پرویز احمد
سرینگر //سرینگر پارلیمانی حلقہ میں 3دہائیوں کے بعد پہلی مرتبہ ریکارڈ پولنگ ہوئی ہے۔ سال 1989 کے بعد پہلی مرتبہ لوگوں نے کھل کر اپنی حق رائے دیہی کا استعمال کیا، لیکن مجموعی طور پر کئی علاقوں میں قدرے کم پولنگ شرح رہی۔ تاہم اس دوران کسی بھی جگہ کوئی بھی پابندی عائد نہیں تھی، بائیکاٹ ہوا نہ کسی جگہ پتھرائو ہوا ۔ سرینگر شہر میں ٹریفک کی نقل و حرکت پر بھی کوئی پابندی عائد نہیں تھی باہم سڑکوں پر ٹریفک کم دکھائی دیا لیکن صورتحال پر سکون تھی۔ماضی کے برعکس شہر سرینگر میں صبح سے ہی پرائیویٹ ٹرانسپورٹ حتیٰ کہ آٹو رکھشا بھی چل رہے تھے۔پائیں شہر میں ٹریفک کی آمد و رفت قدے کم تھی لیکن سیول لائنز علاقوں میں معمول کے مطابق پرائیویٹ ٹرانسپورٹ جاری رہا۔بیشتر علاقوں میں دکانیں بھی کھلی تھیں اور ایسا بالکل بھی نہیں لگ رہا تھا کہ پولنگ کا دن ہے۔
حالانکہ ماضی میں پولنگ کے روز سیکورٹی کا اس قدر بندوبست ہوتا تھا کہ عام لوگ د ن بھر گھروں سے باہر نہیں نکلتے تھے۔پہلی بار خوف و ہراس کے بغیر پولنگ کا دن گذرا، کہیں پتھرائو کا معمولی واقعہ بھی پیش نہیں آیا،شہر کے کسی بھی پولنگ بوتھ پر صفر پولنگ نہیں ہوئی جو ماضی کے انتخابات میں روایت رہی ہے۔ہڑتال یا بائیکاٹ کا اثرکہیں دور دور تک بھی نہیں تھا۔ سرینگر پارلیمانی حلقہ میں سال 1996میں 40.94فیصدلوگوں نے اپنے رائے دیہی کا اظہار کیا تھا جبکہ سال 1998میں 30.06فیصد، سال 1999میں11.93فیصد، سال 2004میں 18.57فیصد، سال 2009میں 25.55فیصد، سال 2014میں 25.86فیصدجبکہ سال 2019کے پارلیمانی انتخاب میں صرف 14.43فیصد ووٹ پڑے تھے۔5اگست 2019کو دفعہ 370کی تنسیخ کے بعد پہلی مرتبہ پیر کو وادی میںسرینگر پارلیمانی حلقے کے انتخابات ہوئے اور اس بار شہر کا ماحول یکسر طور مختلف تھا۔ رعناواری، حسن آباد، نگین، زکورہ ،ملہ باغ اور لال بازار پولنگ سٹیشنوں پر پہلی مرتبہ ووٹروں کو قطاروں میں دیکھا گیا جبکہ نوہٹہ، حول ، راجوری کدل، کائوڈارہ اور دیگر علاقوں میں پولنگ اگر چہ اُمید سے کم رہی اور ان علاقوں کے پولنگ سٹیشنوں میں مشکل سے ووٹر دیکھنے کو مل رہے تھے، لیکن پولنگ مراکز خالی نہیں تھے۔ رعناواری ہائرسیکنڈری سکول میں قائم پولنگ سٹیشنوں، زیندار محلہ ،سعدہ کدل، نگین میں قائم پولنگ مراکز میں ووٹر قطاروں میں نظر آئے اور یہاں ووٹ ڈانے والے افراد میں خواتین کی تعداد زیادہ تھی، جن میں پہلی مرتبہ ووٹنگ کرنے والی خواتین کی اچھی خاصی تعداد موجود تھی۔ سعدہ کدل کے زیندار محلہ میں ووٹروں نے بتایا کہ مشکلات کا واحد حل ووٹنگ ہے اور اسلئے یہاں بھاری پولنگ ہورہی ہے۔یہاں نوجوانوں نے تبدیلی کا بھی اشارہ دیا۔ زکورہ، حبک، ملہ باغ کے پولنگ سٹیشنوں میں بھی گذشتہ انتخابات کے مقابلے میں لوگوں کی ایک بڑی تعداد نے ووٹ دیا ۔ یہاں پہلی مرتبہ ووٹ کرنے والی خواتین کی تعداد بھی اچھی خاصی تھی جو بجلی کی برھتی بلوں، بے روزگاری اور دیگر وجوہات کی وجہ سے ووٹ کرنے کیلئے باہر آئے تھے۔شہر کے کائو ڈارہ میں بھی ابتدائی 2گھنٹوں میں اگرچہ کم ووٹ پڑے تاہم بعد میں پولنگ کی رفتار میں تیزی آئی اور پولنگ میں اضافہ ہوا ۔شہر خاص کے انتہائی حساس حلقہ نوہٹہ ، راجوری کدل، اسلامیہ کالج اور دیگر پولنگ سٹیشنوں میں پولنگ کرنے والے لوگوں کی تعداد اُمید سے کم رہی۔ یہاں لوگوں نے انتخابات میں کوئی خاص دلچسپی نہیں دکھائی ہے۔پولنگ سٹیشنوں میں پہلی دفعہ ووٹ کرنے والے نوجوانوں کی تعداد بھی اچھی خاصی تھی ۔ نوشہر کے بائز ہائی سکول میں قائم پولنگ سٹیشنوں میں نوجوان ووٹروں کے ساتھ ساتھ بزرگوں اور خواتین نے بھی اچھی خاصی تعداد میں ووٹ ڈلا ۔سرینگرشہر میں پہلی مرتبہ پولنگ کے دوران بچوں کو کھیل کود میں مصروف بھی دیکھا گیا جبکہ پولنگ سٹیشن کے ساتھ متصل میدانوں میں بھی نوجوان کرکٹ اور دیگر کھیلوں کے ساتھ مصروف تھے۔ سرینگر شہر میں پہلی مرتبہ انتخابات کے دوران پر سکون ماحول دیکھنے کو ملا۔