ڈاکٹر فیاض مقبول فاضلى
پیشہ ورانہ بھیک مانگنا ایک پیچیدہ اور منظم نیٹ ورک ہے جو دنیا بھر میں مختلف معاشرتی، اقتصادی اور سیاسی مسائل کی عکاسی کرتا ہے۔ اس مضمون میں ہم اس نیٹ ورک کی تفصیلات، اس کے پیچھے موجود عوامل اور اس کے سماجی و اقتصادی اثرات پر غور کریں گے۔کئی سال سے میں نے کئی بھکاریوں کو ایک نامعلوم مسجد سے تصدیق شدہ ڈاکٹر کے سالہا سال حیدر پورہ فلائی اوور چوک کے قریب پُرانے نسخے کے ساتھ پیسے جمع کرتے ہوئے بھیک مانگتے دیکھا ہے۔ ان میں کچھ ایسے بچے بھی ہیں جنہیں میں نے پیپسی پیتے اور آلو کے چپس کھاتے ہوئے دیکھا۔کچھ دن پہلےمیں مسجد میں جمعہ کی نماز کی ادائیگی کیلئے داخل ہو ا ، نما زکے اختتام پرمسنون ذکر اذکا ر میں مصروف تھا کہ غم میں ڈوبی ہوئی ایک آواز نے مجھے اپنی طرف متوجہ کرلیا ، جہاں ایک آدمی غم والم کی تصویر بنا تمام لوگوں کی توجہ کا مرکز بنا ہوا تھا اور لوگوں کی نظریں اُس کے لاغر اور کمزور حلیے اور میلے کچیلے لبا س پر مرکوز تھیں، جس نے اپنے پاؤں پر پٹیاں بھی باندھی ہوئی تھیں اور اس نے کچھ اِن الفاظ میں لوگوں کو مخاطب کیا: ’’میرے اسلامی بھائیو ! میرا تعلق ایک نہایت غریب گھرانے سے ہے اور ہم لوگ بہت مفلسی کی زندگی کے دن کاٹ رہے ہیں جبکہ ان حالات کے ساتھ ساتھ میری ماں گردے کی مریضہ ہیں، جن کے دونوں گردے فیل ہو چکے ہیں جنہیں ہر ماہ میں تین چار دفعہ ڈائیلاسز کے عمل سے گزرنا پڑتا ہے جو کہ بیش قیمت علاج ہے۔ اس کے علاوہ میں خود بھی مریض ہوں، میرے پاؤں پر چھالے پڑے ہوئے ہیں او رانفیکشن کی وجہ سے چلنا بھی مشکل ہو رہا ہے ۔آپ دیکھ سکتے ہیں کہ ابھی بھی میرے پاؤں پر پٹیاں بندھی ہوئی ہیں، لہٰذا میں آپ تمام بھائیوں سے گزارش کرتا ہوں کہ میرے ساتھ حسب ِتوفیق تعاون کردیں تاکہ میں آپکے پیسوں سے اپنااور اپنی ماں کا علاج کروا سکوں ۔دوسرا واقعہ ،ایک نوجوان عو رت پردہ کئے گاڑی میں سوار ہوتے ہی لوگوں کے سامنے رونا دھونا شروع ہوگئی کہ میرے شوہر فوت ہوچکے ہیں اور چھوٹے چھوٹے بچے گھرمیں بہت بھوکے ہیں ،میں آپ لوگوں کے سامنے ہاتھ پھیلا کر التجا کر رہی ہوں کہ آپ میرے بچوں کو کھانا دلا کر ان کو بھوکوں مرنے سے بچا لیں۔
پیشہ ورانہ بھیک مانگنے کی تعریف:
پیشہ ورانہ بھیک مانگنا ایک ایسی سرگرمی ہے جہاں افراد یا گروہ منظم طریقے سے بھیک مانگنے کا کام کرتے ہیں۔ یہ نیٹ ورک ایک منظم کاروبار کی طرح کام کرتا ہے، جہاں بھکاری مختلف مقامات پر بٹھائے جاتے ہیں اور ان کی نگرانی کی جاتی ہے۔ یہ باتیں کوئی نئی نہیں ہیںکہ جب آپ گاڑیوں میں سفر کرتے ہیں تو آپ کو ان لوگوں کی کثیر تعداد سے واسطہ پڑتا ہے ،اِسی طرح فٹ پاتھوں پر ، مسجدوں اور بازاروںمیں بھی یہ لوگ موجود ہوتے ہیں۔ لیکن آئیے دیکھتے ہیں کہ مذکورہ بالا دونوں واقعات کی حقیقت کیا تھی؟
