ڈاکٹر جوہرؔ قدوسی
بیسویں صدی میں جن ادبی رحجانات ، میلانات،اصطلاحات اور تحاریک کا بڑا چرچہ رہا، ان میں تانیثیت اور تانیثی ادب کو نمایاں حیثیت حاصل ہے۔بہت ساری خواتین شعرو ادب کے میدان میں سامنےآگئیں۔کچھ ان میں سے سنجیدگی اور ثابت قدمی کے ساتھ ہاتھ میں قلم لیکر جم گئیں، کچھ نعرہ بازی اور پروپیگنڈا کا شکار ہوکرفکری بے اعتدالیوں کی بھینٹ چڑھ گئیں اور بہت کم اپنے خالق و مالک کی پکار پر لبیک کہتے ہوئے تعمیری ادب کے میدان میں اُترکرادب برائے زندگی کے نظریےکواپنانے لگیں۔
قبل اس کے کہ ڈاکٹر شاہدہ پروین شاہین کی حالیہ مطبوعہ کتاب’’ اُردو کی نعتیہ شاعری ایک تحقیقی و تنقیدی مطالعہ‘‘ کا جائزہ لیا جائے، مناسب معلوم ہوتا ہے کہ نعتیہ شاعری کے نسوانی حصے پر ایک طائرانہ نظر ڈالی جائے۔ دور نبویؐ میںطبقۂ نسواں کی حضوراکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے مثالی محبت کرنے والیوں کی تعداد بہت زیادہ رہی ہے، لیکن شعر و شاعری میں نعت رسولؐ کے باب میں لسان و قلم کو استعمال کرنے والیوں کی تعداد خاصی کم ہے۔ غلام علی آزاد بلگرامی نے دور نبویؐ کے شعراء کی ایک سو اُنہتر(۱۶۹) اور شاعراتِ عہد نبویؐ کی کل تعدادبارہ( ۱۲ )بتائی ہے(دیکھیے:’’ خزانہ عامرہ‘‘ از:غلام علی آزاد بلگرامی، ص: ۴)۔قبیلہ بنو نجار کی انصاری بچیوں کی وہ نعت(طلع البدر علینا…)،جو انہوںنے مدینہ میں مبارک آمد پر گائی تھی، عربی کی نعتیہ شاعری میں ایک خاص مقام رکھتی ہے۔
دُنیائے نعت کے سابق ِ اوّل آپؐ کے محترم چچا جناب ابوطالب ہیں، جنہوں نے نبی کریمؐ کی شانِ اقدس میں کئی نعتیہ قصیدے کہے ہیں۔ اُن کے ایک نعتیہ قصیدے کے سات اشعار ابنِ ہشام نے اپنی کتاب’’ سیرت ابن ہشام‘‘ میں نقل کئے ہیں، جس میں آپ ؐکے قبیلہ بنو ہاشم کی دوسرے قبائلِ قریش پر برتری بتلائی ہے، لیکن عربی کی نعتیہ شاعری میں طبقہ نسواں کا حصہ قلیل ہے۔ یہی حالت ایرانی اور ہندوستانی شاعری کی ہے۔ چنانچہ شاعرات نےعربی ، فارسی،اُردو اور دیگر زبانوں میں حمد و نعت نگاری کے کارِ خیر میں کم ہی حصہ لیا ہےاور جہاں تک حمدیہ و نعتیہ ادب کے تحقیقی و تنقیدی پہلو کا تعلق ہے، اس کی طرف خواتین اسکالرز کی توجہ شعروسخن کے مقابلے میں بالکل ہی کم رہی ہے۔
