گلزار احمد وانی
نیند اللہ کی ودیعت کی ہوئی نعمتوں میں سے ایک ہے۔جو آدمی کو دو عالم کی فکر سے یکسر بے گانہ کر دیتی ہے۔مگر اکثر دیکھا گیا ہے کہ جو لوگ دن بھر کام کاج میں مصروف ہوتے ہیں یہ نعمت زیادہ تر ان کے حصے میں آتی ہے ۔جو لوگ آسودہ حال ہیں وہ اس نعمت سے مثتسنی ہیں ۔وہ نیند کی گولیاں کھا کر بھی نعمت ھذا سے محروم رہ جاتے ہیں ۔امراء اپنے نرم نرم بستروں اور فرش و فروش پر صرف لیٹ سکتے ہیں مگر ان کی آنکھیں نیند سے تہی ہوتی ہیں۔
نیند کی بھی ہنسی کی طرح کئی اقسام ہیں۔ایک قدم یہ کہ کچھ لوگ بھری بزم میں بھی نیند کے خراٹے زور زور سے لیتے ہیں اور بنا پرواہ کئےوہ جی بھرکر سوتے ہیں اور دوسری قسم ان لوگوں کی ہے جواکثر کچھ نیند میں میں محو آرام ہوتے ہیں مگر اپنی آنکھیں کھلی رکھتے ہیں اور اکثر ان کو دیکھ کر یہ شبہ ہوتا ہے کہ یہ جاگے ہوئے ہیں مگر در حقیقت وہ نیند کی آغوش میں ہوتے ہیں ۔ کیونکہ وہ سوتے ہوئے اپنی ایک آنکھ یا دونوں آنکھوں کو کھلا رکھتے ہوئے یہ تاثر دلاتے ہیں کہ ہم تو جاگے ہوئے ہیں اور اس طرح سے یہ دوسروں کی آنکھوں میں دھول جھو نکنے میں کوئی بھی کسر نہیں چھوڑتے ہیں ۔
کہتے ہیں کہ اچھی خاصی نیند بھرنے سے بچوں کی صحت بھی اچھی رہتی ہے ۔اسی لئے مائیں بچوں کو اچھی اچھی لوریاں سنا کر ان کی بلائیں لیتی ہیں اور انکی ضد کے آگے بھیگی بلی بنتی ہیں ۔پھر بھی اکثر بچے سونے کے منکر ہو جاتے ہیں ۔اب جسے سکوں میسر ہو اسے یہ نعمت عظمی بھی ساتھ میں ہوتی ہے اور کہا جاتا ہے کہ نیند ہر غم سے آدمی کو نجات دیتی ہے۔آج کل آدمی کو جو ہر ایک فکر کھائے رہتی ہے لہذا ان تمام افکار سے نجات کا بس ایک واحد ذریعہ بس نیند ہی ہے کیونکہ جس کی تیغ اس کی دیگ کے مصداق یہ حقیقت عیاں ہو جاتی ہے کہ اصل میں آسودہ حال وہی شخص ہے جسے یہ ۰دولت لازوال حاصل ہو۔
آج کل اکثر لوگ نیند نہ آنے کی شکایت کرتے رہتے ہیں اور سکوں کے ذرائع کی قلت بھی بتاتے ہیں۔دراصل یہ نعمت ان کے حصے میں زیادہ ہوتی ہے۔جو جسمانی طور زیادہ محنت کے عادی ہوتے ہیں۔ظاہر سی بات ہے جب لوگ بنا جسمانی محنت کئے پیسے بٹورتے ہیں تو ان کے لئے نیند کی گولیاں کھانا ہی بیکار ہے۔۔
ایک انسان دوران نیند میں ہیبت اور غیبت کا شکار نہیں ہوتا ہے اور کسی خواب کی وادی میں کسی سیر و تفریح پر گامزن ہوا ہوتا ہے۔
نیند بھی وہ جو اپنے مناسب مقدار میں بھرنی چاہئے زیادہ دیر تک سونا انسان کو لاغر اور سست بنا دیتا ہے اور مضر صحت بھی ہے کبھی کبھار لوگ کسی کی زیادہ نیند سے گھبراتے بھی ہیں یہاں تک کہ کوئی ابدی نیند بھی سویا ہوتا ہے اور گھر کے افراد یہ سوچ کے اسے جگانے سے قاصر رہتے ہیں کہ رات بھر درد سے کراہتے ہوئے اب دم صبح اسے نیند آئی ہے اور اسے جگانا مناسب نہیں سمجھتے ہیں اور اس کی نیند میں کسی قسم کا خلل نہیں ڈالنا چاہتے ہیں جس کے بعد یہ پتہ چلتا ہے کہ اسے موت نے اپنی ابدی نیند میں سلا دیا ہے۔ پھر بعد میں ان کے ورثا بے پر کی اڑاتے ہیں ۔
کئی لوگ نیند میں زور زور سے خراٹے مارتے ہیں جس سے باقی سوئے ہوؤں کی نیند میں خلل پڑجاتا ہے ۔اور وہ اپنے خراٹوں سے سارے کمرے کو سجاتے سنوارتے ہیں ۔نیند بھی کیا عجیب شے ہے جو تھکے ہوئے مزدوروں کی تھکان کو رات میں بھگا دیتی ہے اور صبح دم تازہ دم ہو کر مزدور پھر سے کام کے لئے جیسے نئی ہمت لے کر نکلتے ہیں۔اب یہی حال اطفال کا بھی ہے کہ بڑے لوگ ان کی نیند کی چاہ میں واہ کرتے ہیں تاکہ ان کی شرارتوں سے حشر اٹھانے سے بچ جائیں ۔
اب آپ پوچھیں گے کہ ایک انسان کو نیند کہاں سے حاصل ہوتی ہے ۔جب ایک بچہ اپنی جماعت کے کمرے میں ایک استاد کے لیکچر سے بوریت سی محسوس کرے تو اونگھ سے اس کا سفر شروع ہوجاتا ہے پھر کہیں یہ گہری نیند میں تبدیل ہو کر خواب تک آکر اختتام پذیر ہو جاتا ہے۔نیند کی پریاں جب آدمی کو سلا دیتی ہیں تو آدمی کو بد مست کرکے دو عالم سے اسے بیگانہ کر دیتی ہے۔اور پھر اسے اس کی قوت سماعت سے بھی بے بہرہ بھی بنا دیتی ہے۔ یہ نیند بھی کیا عجیب شے ہے کہ جس میں اپنے کے ساتھ ساتھ اپنوں کی فکر بھی نہیں رہتی ہے پھر اگر چوہا بھی سونے والے کے پنجوں میں انگوٹھا بھی چاٹے چومے تو اسے بھی کوئی ٹوکنے اور روکنے والا نہیں ہوتا۔
[email protected]