اسد مرزا
اقوام متحدہ کے ہائی کمشنر برائے انسانی حقوق نے میانمار کی شمالی ریاست راکھین سے شہریوں کی جانوں اور املاک پر تنازعات کے اثرات کے بارے میں خوفناک اور پریشان کن رپورٹس موصول ہونے کی اطلاع دی ہے۔ یہ بات اقوام متحدہ کے ہائی کمشنر برائے انسانی حقوق کی ترجمان لِز تھروسل نے جمعہ 24 مئی کو جنیوا میں صحافیوں کو بریفنگ دیتے ہوئے کہی۔ کچھ سنگین ترین الزامات روہنگیا شہریوں کے قتل اور ان کی املاک کو جلانے کے واقعات سے متعلق ہیں۔ انہوں نے مزید کہا کہ حالیہ دنوں میں بوتھیڈاونگ اور مونگ ڈاؤ شہروں میں لڑائی سے دسیوں ہزار شہری بے گھر ہوچکے ہیں۔انہوں نے کہا کہ گزشتہ ہفتے متاثرین، عینی شاہدین، سیٹلائٹ امیجز، اور آن لائن ویڈیو اور تصاویر سے گواہی میں جمع کی گئی معلومات سے پتہ چلتا ہے کہ بوتھیڈانگ شہر بڑے پیمانے پر جل چکا ہے۔انہوں نے مزید کہا کہ ہمیں ایسی اطلاعات موصول ہوئی ہیں جن سے ظاہر ہوتا ہے کہ آگ 17 مئی کو شروع ہوئی تھی، جب فوج کے شہر سے پیچھے ہٹنے کے دو دن بعد اراکان آرمی نے مکمل کنٹرول حاصل کرنے کا دعویٰ کیا تھا۔بنکاک میں بات کرتے ہوئے، میانمار ٹیم کے سربراہ، ہائی کمشنر برائے انسانی حقوق کے دفتر، جیمز روڈہور نے کہا کہ ان کی ٹیم نے زمینی سطح پر بہت سے ذرائع سے بات کی ہے اور متعدد مواد کا جائزہ لیا ہے، جن میں سے اکثر کو معتبر سمجھا گیا۔ہمارے دفاتر معلومات کی مزید تصدیق کر رہے ہیں، خاص طور پر اس بات کا تعین کرنے میں کہ گھر جلانے کے مرتکب کون لوگ ہیں۔ ایک زندہ بچ جانے والے شخص نے بتایا کہ جب وہ شہر سے بھاگ رہا تھا تو اس نے درجنوں لاشیں دیکھی ہیں۔ ایک اور زندہ بچ جانے والے نے کہا کہ وہ بے گھر ہونے والے افراد کے ایک گروپ میں شامل تھے جن کی تعداد دسیوں ہزار میں تھی، جنہوں نے قصبے سے باہر حفاظتی مقامات کی طرف جانے کی کوشش کی لیکن اراکان آرمی نے انہیں روک دیا۔ روڈہور نے کہا، اس طرف اشارہ کرتے ہوئے کہ اراکان آرمی نے زندہ بچ جانے والوں کے ساتھ بدسلوکی کی تھی۔ اور شہر سے فرار ہونے پر ان سے رقم وصول کی۔
سابقہ تاریخ : تازہ ترین لڑائی میانمار میں خانہ جنگی کے تناظر میں سامنے آئی ہے جو فوج کی جانب سے آنگ سان سوچی کی منتخب حکومت کو بے دخل کرنے کے بعد شروع ہوئی تھی، جس کے نتیجے میں فوجی حکمرانی کے خلاف مسلح مزاحمت شروع ہوئی تھی۔ جمہوریت کے حامی جنگجو کئی نسلی اقلیتی گروہوں سے وابستہ ہیں جو کئی دہائیوں سے زیادہ خود مختاری کے لیے لڑ رہے ہیں، اور ان کے پاس اچھی تربیت یافتہ فوجی دستے بھی موجود ہیں۔