جہاں تک اردو زبان میں شاعرات کی حمدونعت نگاری کا معاملہ ہے،گزشتہ صدی کے نصف آخر میں اُردو میںحمدیہ و نعتیہ ادب کا رجحان متعارف ہونے کے ساتھ ہی بعض خواتین تخلیق کاروں نے اپنی صحت مند سوچ کا ثبوت دیتے ہوئے حمد و نعت نگاری کی اصناف میں طبع آزمائی کو اپنا شعار بنایا۔ ان خواتین شاعرات نے جذبۂ صادق اور عشقِ رسولؐ سے سرشار ہوکرحمد و نعت گوئی اختیارکی۔ ان کے کلام میں پاکیزہ جذبات کی فراوانی بھی ہے اور سخنوری کے مناظر بھی۔ان میں علم و دانش کے خزانے بھی ہیں اورصالح فکر کی گہرائی بھی۔ایک اور خاص پہلو جو اُن میں نظر آتا ہے، وہ ہے، حضورؐ کے اسوۂ حسنہ کی روشنی میں انسانی زندگی کے مسائل حل کرنے کی سعی و جستجو،جو کہ ایک نہایت مستحسن رجحان ہے۔
باریک بینی سے جائزہ لیں تو اُردو میں حمدیہ و نعتیہ ادب سے شغف رکھنے والی خواتین کو ہم تین طرح کے زمروں میں رکھ کر سکتے ہیں۔ ایک وہ جنہوں نے دیگر اصناف کے ساتھ حمدیہ و نعتیہ اشعار کہے۔ دوسری وہ شاعرات، جنھوں نے حمدیہ ونعتیہ مجموعے ترتیب دے کر منظر عام پر لائےاور تیسری قسم اُن خواتین قلمکاروں پر مشتمل ہے،جنہوں نے حمدونعت کے انتقادی اور تحقیقی پہلو پر توجہ دی ۔ پہلی صف میں اختر محل اختر‘ زاہدہ خاتون شیروانیہ‘ انوری بیگم‘ انیسہ ہارون شیروانی‘ سیدہ سردار بیگم اختر‘ مبارزالنساء‘ اک بدایونی‘ سردار انوری بیگم‘ خورشید آرا بیگم‘ قمر جہاں‘ مخفی بدایونی‘ محجوب سیتاپوری‘ نورالصباح نور‘ ادا جعفری‘ پروین شاکر‘ شاہدہ حسن، [ وادی ٔ کشمیر سے زینب بی بی محجوبؔ ، رخسانہ جبین، نسرین نقاش، نکہت نظر وغیرہ]، شہناز نور‘ فاطمہ حسن‘ گلنار آفریں‘ وضاحت نسیم‘ رضیہ سبحان‘ شاہدہ لطیف اور عہد ِحاضر کی درجنوں دیگرشاعرات شامل ہیں،جن کے نام لینا یہاں پرممکن نہیں۔دوسرے زمرے میں تہنیت النساء بیگم،زیب عثمانیہ ،سکندر حیا بریلوی ،عائشہ امۃ اللہ تسنیم ،مسرت جہاں نوری ،وحیدہ نسیم ،رابعہ نہاں ،مسعودہ خانم ،پروین جاوید،پروفیسر ریحانہ تبسم فاضلی،قمر سلطانہ سید، نصرت عبدالرشید،نورجہاں نور بنت ِ عرب،نورین طلعت عروبہ ،حجاب عباسی ، حمیرا راحت، زیب النساء زیبی،شہناز مزمل،ثروت سلطانہ ثروت اورسحر علی کے ساتھ ساتھ متعدد دیگر نعت گو شاعرات شامل ہیں،جنہوں نے حمدونعت نگاری میں اپنے فکروفن کے جوہر دکھائے ہیںاور عقیدت کے پھول نچھاور کئے ہیں۔
ذکر تیسرے زمرے کا ذکر کریں،تو یہ بات بلا خوفِ تردید کہی جاسکتی ہے کہ طبقہ نسواں نے ہر زبان کی طرح اُردو میں بھی نعت سے متعلق تنقید و تحقیق کے بارے میں بہت کم لکھا ہے۔اگرچہ نعتیہ شاعری میں اعلیٰ مقام پانے والیوں اور نعت کہنے والیوں کی تعدادبھی بہت کم ہے، جو انگلیاں پر گنی جاسکتی ہے،لیکن نعت پر تنقید و تحقیق کے میدان میں خواتین کی تعداد اور بھی بہت کم ہے۔لے دے کے چند قدآور نسوانی ہستیوں نے علاقائی نعت پر تھوڑا بہت لکھا ہے، جن کی تعداد نہایت قلیل ہے۔
