پروفیسرمحمد اسداللہ وانی
جموں یونیورسٹی سے ایم اے اردو کرنے اور’جموں وکشمیر میں اردو افسانہ ‘پر مقالہ لکھنے کے باوجودمیں۱۹۷۳ء تک موتی لال ساقی کے نام اور کام سے قطعاً نابلد تھا۔بھلا ہو اُس طالب علم کا جس کی وجہ سے میںنے پہلی بار موتی لال ساقی کانام پڑھا اوراُن کی کسی تخلیق کامطالعہ بھی کیا ۔ہوا یوں کہ جب میں گورنمنٹ رنبیر ہائر سکنڈری سکول جموں میں تعینات تھا تب سردیوں کے ایام میں میری کلاس میں دو تین مہینوں کے لیے کشمیر کاایک لڑکاعارضیcasual طالب علم کے طورپرآتا تھا۔ اس کا نام تو مجھے یاد نہیں البتہ اس کے سرپرست احمداللہ شاہ کلچرل اکیڈیمی کے مرکزی دفتر میںانڈر سیکریٹری تھے۔ایک دن اُس طالب علم نے مجھے شاہ صاحب کی بھیجی ہوئی اردو اورکشمیری کی کچھ کتابیں پیش کیں جن کی وساطت سے میں غائبانہ طور پر موتی لال ساقی سے متعارف ہوا۔
موتی لال ساقی کو میں نے جون ۱۹۷۵ء میںپہلی بار اُس دن دیکھا جب میں نے کلچرل اکیڈیمی میں ریسرچ اسسٹنٹ اردو کی حیثیت سے جوائن کیااورمرکزی دفتر نے مجھے ڈکشنری پروجیکٹ کے ساتھ وابستہ کیا۔میںاُن دنوں بڑا جھینپواورشرمیلا تھا اس لیے ڈکشنری پروجیکٹ کے عملہ کے ساتھ بے تکلّف ہونے میں کافی وقت لگا۔ اگر یوں کہا جائے تو بے جا نہ ہوگا کہ کلچرل اکیڈیمی جوائن کرنے کے بعد بہت سے دن توبس یونہی گزرگئے ۔ایک دن ڈکشنری پروجیکٹ کے ایک رکن نے مجھ سے سوال کیا ، کیاآپ کشمیری رسم الخط جانتے ہو ؟ میرا جواب نفی میں سن کرپروجیکٹ کے تمام ارکان کے چہروں پرایک معنی خیزتاثرپیداہوااورمجھے اپنی نااہلی پر بڑا تاسف ہوا۔سوال پوچھنے والے کے تاثر سے تو مجھے یہ لگا کہ جیسے کہہ رہا ہو ’ بیٹا ڈکشنری پروجیکٹ میںکا م کرناخالہ جی گھر نہیں ہے‘ ۔میں اگرچہ کلچرل اکیڈیمی میںریسرچ اسسٹنٹ اردو تعینات ہواتھا مگر ڈکشنری پروجیکٹ تو کشمیری کشمیری اور اردو کشمیری لغات کاتھا جس کے لئے کشمیر ی زبان کا جاننا بہت ضروری تھا۔کشمیری میری مادری زبان ضرور تھی مگر میں نے اس میں لکھائی پڑھائی توکچھ نہیں کی تھی۔چنانچہ میں ایک ہارے ہوئے جواری کی طرح بے بسی کے عالم میںجونہی کشمیری میں شائع ہوئی کتابوں سے رسم الخط ذہن نشین کرنے کی کوشش کرنے لگاہی تھاکہ ۱۵؍ جولائی ۱۹۷۵ء کو سیکریٹری اکیڈیمی اختر محی الدّین مرحوم نے اچانک میراتبادلہ مرکزی دفترمیں کردیا تاکہ کلچرل اکیڈیمی کی جانب سے شائع ہونے والے پندرہ روزہ خبر نامہ’اکادمی‘ کی ترتیب وتدوین کا کام انجا م دیاجا سکے۔ آرڈر میںیہ بھی لکھا تھاکہ میں حاضری مرکزی دفتر میںلگا کر خبر نامہ کی ادارت کا کام ڈکشنری پروجیکٹ میں بیٹھ کر انجا م دوں ۔ یوں اس حکم کی رو سے مجھے ڈکشنری پروجیکٹ کے کارکنان کی صحبت بدستور میسر رہی۔جب مجھے خبرنامہ’اکادمی‘ کی ترتیب وتدوین کے سلسلے میںڈکشنری پروجیکٹ میںبیٹھ کر کام کرنے کا موقع میسر ہواتو پروجیکٹ کے دوسرے کارکناں سمیت موتی لال ساقی کے ساتھ بھی میری بالمشافہہ ملاقاتیں ہوئیں اور پھران ملا قاتوں کا یہ سلسلہ آخر تک ایسا بر قرار رہا کہ ہر ملاقات پہلی سے زیادہ بامعنی ،پُراثر،معلومات افزااور خنک آمیز شیریں ہوتی تھی۔
