ڈاکٹر عریف جامعی
مولانا رومی فرماتے ہیں کہ ایک ابتدائی درجے کے طالب علم کے سامنے محبت کی تشریح اس طرح کی جاتی ہے کہ ’’محبت شکر جیسی ہوتی ہے،‘‘ جبکہ ایک اعلی درجے کے متعلم کو یہی بات اس طرح سمجھائی جاتی ہے کہ ’’محبت مریم جیسی ہوتی ہے، ہم میں سے ہر ایک کے پاس مسیح ہوتا ہے!‘‘ ظاہر ہے کہ چھوٹا بچہ شکر کی مٹھاس کے احساس سے ہی محبت کی ’’لذت‘‘ سمجھ جائے گا، اور ایک اعلی پایہ کا متلاشئ علم مریم کا لفظ سن کر ہی جان لے گا کہ مسیح کی پیدائش کے لئے مریم جیسی ماں کا ہونا لازمی ہے، جو رب تعالی کی محبت اور تزکیہ کا امتزاج ہو۔ محبت اور پارسائی کے اسی امتزاج سے وہ مسیح نمودار ہوسکتا ہے جو محبت کی یہ تعلیم دے سکے: ’’اپنے خداوند خدا کے ساتھ اپنے تمام دل، اپنی تمام روح، اپنی تمام عقل اور اپنی تمام قوت کے ساتھ محبت رکھ‘‘ اور ’’اپنے پڑوسی کے ساتھ اپنے جیسی محبت رکھ!‘‘(انجیل لوقا، ۱۲، ۳۰-۳۱)
یہ تمہید اس لئے باندھی گئی کہ ہم بھی بچپن سے پڑھتے آئے ہیں کہ ’’علم بڑی دولت ہے‘‘ اور ’’علم ایک نور ہے!‘‘ ظاہر ہے کہ ’’دولت‘‘ کا احساس ہمیں بہرحال ٹھوس سطح پر ہوتا ہے۔ تاہم ’’نور‘‘ اصل میں ایک ایسا مجرد تصور ہے جس کو سمجھنے کے لئے یہ سمجھنا ضروری ہوتا ہے کہ علم کا ایک متلاشی راہ علم کی صعوبتیں برداشت کرکے اس علم تک پہنچنے کی سعی کرتا ہے جو اس کے لئے فرقان اور نور بن سکے۔ یہ نور پھر اس کے راستوں کو روشن کرتا ہے، اس کے زندگی کے پر پیچ راستوں کے اندھیرے چھٹ جاتے ہیں اور اسی سے معاشرے کے گلشن میں اسی طرح بہار آجاتی ہے جس طرح نسیم سحر سے ایک چمن کھل اٹھتا ہے۔ نور کی یہ کثیر الجہتی ماحول کو روشن بھی کرتی ہے اور اسے رعنائی بخش کر تازہ بھی کرتی ہے۔ معاشرے کے لئے نور افشانی کرنے والا ’’روشنیوں کا مسافر‘‘ جو محنت کرتا ہے اور جس طرح کی مشقت اٹھاتا ہے، اس کو غالب کے اس شعر سے سمجھا جاسکتا ہے:
ان آبلوں سے پانو کے گھبرا گیا تھا میں
جی خوش ہوا ہے راہ کو پرخار دیکھ کر
یہاں معنوی صنعت ’’تطابق بہ نفی‘‘ کے ذریعے منفی اور حوصلہ شکن صورتحال سے مثبت معنی پیدا کیے گئے ہیں۔ یعنی غالب پانو کے آبلوں سے ڈر گئے تھے، لیکن ان کے دل کو یہ سوچ کر تسکین ملی کہ کانٹوں سے آبلے پھٹ جائیں گے اور راحت کا سامان ہوگا۔ اور جب کانٹے نرم پڑ جائیں گے، تو آنے والے راہگیروں کو بھی آسانی ہوگی! کچھ اسی طرح کا کام ایک سچا طالب علم کرتا ہے۔ وہ راہ علم میں مشکلات کا سامنا کرتا ہے اور علم و عرفان کی اونچائیوں تک پہنچنے کے لئے راستہ ہموار کرتا ہے۔ وہ علم کی سیڑھی کا ایسا زینہ بنتا ہے، جہاں سے مستقبل کا متلاشئ علم اپنا سفر شروع کرتا ہے۔