جہاں تک پہلے واقعے کا تعلق ہے تو جب لوگوں نے اس کو پیسے دے دیئے تو ان نمازیوں میں سے ایک آدمی اس مانگنے والے کو جانتا تھا کہ یہ عادی بھکاری ہے ،ضرورت مند نہیں ہے اور مزید تحقیق کیلئے جب اُس کے پاؤں سے پٹیاں کھولی گئیں تو لوگوں کی آنکھیں کھلی کی کھلی رہ گئیں کیونکہ اس کے پاؤں صحیح سلامت تھے جبکہ اس کے پاس اس وقت تقریباً 2000روپے جمع ہو چکے تھے جو اس نے حیلے بہانے کر کے لوگوں سے بٹور لیے تھےاور یہ بھی معلو م ہو اکہ اس کی والدہ کے ڈائیلاسز وغیر ہ کی کہا نی بھی جھوٹ پر مبنی تھی اور جہاں تک دوسرے واقعے کا تعلق ہے تو وہاں کچھ لوگوں نے اس بات کی تصدیق کر دی کہ یہ عورت پیشہ ور بھکارن ہے، جس کی ضرورت کبھی پوری نہیں ہوتی۔ اگر اس طرح کے واقعا ت پر غور کیاجائے تو مختلف پہلو زیر بحث آتے ہیں ۔سب سے پہلے تو یہ بات کہ بھیک مانگنا کسی بھی طرح سے اسلام کا پسندیدہ عمل نہیں ہے ، جولوگ اس عمل کو محض عادت کے طور پر اپنائے ہوئے ہیں اُن کو یہ بات اچھی طرح معلوم ہونی چاہئے کہ رسول اللہؐ نے فرمایا:’’لوگوں کے سامنے ہاتھ پھیلانے والا روز قیامت ایسی حالت میں آئے گا کہ اُس چہرے پر گوشت نہیں ہوگا بلکہ صرف خراشوں کے واضح نشانات ہوں گے۔‘‘(نسائی ۔کتاب الزکوٰۃ)اس لیے ان لوگوں کو ہوش کے ناخن لینے چاہئیںاور اس عمل کو فوراً ترک کردینا چاہئے تاکہ یہ کام روزِ آخر ت ان کی ذلت ورسوائی کا سبب نہ بنے۔ کیونکہ رسول اکرمؐ نے فرمایا:کسی بھی آدمی کیلئے بھیک مانگنے سے کہیں بہتر ہے کہ وہ جنگل سے لکڑیاں کاٹ کر اپنی کمر پر لادے او ربیچ کر اپنے گھر کا گزارہ کرے۔(نسائی، کتاب الزکاۃ، باب المسالۃ) جس آدمی کے پاس ایک دن کا کھانا ہو اور ستر ڈھانکنے کےلیے کپڑا ہو، اُس کے لیے لوگوں سے مانگنا جائز نہیں ہے۔ اسی طرح جو آدمی کمانے پر قادر ہو، اُس کے لیے بھی سوال کرنا جائز نہیں، البتہ اگر کسی آدمی پر فاقہ ہو یا واقعی کوئی سخت ضرورت پیش آگئی ہو جس کی وجہ سے وہ انتہائی مجبوری کی بنا پر سوال کرے تو اس کی گنجائش ہے۔ لیکن مانگنے کو عادت اور پیشہ بنالینا بالکل بھی جائز نہیں ہے۔ حدیث شریف میں آتا ہے کہ جو شخص بلا ضرورت مانگتا ہے تو قیامت کے دن اس کا یہ مانگنا اس کے چہرے پر زخم بن کر ظاہر ہوگا۔