اس کسمپرسی کے عالم میں ڈاکٹر شاہدہ پروین شاہینؔ کا نعتیہ شاعری کی تحقیق و تنقید کے میدان میں قدم رکھنا ایک قابلِ تحسین عمل ہے۔ موصوفہ کے تحقیقی مقالے کا عنوان ’’اُردو کی نعتیہ شاعری کا تحقیقی و تنقیدی مطالعہ‘‘ ہے،جس میں انہوں نے تحقیق و تنقید کا حق ادا کردیا ہے۔موصوفہ نے زیرِ بحث مقالہ کے ذریعے آپؐ کی سیرت سے متعلق تفاصیل اس طرح رقم کی ہیں کہ اگر کوئی آپؐ کی سوانح حیات مبارکہ کی معلومات حاصل کرنا چاہے تو وہ بہ آسانی اس کتاب کی ورق گردانی کر کے حاصل کرسکے گا۔ نعتوں میں آپؐ کی حیات طیبہ کے اکثر واقعات تاریخ اور دن کے تعین کے ساتھ کتاب میں نقل کئے گئے ہیں۔ نعت گو شعراء نے آپؐ کی بعثت، کتب سابقہ میں آپؐ کی بشارتیں، خاندانی شرف، انبیائے سابقہ پر آپؐ کی فضیلت و برتری، آپؐ کی ولادتِ باسعادت،یتیمی، رضا عت ، آپؐ کی بعثت تک کے مفصل احوال و کوائف، اعلانِ نبوت، آپؐ کی خطابت، آپؐ کی فصاحت و بلاغت، محبت، اعلیٰ اخلاق، اوصافِ حسنہ، خصائلِ حمیدہ، قریش کی جانب سے مادی ترغیبات، آپ ؐکے خلاف اہلِ مکہ کا معاہدہ، شعب ابی طالب میں آپؐ کی محصوری، سفر طائف، ازدواجی تعلقات، گھریلو زندگی، تجارتی زندگی، آپسی لین دین، آپؐ کی امانت داری، آپؐ کی ہجرت، ہجرت کے متعلق مفصل جزئیات، مدینے میں آپؐ کے داخلے کی شان، غزوات و سرایہ، دیگر اقوام سے معاہدے، غزوات میں منظر نگاری، جذبات نگاری اور مرقع نگاری کے ذریعے آپؐ کی شخصیت کے اہم پہلوئوں کی توضیح، آپؐ کے اخلاق و عادات، آپؐ کی سرشت، شرافت، نجابت، سخاوت و کرم، رحم و عطا، شفقت، تعلق باللہ، پاس و مروت، تواضع و انکساری، عدل و انصاف، صداقت و مستقل مزاجی، شجاعت و جذالت، خوش روئی، غریبوں سے محبت، آپؐ کا حسنِ جمال، آپؐ کا سینۂ مبارک، آپؐ کی مہرِ نبوت، آپؐ کا گفتار و رفتار، آپ ؐکا اندازِ تبسم، آپؐ کی وضع و قطع، آپؐ کی ہیئت ِجسمانی، آپؐ کے رخسار، گیسو، آپؐ کا قدِ دلجو، آپ کی نگاہِ لطف و کرم، آپؐ کے سفید بالوں کی تعداد، آپؐ کے مغازی اورسرایا، الغرض آپؐ کے متعلق ہر شئے کا جزئیات نگاری کے ساتھ تذکرہ کیا ہے،جس سے نعوت میں سیرت پاکؐ کے نقوش در آئے ہیں۔