ایک سچا طالب علم نامعلوم حقائق کو اسی وقت معلوم کے دائرے میں لاسکتا ہے جب وہ اپنے اندر جاننے کی ایک سچی تڑپ پیدا کرنے میں کامیاب ہوجائے۔ ایسا اسی صورت میں ممکن ہے جب وہ اس بات کا اعتراف کرسکے کہ وہ اس چیز کو جاننا چاہتا ہے، جسے وہ نہیں جانتا۔ یعنی عربی مقولے ’’لا ادری نصف العلم‘‘ (میں نہیں جانتا نصف علم) کی مصداق وہ اس زعم میں مبتلا نہیں رہتا کہ میں سب کچھ جانتا ہوں۔ یہ رویہ اس کے لئے علم کے دروازوں کو وا کرتا ہے۔ اس رویے سے ایک سچے طالب علم کی مطابقت سقراط سے ہوتی ہے، جن کا یہ جملہ کافی مشہور ہے کہ ’’مجھے اس بات کا احساس ہے کہ میں حقیقت میں کچھ نہیں جانتا۔‘‘(افلاطون، اپالوجی، ۲۲) یہیں سے ایک شخص علم کا متلاشی یا راہ علم کا ایک مسافر بن جاتا ہے، جو ہر جاننے والے سے چیزوں کے بارے میں استفسار کرتا ہے۔ لیکن یہاں پر بھی وہ فقط پوچھنے کی خاطر سوال نہیں کرتا، بلکہ اس کے سوالوں کے پیچھے وہ تڑپ کارفرما ہوتی ہے، جو اس کے اندر جاننے کے لئے ہوتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ وہ اپنے سوالات کے انداز میں ایک حسن اور ادب پیدا کرتا ہے۔ یعنی ’’حسن السئوال نصف العلم‘‘(اچھا سوال نصف علم ہے) اس پر صادق آتا ہے۔ اس طرح ہر جاننے والے کا کلام، تحریر شدہ لفظ اور برتا ہوا رویہ (عمل) اس کے لئے علم کا منبع بن جاتا ہے۔
یہی وجہ ہے قرآن صاف طور پر واضح کرتا ہے کہ ’’بتلاؤ تو بھلا علم والے اور بے علم کیا برابر کے ہیں؟‘‘(الزمر، ۹) اس کا ہرگز یہ مطلب نہیں ہے کہ نہ جاننے والے کے لئے جاننا ممکن نہیں یا اس کے جاننے کی کوئی حوصلہ شکنی کی گئی ہے۔ تاہم نہ جاننے والے یا کم جاننے والے کے لئے یہ ضروری ہے کہ وہ جانکار (عالم) کے سامنے زانوئے تلمذ تہہ کرے۔ ظاہر ہے کہ یہ کام اسی وقت ممکن ہے جب وہ راہ علم کی خاک چھاننے کے لئے مستعد ہوجائے۔ ایک متلاشئ علم کو یہ ترغیب اس طرح دی گئی ہے: ’’پس، اگر تم نہیں جانتے، تو اہل علم سے دریافت کرلو۔‘‘(النحل، ۴۳)
راہ علم میں اسی ریاضت سے طالب علم کا رتبہ اس قدر بڑھ جاتا ہے کہ وہ سب سے بڑی سچائی (الحق) کی گواہی دینے کے قابل ہوجاتا ہے۔ ایسا طالب علم راست طور پر اس قطار میں شامل ہوجاتا ہے جس کی انتہا پر خود رب تعالی ہوتا ہے اور اس کے بعد ملائکہ المقربین اسی حق کی شہادت دیکر انسان کے علم اور شہادت دونوں کے استناد کا اعلان کرتے ہیں۔ بفحوائے الفاظ قرآنی: ’’اللہ تعالی، فرشتے اور اہل علم اس بات کی گواہی دیتے ہیں کہ اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں۔‘‘ (آل عمران، ۱۸) اس طرح یہ علم اس طالب علم کے لئے فرقان بن جاتا ہے جس سے یہ حق اور باطل کے درمیان فرق کرنا سیکھ جاتا ہے۔ یہ اس کے لئے نور بن جاتا ہے جس سے اس کی راہوں کے اندھیرے چھٹ جاتے ہیں۔ یہی فرقان اور نور اس کو اس انجام بد سے بچاتے ہیں جو جہالت کی وجہ سے اس کا مقدر بن جاتا۔ قرآن نے ناکامی کی اس صورتحال کو اس طرح بیان کیا ہے: ’’اور جو کوئی اللہ کے ساتھ شرک کرے تو گویا وہ آسمان سے گر گیا، اب یا تو اسے پرندے اچک لے جائیں گے یا ہوا اس کو ایسی جگہ لے جاکر پھینک دے گی جہاں اس کے چیتھڑے اڑ جائیں گے۔‘‘(الحج، ۳۱)
تاہم اس کا ہرگز یہ مطلب نہیں کہ وہ علم جس میں صرف دنیا کا خیر مضمر ہوتا ہے، گھر بیٹھے بغیر کسی سعی و جہد کے انسان کو حاصل ہوتا ہے۔ تاریخ عالم اس بات کی شاہد ہے کہ دنیا کو مادی (معاشرتی، معاشی، سیاسی، ادبی، جمالیاتی) ترقی کی اس بلندی تک پہنچانے میں انہی لوگوں نے قابل ذکر کردار ادا کیا ہے جو سچے طالب علم بن کر علم کی خدمت میں لگے رہے۔ اس سلسلے میں اگرچہ محققین اور موجدین کی ایک لمبی فہرست پیش کی جاسکتی ہے، لیکن دنیائے انسانیت کو آرام اور راحت پہنچانے والوں کی اس دستاویز میں ایڈورڈ جنر (۱۷۴۹-۱۸۲۳) کا نام سنہرے حروف میں درج ہے۔ کہا جاتا ہے کہ چیچک کا ٹیکہ (ویکسین) دریافت کرکے سب سے زیادہ انسانی جانیں انہوں نے ہی بچائیں۔ تاہم ایڈورڈ جنر کی یہ دریافت اس وقت علم مناعیات (امینالوجی) میں ایک انقلاب عظیم کا باعث بنی جب لوئی پاسچر (۱۸۲۲-۱۸۹۵) نے یہ سوچ کر جدید مناعیات (ماڈرن امینالوجی) کی بنیاد رکھی کہ ’’جب چیچک کا ٹیکہ بنایا جاسکتا ہے، تو کسی بھی بیماری سے بچنے کے لئے بھی ٹیکہ دستیاب کیا جاسکتا ہے!‘‘ واضح رہے کہ اس سے ایک ہزار برس قبل ابو بکر محمد ابن زکریا الرازی (۸۶۵-۹۲۵) نے اپنی شہرۂ آفاق کتاب ’’کتاب الجزری و الحصبہ‘‘ (جو درجن سے زیادہ مرتبہ لاطینی میں ترجمہ ہوئی) میں چیچک اور خسرے پر بنیادی تحقیق کی تھی۔
اسی قسم کا معاملہ علم ہیئت اور فلکیات کا رہا ہے۔ ہم جانتے ہیں کہ بطلیموس (ٹالمی، ۱۰۰-۱۷۰) کے زمانے سے کائنات کے بارے میں ارض مرکزیت (جیوسنٹرزم) کا نظریہ چلا آرہا تھا۔ یہ صورتحال اس وقت تبدیل ہونا شروع ہوئی جب کوپرنکس (۱۴۷۳-۱۵۴۳) نے آفتاب مرکزیت (ہیلیوسنٹرزم) کا نظریہ پیش کیا۔ گلیلیو (۱۵۶۴-۱۶۴۲) نے کلیسا کا عتاب سہتے ہوئے مزید انکشافات کیے اور کوپرنکس کے نظریے کی تصدیق کی۔ تاہم کائنات یا نظام شمسی کے اس نمونے میں آفتاب کو ساکن، جبکہ سیاروں کے کروں کو گول مانا گیا تھا۔ کیپلر (۱۵۷۱-۱۶۳۰) نے آکے سیاروں کے کروں کو بیضوی قرار دیا، جس سے سیاروں کی حرکت کی تسلی بخش توضیح ہوئی۔ رابرٹ ہوک (۱۶۳۵-۱۷۰۳) نے سیاروں کے بیضوی کروں کی مرکز گریز قوت (سنٹریفیوگل فورس) کا انکشاف کرکے سیاروں کی حرکت کو قابل فہم بنایا۔ آئزک نیوٹن (۱۶۴۳-۱۷۲۷) نے ریاضی کی مختلف مساوات (اکویشنز) کا بھر پور استعمال کرکے آفتاب مرکزیت (ہیلیوسنٹرزم) کو استناد بخشا۔
