ کا خطاب حکومت کا ویژن پیپر ہوتا ہے، لیکن اس میں ایسا کچھ نہیں ہے ۔کھڑگے نے ایوان میں صدرجمہوریہ دروپدی مرمو کے خطاب پر شکریہ کی تحریک پر اپنے خطاب میں کہا کہ گزشتہ 10 برسوں میں ہمہ گیرمسائل کو نظر انداز کیا گیا ہے اور اس بار نعرہ دیا گیا اب کی بار 400 پار۔ جب آئین کو بدلنے کی بات کی جانے لگی، تب انڈیا گروپ نے آئین بچانے کی مہم شروع کی۔ آئین ہو گا تو جمہوریت ہو گی اور الیکشن بھی ہوگا۔ لوگوں خصوصاً غریبوں، نوجوانوں اور خواتین نے یہ محسوس کیا کہ جمہوریت اور آئین کو بچانا ہے، اسی لیے 400 پار نہیں، 200 پارپر روک دیا۔انہوں نے کہا کہ پارلیمنٹ کے احاطے میں مختلف جگہوں پر عظیم شخصیات کے مجسمے نصب تھے جنہیں اب ایک ہی کونے میں نصب کر دیا گیا ہے۔ ان مجسموں کو پارلیمنٹ کے احاطے میں نصب کرنے کی روایت رہی ہے اور اس کے لیے کمیٹی طے کرتی تھی کہ کون سا مجسمہ کہاں نصب کیا جائے گا، اس لیے درخواست ہے کہ ان تمام مجسموں کو پرانی جگہوں پر نصب کیا جائے۔اس پر چیئرمین جگدیپ دھنکھڑ نے کہا کہ لوک سبھا اسپیکر نے انہیں پریرنا استھل کے افتتاح کے لیے مدعو کیا تھا اور انہوں نے اس کی نقاب کشائی کی ہے۔ وہاں تمام ممبرز کو جا کر دیکھنا چاہیے۔ تمام مجسمے ایک ہی جگہ پر نصب ہیں۔اس دوران پارلیمانی امور کے وزیر مملکت کرن رجیجو نے کہا کہ اپوزیشن لیڈر نے ایک سنگین مسئلہ اٹھایا ہے۔ پارلیمنٹ ہاؤس میں کسی مجسمے کو کسی کونے میں نصب نہیں کیاگیا ہے بلکہ یہ پارلیمنٹ ہاؤس سرکیولر ہے اور اس میں کوئی بھی گوشہ پیچھے نہیں ہے۔ تمام مجسموں کو ایک ہی جگہ پر نصب کیا گیا ہے تاکہ لوگوں کو ان کو دیکھنے میں آسانی ہو۔اس پر کھڑگے نے کہا کہ یہ مجسمے ان کے دفتر کے سامنے لگائے گئے ہیں۔ ان کے گھر میں بابائے قوم اور ڈاکٹر بھیم راؤ امبیڈکر کے مجسمے ہیں اور وہ صبح ان کو دیکھتے ہیں۔انہوں نے کہا کہ گزشتہ 10 برسوں میں اس حکومت نے صرف نعرے ہی دیے ہیں۔منی پور ایک سال سے جل رہا ہے، وزیراعظم وہاں دیکھنے بھی نہیں گئے۔ غریبوں کو تباہ کردیا گیا ہے، اس لیے اس بار غریب، نوجوان اور خواتین نے روک دیا۔کھڑگے نے کہا کہ عام انتخابات کے دوران دیہی علاقوں میں زیادہ ووٹنگ ہوئی، جب کہ شہری علاقوں میں کم۔ استحصال زدہ، مظلوم، غریب اور خواتین نے جمہوریت کو بچانے کا بہت بڑا کام کیا اور انڈیا گروپ کا ساتھ دیا۔
سماجی انصاف کی سوچ رکھنے والے لوگ اب بھی موجود ہیں۔