ایک روایت میں ہے کہ جو اپنا مال بڑھانے کے لیے سوال کرتاہے تو یہ جہنم کے انگارے جمع کررہاہے، اب چاہے تو کم جمع کرے یا زیادہ۔ جن کے بارے میں علم ہو کہ یہ پیشہ ور بھکاری ہیں تو ایسے افراد کی حوصلہ شکنی کرنی چاہیے، البتہ اگر کسی نے بھیک دے دی تو وہ گناہ گار نہ ہوگا، لینے والا گناہ گار ہوگا، البتہ ایسے افراد کو زکوٰۃ یا صدقاتِ واجبہ نہیں دینا چاہیے۔ اگر واقعۃً اضطراری کیفیت میں مبتلا نہ ہو تو بھیک مانگنے کی غرض سے گھر سے نکلنا جائز نہیں۔
پیشہ ورانہ بھیک مانگنے کا منظم نیٹ ورک عام طور پر تین اہم اجزاء پر مشتمل ہوتا ہے۔آرگنائزرز: یہ وہ افراد یا گروہ ہوتے ہیں جو بھکاریوں کو منظم کرتے ہیں، انہیں مخصوص مقامات پر بھیجتے ہیں اور ان کی کمائی کا ایک حصہ وصول کرتے ہیں۔بھکاری: یہ نیٹ ورک کے اہم اراکین ہوتے ہیں جو مختلف مقامات پر بیٹھ کر یا گھوم کر بھیک مانگتے ہیں۔مددگار: یہ وہ افراد ہو سکتے ہیں جو بھکاریوں کو لانے، لے جانے اور ان کی حفاظت کا کام کرتے ہیں۔
عوامل:پیشہ ورانہ بھیک مانگنے کے پیچھے کئی عوامل ہو سکتے ہیں:
غربت: غربت پیشہ ورانہ بھیک مانگنے کی بنیادی وجہ ہوتی ہے۔ جن لوگوں کے پاس روزگار نہیں ہوتا، وہ اس نیٹ ورک کا حصہ بننے پر مجبور ہوتے ہیں۔تعلیم کی کمی: تعلیم کی کمی بھی اس مسئلے کا ایک اہم پہلو ہے۔ جن لوگوں کو تعلیم حاصل کرنے کے مواقع نہیں ملتے، وہ بھیک مانگنے کا راستہ اختیار کرتے ہیں۔
سماجی تفریق: معاشرتی ناہمواری اور تفریق بھی اس مسئلے کو بڑھاوا دیتی ہے۔ بعض اوقات سماجی سطح پر موجود مسائل بھی لوگوں کو پیشہ ورانہ بھیک مانگنے کی طرف دھکیلتے ہیں۔
بھکاریوں کی زندگی:پیشہ ورانہ بھیک مانگنے والے بھکاری عام طور پر بہت مشکل حالات میں زندگی بسر کرتے ہیں۔ ان کی زندگی کے اہم پہلوؤں پر نظر ڈالی جائے تو اکثر بھکاریوں کے پاس مستقل رہائش نہیں ہوتی اور وہ سڑکوں، پلوں کے نیچے یا خالی عمارتوں میں رہتے ہیں۔ان کی صحت کی حالت بھی عام طور پر خراب ہوتی ہے۔ بیماریوں کا شکار ہونا عام بات ہے کیونکہ انہیں طبی سہولیات میسر نہیں ہوتیں۔
بھیک مانگنے اور لوگوں کی ہمدردی کا استحصال کرنے کے بارے میں مختلف زاویوں سے بات کی جا سکتی ہے۔ یہ موضوع سماجی، اخلاقی، اور اقتصادی پہلوؤں کو شامل کرتا ہے۔ آئیں، ہم ان مختلف پہلوؤں پر نظر ڈالتے ہیں۔
سماجی پہلو:بھیک مانگنے والے افراد عموماً سماج کے کمزور طبقے سے تعلق رکھتے ہیں۔ ان کی حالت غربت، بے روزگاری، یا کسی جسمانی یا ذہنی معذوری کی وجہ سے ہوتی ہے۔ ایسے افراد کی مدد کرنا انسانی ہمدردی کا تقاضا ہے۔