اراکان آرمی کی فوجی حکومت کے ساتھ گزشتہ اکتوبر تک ڈھیلی جنگ بندی تھی، جب اس نے شمال مشرقی میانمار کے علاقے پر قبضہ کرنے کے لیے دو دیگر نسلی مسلح گروہوں کے ساتھ شمولیت اختیار کی۔اراکان آرمی ایک مسلح نسلی گروہ ہے جو میانمار کی فوج کے خلاف اتحاد کے حصے کے طور پر لڑ رہا ہے۔ اے اے کا کہنا ہے کہ وہ ریاست میں نسلی راکھین آبادی کے لیے مزید خودمختاری کے لیے لڑ رہی ہے، جو کہ ستائی ہوئی روہنگیا مسلم اقلیت کے اندازاً 600,000 ارکان کا گھر بھی ہے، جنہوں نے ملک میں رہنے کا انتخاب کیا ہے۔
روہنگیا ایک ظالمانہ انسداد بغاوت مہم کا نشانہ تھے جس میں عصمت دری اور قتل کو شامل کیا گیا تھا ،جس کے مطابق2017 میں اندازاً 740,000 پڑوسی ملک بنگلہ دیش بھاگ گئے تھے کیونکہ 2017 میں ان کے گاؤں کو سرکاری فوجیوں نے جلا دیا تھا۔روہنگیا نسلوں سے میانمار میں رہ رہے ہیں، لیکن انہیں ملک کی بدھ اکثریت ناپسند کرتی ہے، جن میں راکھین اقلیت کے ارکان بھی شامل ہیں اور انھیں بنگلہ دیش سے غیر قانونی طور پر ہجرت کرنے والے کے طور پر دیکھتے ہیں۔ روہنگیا کو بہت زیادہ تعصب کا سامنا ہے اور انہیں عام طور پر شہریت اور دیگر بنیادی حقوق سے محروم رکھا جاتا ہے۔Buthidaung کو جلانے سے پہلے کے ہفتوں میں، اقوام متحدہ کے انسانی حقوق کے دفاتر کی میانمار کی ٹیم نے روہنگیا شہریوں پر اراکان آرمی اور شمالی راکھین ریاست میں فوج کی طرف سے نئے حملوں کو دستاویزی شکل مہیا کرائی ہے ، جن میں بہت سے فضائی حملے اور ڈرون حملے بھی شامل ہیں۔انہوں نے کہا کہ ان کے دفتر کو غیر مسلح بھاگنے والے دیہاتیوں پر گولی مارنے اور متعدد لاپتہ ہونے والوں اور گھروں کو جلانے کی اطلاعات بھی موصول ہوئی ہیں، اور اس نے سر قلم کرنے کے چار واقعات کی تصدیق بھی کی ہے۔
روڈ ہیور نے کہا کہ فوج برسوں سے روہنگیا کوبڑے پیمانے پر نشانہ بنا تی رہی ہے اوران کی زندگی کے تمام پہلوؤں کو متاثر کرنے والی سخت اور امتیازی پابندیوں کو فعال طور پر نافذ کر تی رہی ہے۔یہی وجہ ہے کہ روہنگیا، جب بھی انہیں بوتھیڈانگ اور دیگر دیہاتوں کو چھوڑنے کے لیے کہا جاتا ہے،تو وہ منتقل ہونے سے بہت ہچکچاتے ہیں کیونکہ انہیں اپنی رہائش گاہ سے باہر جانے کے لیے خصوصی اجازت نامہ کی ضرورت ہوتی ہے، جو اکثر کے پاس نہیں ہوتی ہے۔ مزید یہ کہ ان کے پاس کہیں اور جانے کے لیے کوئی اور جگہ بھی نہیں ہے۔انہوں نے کہا،یقینا، انہوں نے 2017 میں بہت مشکل سبق سیکھے ہیں، یہ جانتے ہوئے کہ جب بھی نقل و حرکت شروع ہوتی ہے، تو یہ عام طور پر ان کے گھر چھوڑنے پر ختم ہو جاتی ہے،جنہیں وہ دوبارہ کبھی نہیں دیکھ پائیں گے۔