ڈکشنری پروجیکٹ کے سربراہ پروفیسرایس کے توشخانی سے لے کر محمد یوسف چپراسی تک ہر فرد اپنی ایک الگ دُنیا رکھتا تھااور ایک سے بڑھ کر ایک تھا۔موتی لال ساقی،چمن لال چمن،رسل پونپر،محمد احسن احسن،بشیر اختر،بدری ناتھ کلااور عبدالغنی ندیم سب شاعر اور ادیب تھے۔ ولی محمد میر اورمحمد یوسف مسکین ادب شناس اوربہترین خطاط تھے ۔ محمد یوسف چپراسی اگرچہ غربت وافلاس کا ماراتھا مگر تھا بڑا جہاندیدہ شخص ۔شاعروں،ادیبوں ،فن کاروں اورادب نوازوں کے اس طائفہ میں مسعود ساموں اور میری باریابی یاہمارااندراج اکیڈیمی کی تاریخ میں بہت ہی چونکا دینے والا تھا ۔ بہر کیف مسعودساموںتو کچھ مدت کے بعدکشمیر یونیورسٹی چلے گئے اور میں رفتہ رفتہ اکیڈیمی کے کارکنان کے ساتھ گھل مل گیا۔
کلچرل اکیڈیمی میں سیکریٹری سے لے کر چوکیدار اور صفائی والے تک ہر کسی کے ساتھ میرے دوطرفہ روابط اچھے تھے ۔آج جب میں اپنی عمررفتہ پر ایک سرسری سی نگاہ بھی ڈالتا ہوں تو کلچرل اکیڈیمی میں گزارے ایام میری زندگی کا بیش قیمت سرمایہ معلوم ہوتے ہیں ۔ میںنے کلچرل اکیڈیمی کی ملازمت کے دوران یوں تو ہر ایک سے کچھ نہ کچھ فیض پایا ہے مگردو افراد کی صحبت نے مجھ جیسے مسِ خام کو کندن بننے کی صلاحیت اورجلا بخشی ہے۔ان میں سے پہلا نام پدم شری موتی لال ساقی کا ہے جن کی رہبری،رہنمائی اور وقتاً فوقتاًمفید اور کار آمد مشوروںنے مجھے جادۂ ادب کا راہ رو بنایا۔دوسرا نام پدم شری محمد یوسف ٹینگ کا ہے جن کے تفویض کردہChallanges سے بھر پورکام خوش اسلوبی سے انجام دے کر نہ صرف اُن سے شاباشی اور آفرین بٹوری ہے بلکہ اپنے اندر بڑے سے بڑاChallange قبولنے کا حوصلہ بھی پیدا ہوا۔ ایسے چیلینجزسے جوجھنے ،نبرد آزماہونے اور اُن میں کھراثابت ہونے کے عوض انہوں نے مجھے ’مردِشریف‘ کے خطاب سے نوازاہے ۔ٹینگ صاحب کا مجھ ناچیز پراس حدتک اعتماد اور اعتبار کرنے کے لیے میں اللہ کے بعد اُن کا سرتاپااحسان مند ہوں۔ ؎
ایں سعادت بزورِ بازو نیست تانہ بخشدخدائے بخشندہ
جہاں تک موتی لال ساقی کا تعلق ہے وہ کشمیرکی ایک عبقری اور نابغۂ روزگارشخصیت رہی ہے ۔ انہیں اردو، انگریزی اور کشمیری تینوںزبانوں پر نہ صرف یکساں دسترس تھی بلکہ انہیں اِن زبانوں کے ادب پر کامل دستگاہ بھی تھی۔وہ ۱۹۳۶ء میںبڈ یار بالاکشمیر میں پیدا ہوئے ۔انہوں نے بعد میں مہنور ماگام میں مستقل سکونت اختیار کی۔ابتدائی تعلیم کے بعد انہوں نے محکمہ دیہات سدھار میں گرام سیوک کی خدمات انجام دیں۔ اس کے بعد وہ ریڈیو کشمیرسر ی نگر میں ملازم ہوگئے جہاںوہ ایک عرصہ تک’ دیہاتی بھائیوں کے لیے‘ ایک معلوماتی پروگرام پیش کرتے رہے ۔پھروہ ریاستی کلچرل اکیڈیمی کے ساتھ مستقل طور پر وابستہ ہوگئے ۔کشمیر میں جنگ جویانہ سرگرمیوں کے نتیجہ میں انہوں نے ۱۹۹۰ء میںکشمیر سے ہجرت کی اور گڑھی ادہم پور میں عارضی سکونت اختیار کی۔دل کا عارضہ لاحق ہونے کی وجہ سے وہ علاج معالجہ کے لیے دہلی چلے گئے جہاں۲۱؍مئی ۱۹۹۹ء کوانہوں نے سروجنی نگر نئی دہلی میں اپنے بڑے فرزند وجے ساقی کے مسکن پر رحلت فرمائی۔