اخلاقی پہلو:بھیک مانگنے والوں کی مدد کرنا ایک اخلاقی فریضہ سمجھا جاتا ہے، لیکن اگر یہ افراد لوگوں کی ہمدردی کا غلط فائدہ اٹھا رہے ہوں یا اس کام کو پیشے کے طور پر اپنا رہے ہوں، تو یہ عمل اخلاقی طور پر قابل اعتراض ہے۔ لوگوں کی ہمدردی کا استحصال کرنا اور ان کے جذبات سے کھیلنا درست نہیں ہے۔
معاشرتی و اقتصادی اثرات:پیشہ ورانہ بھیک مانگنے کے معاشرتی اور اقتصادی اثرات بھی بہت اہم ہوتے ہیں.: یہ نیٹ ورک معاشرتی بگاڑ کا سبب بنتا ہے کیونکہ یہ بچوں اور کمزور افراد کا استحصال کرتا ہے. بھیک مانگنے والے افراد کی وجہ سے معاشرے پر اقتصادی بوجھ پڑتا ہے۔ حکومت کو ان کی مدد کے لئے مزید وسائل فراہم کرنا پڑتے ہیں۔جرائم کا اضافہ: پیشہ ورانہ بھیک مانگنے کا نیٹ ورک بعض اوقات جرائم میں بھی ملوث ہوتا ہے، جس سے معاشرتی امن و امان کو خطرہ لاحق ہوتا ہے۔اقتصادی نقطہ نظر سے دیکھا جائے تو بھیک مانگنے کا رجحان سماج میں پیداواری صلاحیتوں کو کم کرتا ہے۔ اگر بھیک مانگنے والا کام کرنے کے قابل ہو اور اسے مواقع فراہم کیے جائیں، تو وہ ملکی معیشت میں مثبت کردار ادا کر سکتا ہے۔
قوانین اور پالیسیاں:کئی ممالک میں بھیک مانگنے کے خلاف قوانین موجود ہیں، جن کا مقصد اس مسئلے کو حل کرنا اور بھیک مانگنے والوں کو معاشرے کا مفید شہری بنانا ہے۔ اس سلسلے میں تربیتی پروگرامز اور روزگار کی فراہمی جیسے اقدامات کیے جا سکتے ہیں۔
تعلیم اور تربیت: بھیک مانگنے والوں کو تعلیم اور تربیت فراہم کرنا تاکہ وہ خود کفیل بن سکیں۔
روزگار کے مواقع: ایسے افراد کے لیے روزگار کے مواقع پیدا کرنا۔
سماجی بہبود کے پروگرام: سماجی بہبود کے پروگرامز کے ذریعے ان کی مالی مدد کرنا۔
ممکنہ حل: پیشہ ورانہ بھیک مانگنے کے مسئلے کو حل کرنے کے لئے کچھ ممکنہ اقدامات کئے جا سکتے ہیں:تعلیم اور روزگار کے مواقع: حکومت اور غیر سرکاری تنظیمیں مل کر تعلیم اور روزگار کے مواقع فراہم کر سکتی ہیں تاکہ لوگوں کو بھیک مانگنے پر مجبور نہ ہونا پڑے۔قانونی اقدامات: بھیک مانگنے کے نیٹ ورک کو توڑنے کے لئے سخت قانونی کارروائی کی جا سکتی ہے۔
سماجی شعور: عوامی شعور بیدار کرنے کی مہمیں بھی اس مسئلے کو حل کرنے میں مددگار ثابت ہو سکتی ہیں۔
تحفظ: بھکاری عموماً غیر محفوظ ہوتے ہیں اور انہیں جسمانی یا جنسی استحصال کا خطرہ رہتا ہے۔
(مضمون نگار مبارک ہسپتال میں میڈیکل ڈاکٹرہیں اور اخلاقی اور سماجی مسائل کے مثبت ادراک کے انتظام میںسرگرم ہیں)
ان سے [email protected] اور twitter@drfiazfazili پر رابطہ کیا جا سکتا ہے۔
������������������