میانمار کی حکومت، جو کئی دہائیوں سے اپنے عوام کے ساتھ جنگ میں ہے، حال ہی میں کئی شکستوں کا سامنا کر چکی ہے۔ جس کا ایک نتیجہ یہ ہوا کہ وہ روہنگیا جوانوں روہنگیا سے ہی لڑانے کے لیے بھرتی کر رہی ہے۔ ان سے بہت سے فوائد کا لالچ دیا جاتاہے، جیسے کہ ان کے خاندانوں کے لیے زیادہ خوراک کا راشن اور شہریت کا وعدہ۔ روڈ ہیور نے اسے فوجی لیڈروں کی ایک مکروہ چال قرار دیا۔
ٹام اینڈریوزجو، یو این ایس، میانمار میں انسانی حقوق کی صورت حال سے متعلق اسپیشل مندوب ہیں۔ انھوں نے گزشتہ جمعرات 23مئی کو خبردار کیا کہ ’’ریاست راکھین میں ایک اور روہنگیا خون کی ہولی کی اشتعال انگیز نشانیاں‘‘برپا ہوں گی، اگر بین الاقوامی برادری نے مسلسل اپنی آنکھیں بندرکھیں اور ہزاروں روہنگیا کی زندگیوں کو بچانے کے لیے اقدامات کرنے میں ناکام رہے۔انہوں نے کہا، “ایک بار پھر، لگتا ہے کہ دنیا مایوس لوگوں کو اپنے خطرے کی گھڑی میں ناکام بنا رہی ہے، جب کہ نفرت پر مبنی غیر فطری آفت میانمار کی راکھین ریاست میں حقیقی وقت میں سامنے آرہی ہے۔”
اس جائزے کی عکاسی کرتے ہوئے، اقوام متحدہ کے انسانی حقوق کے سربراہ وولکر ترک نے تشدد کے فوری خاتمے، اور تمام شہریوں کو شناخت کرنے کی بنیاد پر کسی امتیاز کے بغیر تحفظ فراہم کرنے کا مطالبہ کیا ہے۔ انہوں نے کہا، “فوری اور بلا روک ٹوک انسانی امداد کو پہنچنے دیا جانا چاہیے، اور تمام فریقین کو بین الاقوامی قانون کی مکمل اور غیر مشروط تعمیل کرنی چاہیے۔ایک ملین سے زیادہ روہنگیا نے راکھین سے فرار ہونے کے بعد ہمسایہ ملک بنگلہ دیش میں پناہ لی تھی، جن میں 2017 میں فوج کے پہلے کریک ڈاؤن کے دوران وہ لاکھوں افراد بھی شامل ہیں جو کہ اب اقوام متحدہ کی نسل کشی کی عدالت میں میانمار حکومت کے خلاف دائر کیے گئے مقدمہ میں ثبوت کے طور پر شامل کیے گئے ہیں۔
روہنگیاؤں کو نشانہ بنانے پر میانمار کی حکومت کے خلاف نام نہاد مسلم ریاستوں کی شرمناک خاموشی مجموعی طور پر عالمِ اسلام کو یقینا پریشان کرتی ہے۔ لیکن او آئی سی جیسی مسلم تنظیمیں بھی روہنگیا کے قتل عام کے خلاف قراردادیں منظور کرنے سے آگے نہیں بڑھی ہیں بلکہ ان غیر انسانی قتل عام کو روکنے کے لیے میانمار حکومت کو مجبور کرنے کے لیے زمینی سطح پر کوئی ٹھوس اقدام لینے سے بھی گریز کیا ہے۔ یہی بات چین میں ایغور مسلمانوں کی حالت زار پر بھی لاگو ہوتی ہے۔ اور ہمیں عالمی سطح پر مسلمانوں کی حالتِ زار دکھاتی ہے لیکن ساتھ ہی کوئی ٹھوس اقدام یا پہل نہ لینے کی طرف بھی ہمیں متوجہ کراتی ہے، جو کہ یقینا مایوس کن ہے۔
(مضمون نگارسینئر سیاسی تجزیہ نگار ہیں ، ماضی میں وہ بی بی سی اردو سروس اور خلیج ٹائمزدبئی سے بھی وابستہ رہ چکے ہیں۔ رابطہ کے لیے: www.asadmirza.in)