غرض ایک انسان اسی وقت صاحب علم قرار پاتا ہے، جب وہ سچا طالب علم بن کر راہ علم کا مسافر اور وادئ علم کا دشت نورد بننے کے لئے تیار ہوجائے۔ اس راہ میں صرف یہی نہیں کہ اسے تکان کا سامنا کرنا پڑتا ہے، بلکہ اسے بھوک اور پیاس کے ساتھ ساتھ تنہائیوں سے بھی نبرد آزما ہونا پڑتا ہے۔ کبھی کبھی تو اسے معاشرے میں رہکر بھی معاشرت سے ہاتھ دھونا پڑتے ہیں۔ یہی نہیں، بلکہ اسے معاشرے کا عذاب و عتاب بھی سہنا پڑتا ہے۔ تاہم ایک سچا طالب علم ہونے کی وجہ سے وہ یہ سب کچھ برداشت کرتا ہے، لیکن اس راہ سے کنارہ کش ہونے کے لئے تیار نہیں ہوتا۔ اس ساری صورتحال میں اسے اس بات کا بخوبی اندازہ ہوتا ہے کہ کسی ٹھوس نتیجے پر پہنچنا اور اپنی محنت کا ثمر پانا ابھی بہت دور ہے۔ تاہم اسے یہ یقین ہوتا ہے کہ اس کی کاوشوں کا پھل آنے والی نسلوں کو ضرور حاصل ہوگا۔ اس طرح وہ ایک کاشت کار بن جاتا ہے جس کی عرق ریزی سے اگر وہ نہیں تو آنے والے لوگ ضرور شاد کام ہوتے ہیں۔ مطلب یہ کہ وہ علم کی سیڑھی میں ایک زینے کا اضافہ کرتا ہے جس پر چڑھ کر آنے والے طالب علم قصر علم کی تعمیر جاری رکھتے ہیں۔
قرنوں پر محیط طالبان علم کی راہ علم میں اسی جدوجہد کا نتیجہ ہے کہ ہر دور کا متلاشئ علم اپنی جستجو کے لئے کسی نئی بنیاد کا محتاج نہیں ہوتا، بلکہ پرانی بنیادوں پر اپنے قدم جماکر علم کی عمارت کو اوپر اٹھاتا ہے اور اس کی تزئین و آرائش میں اپنا کردار ادا کرتا ہے۔ تاہم اگر بنیادوں کے متعلق رویے میں جمود طاری ہوجائے، تو اس جمود کو توڑنے کے لئے بنیادوں سے متعلق رویے میں بھی نظر ثانی کرنا پڑتی ہے۔ جب یہ جمود صحیح معنوں میں ٹوٹ جاتا ہے تو ایک قوم کی فکری نشاۃ ثانیہ (ریناسنس) واقع ہوتی ہے، جس سے ایک قوم کو از سر نو فکری غلبہ حاصل ہوتا ہے۔ تاہم ایک قوم اسی وقت فکری باگ اپنے ہاتھوں میں لینے کے قابل ہوسکتی ہے جب وہ اس کے لئے ضروری پیش بندی کرسکے۔ ایسا اسی وقت ممکن ہے جب قوم عمل پیہم اور جہد مسلسل کے لئے تیار ہوجائے۔ حدیث قدسی کے الفاظ میں: ’’میں نے علم و حکمت کو بھوک میں رکھ دیا ہے، لوگ اسے سیری میں تلاش کرتے ہیں، بھلا وہ کیسے پائیں گے؟‘‘یعنی راہ علم کا مسافر پانو کے چھالوں سے کانٹوں کی پیاس بجھائے، جب ہی وہ میدان علم میں کوئی خاطر خواہ کام انجام دے سکتا ہے!
(مضمون نگار گورنمنٹ ڈگری کالج سوگام، لولاب میں اسلامک اسٹڈیز کے اسسٹنٹ پروفیسر ہیں)
رابطہ۔ 9858471965