موتی لال ساقی بنیادی طور پر ایک شاعر تھے مگر انہوں نے کشمیری نثر میں بھی قابلِ ذکرتحقیقی او ر تنقیدی کام کیا ہے ۔ جہاں تک اُن کی شاعری کا تعلق ہے ’مودری خواب‘اُن کے عہد ِ شباب کاپہلا شعری مجموعہ ہے۔ ’من سر‘اُن کی ایک اور کتاب ہے جس پر انہیں ساہتیہ اکادمی ایوارڈدیا گیا۔اُن کی دوسری تخلیقات میں’ مر گ و ن‘،’مر ثی‘’نیری نغمہ ‘اور’آگر نیب’ کافی اہمیت کی حامل ہیں۔تحقیق اور تنقید کے سلسلے میںحضرت شیخ نورالدّین نورانیؒ،صمدمیر‘،’ گاشر، ‘’آزادہندی نغمہ، ‘’کاشر لکہ باتھ(۵جلدیں)،’کشمیر تاریخ وتمدّن‘کلیاتِ شیخ العالم(۲ جلدیں)کتابوںکے علاوہ اردو ، کشمیری اورانگریزی میں متعدّد معلوماتی اور فکر انگیز مضامین تحریرکیے ہیں ۔ انہوں نے ریڈیائی ڈرامے بھی لکھے ہیں ۔
موتی لال ساقی اردو کشمیری اور کشمیری کشمیری کی مکمل لغات کے علاوہ انسائیکلوپیڈیا آف کشمیریانا کی تین جلدوں کی ترتیب اور تدوین کے اراکین میں سے بھی ایک اہم رکن رہے ہیں۔انہیں مجموعی طور پراردو زبان و ادب کی خدمات کے لیے پدم شری ایوارڈ سے نوازا گیا ہے۔
موتی لال ساقی کے ساتھ میرے گہرے روابط تھے۔کلچرل اکیڈیمی میں اپنی ملازمت کے دوران اور اس کے بعد بھی میرا جواُن کے ساتھ تعلق خاطر رہااُس کے پیش نظرمیں یہ بات پورے وثوق کے ساتھ کہہ سکتا ہوں کہ علم وآگہی کے اعتبار سے کلچرل اکیڈیمی میں اُن کا کوئی ہم سر نہ تھا ۔میں جو کبھی شرمیلا اور جھینپو تھاکلچرل اکیڈیمی کے ماحول میں موتی لال ساقی جیسے افراد کے ساتھ چھ سال تک شب وروز مسلسل کام کرتے ہوئے علم وادب کی انگیٹھی میں تپ کراس قدر حوصلہ مند ہوگیا تھاکہ ادب کی تمام جہات میں موتی لال ساقی کی اہلیت اورتفوّق دیکھ کر میں اُنہیں از راہِ مذاق ’ادبی بقال‘ کہتا تھا۔اگر کبھی کبھارمعاملات اور مسائل سے متعلق اردو، انگریزی اور کشمیری زبان میں کسی موضوع پر کچھ برجستہ لکھنا ہوتا تو ساقی صاحب کاغذ اورپین لے کربیٹھ جاتے اور تھوڑے سے وقفہ کے بعدایک جامع دستاویزایسے پیش کردیتے جیسے عمرِعیارکسی ضرورت مندکو اپنی زنبیل سے اُس کی مطلوبہ شے نکال کردیا کرتے تھے ۔درحقیقت اس مقام کے حصول کے لیے انہوں نے دیہات سدھار ،ریڈیو اور کلچرل اکیڈیمی کے علاوہ مختلف ادبی تنظیموں ،دور در شن ، اخبارات اوررسائل کے ساتھ وابستہ ہوکرادب کی تخلیق میں اپنی عمر کا ایک حصّہ کھپادیا تھا۔اگر یہ کہا جائے تو بے جا نہ ہوگا کہ جس طرح عقیق سینکڑوں بار ترشنے کے بعد نگینہ کی صورت اختیار کرتا ہے اُسی طرح ساقی بھی مسلسل محنت کرنے کے بعد شعروادب میں شہرت اور نام وری کا سزاوار ہوا ؎
نامی کوئی بغیر مشقّت نہیں ہوا سو بار جب عقیق کٹاتب نگیں ہوا
موتی لال ساقی کے مجھ پر بڑے احسانات ہیں ۔انہوں نے مجھے کچھ نہ بتاتے ہوئے بھی بہت کچھ بتا یااورکچھ نہ سکھاتے ہوئے بھی کافی کچھ سکھایاہے ۔جیسے عطّار کی دکان پر ہمیشہ بیٹھنے والاشخص عطر کا پنبہ لگائے بغیر ہی عطر میںبسا ہوا معلوم ہوتا ہے اُسی طرح میں نے بھی اس ’ادبی بقال ‘کی صحبت میںزبان وادب کے کئی اسرارورموز سیکھے ہیں ۔ (جاری)
رابطہ:۔علامہ اقبال لین نوآباد سنجوا روڑ جموں 9419194261