کتاب میں محترمہ ڈاکٹر شاہدہ پروین شاہین نے اُردو کی نعتیہ شاعری کی افادیت پر جو کچھ بھی حوالۂ قرطاس کیا ہے، وہ لائقِ ستائش ہے۔ موصوفہ کا تحقیقی مطالعہ بہت حد تک قابلِ توجہ اور لائقِ تحسین ہے۔ نیز نعتیہ ادب کے بہت سے مسدود ابواب کو وا کرنے میں ممد و معاون ہے۔
کتاب کو سات ابواب میں تقسیم کیا گیا ہے۔پہلے باب کا عنوان’’نعت کا تعارف‘‘ ہے۔اس میں نعت کا مفہوم،اس کے مآخذ، اجزائے ترکیبی،آداب و اسالیب اورمضامین پر سیر حاصل گفتگو کی گئی ہے۔باب دوم میں’’اُردو کی نعتیہ شاعری کے بنیادی مآخذ‘‘ کے زیر عنوان ماقبل اسلام کی کتابوں میں نعتیہ عناصر کی نشاندہی،عربی کی نعتیہ شاعری کا تحقیقی جائزہ،دورِ نبویؐ اور بعد کی نعتیہ شاعری،عربی کےہندوستانی شعرائے نعت اور فارسی ادب میں نعت گوئی جیسے ذیلی عنوانات کے تحت گراں مایہ تحقیقی سرمایہ کو کتاب کی زینت بنایا گیا ہے۔باب سوم کا عنوان ہے’’اردو کے دبستانِ دکن کی نعتیہ شاعری کا تحقیقی و تنقیدی مطالعہ‘‘۔اس باب میں صوفیائے کرام سے لیکرولیؔ دکنی اور جلیل مانک پوری تک کے متعدد شعراء کی نعتیہ خدمات کا تحقیقی جائزہ پیش کیا گیا ہے۔
کتاب کا چوتھا باب نہایت اہم ہے،جس میں ’’شمالی ہند کی نعتیہ شاعری کا تحقیقی و تنقیدی مطالعہ‘‘کے عنوان کے تحت ملا دائود(مثنوی’چندائن‘ میں اوّلین نعتیہ نمونہ پیش کرنے والے شاعر)سے لیکر بیکلؔ اتساہی اور زیب غوری تک کے درجنوں نعت گو شعراء کی نعت گوئی کا تحقیقی و تنقیدی جائزہ پیش کیا گیا ہے۔باب پنجم ہندو شعراء کی خدمات سے متعلق ہے۔ ہندو شعراء کے سرمایہ نعت کو محمد دین فوق نے ’’اذانِ بت کدہ‘‘ میں، فانی مرادآبادی نے ’’ہندو شعراء کے نعتیہ کلام‘‘ میں اور محمد محفوظ الرحمٰن نے ’’ہندو شعراء دربارِ رسولؐ میں‘‘ میں یکجا کیا ہے، لیکن یہ تینوں مرقومہ بالا تالیفات کمیاب ہونے کے باعث عوام ،بلکہ بہت حد خواص کی دسترس سے بھی باہر ہیں۔ علاوہ بریں ان تالیفات میں شعراء کے کلام کی یکجائی میں کسی ترتیب کا لحاظ نہیں رکھا گیا، جس کی وجہ سے قارئین اور ثناورانِ بحرِ نعت کو کسی مخصوص شاعرکے کلام کی تلاش میں کافی ورق گردانی کرنی پڑتی ہے۔ کتاب کے پانچویں باب زیر عنوان ’’اُردو کی نعتیہ شاعری میں ہندوئوں کا حصّہ‘‘میں ۲۵ ہندو نعت گو شعراء کا تفصیلی مطالعہ پیش کیا گیا ہے، جس سے ان کی نعتیہ خدمات واضح انداز میں سامنے آئی ہیں۔کتاب کے چھٹے باب زیر عنوان:’’ نعت کا فنی و معنوی تجزیہ‘‘ کو بھی اس لحاظ سے اہم قرار دیا جاسکتا ہے کہ اس میں نعت گوئی کے فن کے حوالے سے بعض حساس موضوعات کا انتخاب کیا ہے۔نعت کا تعلق موضوع و مفہوم سے ہے۔ ہیئت و ساخت کے اعتبار سے اس کی کوئی شکل متعین نہیں ہے۔ نعت کا تعلق ذاتِ نبویؐ، صفاتِ نبوی اور متعلقات و منسلکاتِ نبویؐ سے ہے۔ چنانچہ یہ شعر و شاعری کسی بھی ہیئت میں کہی جاسکتی ہے۔ اسی لیے ہر دور کا نعتیہ ادب اُس دور کی جملہ مروجہ اشکال وہیٔات میں ملتا ہے۔ اُردو شاعری میں جتنی ہیٔات و اشکال رائج ہیں، نعتیہ عناصر اُن سب میں موجود ہیں۔اس کا مفصل جائزہ مصنفہ نےکتاب کے چھٹے باب میں لیا ہے۔کتاب کاساتواں اور آخری باب’’نعت کی اہمیت و افادیت اور اُردو ادب میں اس کا مقام‘‘کے عنوان سے شاملِ کتاب ہے۔اس میں بھی کئی اہم مسائل کو زیر بحث لایا گیا ہے۔
ڈاکٹر صاحبہ نے اپنے اس مقالے میں واضح کیا ہے کہ نعتیہ شاعری میں حضور اقدسؐ کی مکمل سوانح حیات موجود ہے۔ آپؐ کا مکمل شجرئہ نسب اور آپؐ کے جملہ اسماء مبارکہ کا بیان ہے۔ موصوفہ نے بہت ساری نعتوں کے متعلق اظہارِ خیال کرنے کے بعد واضح کیا ہے کہ اگر کوئی شخص صرف نعتیہ شاعری کی بنیاد پر آپؐ کی مکمل سوانح حیات مرتب کرنا چاہے تو یہ کام بخوبی کرسکتا ہے۔ہر دور کا نعتیہ ادب اپنے دور کی آواز ہے۔ ڈاکٹر شاہدہ پروین شاہین نے نظریات کے ابطال و تعمیر میں ایمان بالغیب سے انحراف کیا ہے۔ جو کچھ کہا گیا ہے تحقیق کی کسوٹی پر پرکھ لینے اور اچھی طرح اطمینان کرلینے کے بعد کہا گیا ہے، یہ اس مقالے کی بڑی خوبی ہے۔جہاں تک کتاب میں مستعمل لفظیات کا تعلق ہے،وہ سادہ،سہل اور عام فہم ہیں۔تتبع اضافات جہاں کہیں بھی ہے،وہ فصاحت میں مخل ہونے کے بجائےازدادِ حسن اور دلکشی کا باعث بنا ہوا ہے۔ تراکیب بالعموم وہی استعمال کی ہیں،جو زبان زدِ خاص و عام ہیں۔نامانوس تراکیب کے استعمال سے بالعموم گریز کیا گیا ہے۔صنائع وبدائع کا استعمال فطری ہے اور ادائے مطالب میں ممد و معاون ہے۔
اگرچہ یہ ایک مسلمہ حقیقت ہے کہ نعت پر جتنا کام اس صدی میں ہوا ہے، اُتنا ماقبل کی کسی صدی میں نہیں ہوا، لیکن افسوس کے ساتھ اس حقیقت کا اظہار کیا جارہا ہے کہ نعتیہ ادب کے ضمن میں تحقیقی تگ و دوکے باب میں طبقہ نسواں کا حصہ دال میں نمک کے برابر ہے۔ ان حالات میں ڈاکٹر شاہدہ پروین شاہین کی موضوعِ بحث کتاب کافی اہم ہے، جس کے لیے لائق محققہ و ناقدہ لائقِ صد ستائش ہیں۔
(مضمون نگار ’الحیاۃ‘ اور ’جہانِ حمدونعت‘کے مدیر ہیں)
[email protected]