نوجوان نسل میں ولاگنگ کا جنون!

Mir Ajaz
13 Min Read

سید مصطفیٰ احمد ۔حاجی باغ، بڈگام

یہ ایک تسلیم شدہ حقیقت ہے کہ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ تبدیلیاں آتی رہتی ہیں۔ عام طور پر ہر نئی شئے اپنے ساتھ اچھائی اوربُرائی دونوں عناصر ساتھ لاتی ہے۔ لیکن جو بات سب سے زیادہ اہم ہے، وہ یہ کہ کیسے کوئی شئے ایک قوم پر اثرات مرتب کرتی ہے، اسی تناظر میں ہم انٹرنیٹ کو بھی دیکھ سکتے ہیں۔ ہندوستان میں انٹرنیٹ کی شروعات لگ بھگ 1985 کے آس پاس ہوئی تھی۔ پہلے انٹرنیٹ کچھ لوگوں تک محدود تھا۔ اس کے متعلق لوگوں کے پاس کم جانکاری تھی لیکن پھر زمانے اور انسانی ذہن کی پختگی نے زندگی کے اور شعبوں کی طرح انٹرنیٹ کی دنیا میں بھی ایسا انقلاب برپا ہوا کہ اب صرف ایک بٹن کے دباتے ہی ساری کی ساری دنیا آنکھوں کے سامنے گھومنے لگتی ہے اور انسان کو جس چیز کی تلاش ہوتی ہے، وہ چندسیکنڈ میں میسر ہوتی ہے۔ اسی کے ساتھ سوشل میڈیا کی دنیا سے بھی ہم متعارف ہونے لگے۔ سماجی روابط کے علاوہ سوشل میڈیا نے ہماری معاشی دنیا کے ساتھ ساتھ تعلیمی دنیا کو بھی کافی حد تک متاثر کرنا شروع کر دیا۔ دنیا ہر گزرتے دن کے ساتھ سکڑنے لگی ،لیکن اس ایجاد نے اپنے ساتھ تباہیوں کے زہریلے کیڑے ساتھ لائیں کہ کسی بھی قسم کی دوائی کارآمد ثابت نہیں ہورہی ہے۔ اخلاقیات کا جنازہ اس وقت کی اُٹھ گیا تھا جب نابالغوں اور اَن پڑھ لوگ کے ہاتھوں میں انٹرنیٹ اور اس سے منسلک دوسری چیزیں ان کے ہاتھوں تھامی گئی تھیں۔ ایک نابالغ اور وہ انسان جو نئے زمانے کی باریکیوں سے ناآشنا ہیں ،وہ کیسے ہر چیز کو filter کے کٹھن مراحل سے گزارے گا تاکہ سچ اپنی اصلی حالت میں دکھائی دیں۔ اسی طوفان بدتمیزی میں اور خرافات کے ساتھ ساتھ ایک نئی خرافات نے جنم لیا ،جس کو ہم ولاگنگ کے نام سے جانتے ہیں۔ جو حضرات پروفیشنل ولاگنگ کرتے ہیں، ان کے لئے یہ آمدنی کا ایک معقول ذریعہ ہے ۔لیکن افسوس ان لوگوں پر، خاص کر ان نوجوانوں پر، جو اپنا قیمتی وقت اور سرمایہ اس فضول کام میں لگاتے ہیں جو آگے چل کر ان کی زندگیوں کو تباہی کی طرف لے جاتاہے۔ انٹرنیٹ پر دستیاب مواد کا جب میں نے مطالعہ شروع کیا تو وہاں پر دلچسپ معلومات فراہم ہوئیں۔ ایک پروفیشنل ولاگر ایک ولاگ کے ذریعے سے لاکھوں پیسے کماتا ہے۔یہ اس ولاگر کی کمائی کا معقول ذریعہ ہے۔ اس کے برعکس ان نوجوانوں کو ایسی کونسی مجبوری یا مجبوریاں آن پڑی ہیں کہ وہ اپنی تعلیم کو چھوڑ کر ولاگنگ کی نازک اور اخلاقیات سے عاری دنیا میں آناً فاناً کود پڑیں۔ ایسے کونسے وجوہات در پیش آئیں جن کی وجہ سے نوجوانوں کے اعلیٰ صفات اذہان دربدری کی نظر ہونے لگے ہیں۔ ہمارے سماج میں بُرائیوں کی کونسی کمی تھی کہ اب ولاگنگ کا چسکہ نوجوانوں کو ایسے لگا گیا ہے کہ بیت الخلاء کی نجی باتیں بھی دوسروں کے ساتھ شیئر کرنے میں کوئی ہچکچاہٹ نہیں ہورہی ہیں۔ وہ کونسا بوم ہے جس کی بد دعا ہم سب کو اس طرح لگی کہ اُٹھنا، بیٹھنا، سونا، نہانا، وغیرہ جیسی نجی اور دوسروں سے عام طور پر چھپ کر کئے جانے والے بنیادی کام اب بازار کی رونق بن گئے ہیں۔ جو نوجوان ولاگنگ کرتے ہیں، ان کو ان کی کم عمری کی وجہ سے معاف کیا جاسکتا ہے۔ لیکن ان بے ضمیروں کا کیا جو بالغ اور دانا ہوکر بھی اخلاقیات کی دھجیاں اڑاتے ہیں۔ کچھ دنوں پہلے ہم نے کچھ نابالغ لڑکوں اور لڑکیوں کی نام نہاد ولاگنگ دیکھی تو حسرت بھرے لہجے میں کہنا پڑا کہ ان نابالغوں کا حال کے ساتھ ساتھ مستقبل بھی خطرے میں ہے۔ ان کی تباہیوں کے چرچے شروع ہوگئے ہیں مگر اب صرف اس دن کا انتظار ہے ،جس دن ان کی تباہی کا آنکھوں دیکھا حال سب کے سامنے ہوگا۔ اب اگر ہم بغور جائزہ لیں، تو کچھ محرکات ہیں جن کی وجہ سے نوجوان نسل میں ولاگنگ کی گندی لت رچ بس گئی ہے۔ کچھ محرکات کا مختصر ذکر نیچے آرہا ہے۔
پہلی وجہ ہے تعلیم کا گرتا ہوا معیار : ۔ تعلیم کا مقصد باشعور اور دانا شہری پیدا کرنا ہے۔ تعلیم انسان کی روح کی پاکیزگی کا ضامن ہے۔ اخلاقیات کا دامن ہاتھ سے نہ چھوڑنے کا نام تعلیم ہے۔ اس کے برعکس اگر ہم اس تعلیم پر نظر ڈالیں جو ہمارے یہاں دی جاتی ہے تو ایسی تعلیم کسی بھی لحاظ سے تعلیم کے زمرے میں نہیں آتی ہے۔ ہمارے یہاں تعلیم صرف مادیت کے محور کے اردگرد گھومتی ہے۔ طلباء سے جتنے پیسے بٹورے جاسکتے ہیں، اتنے کم ہیں۔ جعلی اسناد اور جعلی اساتذہ کے اس جنگل میں اگر نابالغ ولاگنگ کرنے والوں کی بھاری کھپت جنم نہ لے تو اور کس چیز کی ہم امید کرسکتے ہیں۔ جب دھوکہ دہی کا مادہ ہمارے نظام تعلیم میں کوٹ کوٹ کر بھرا ہو تو بیوقوفانہ حرکتوں کے علاوہ اس نظام تعلیم سے اور کسی چیز کی توقع کی جاسکتی ہے۔
دوسرا ہے بےروزگاری :۔ جب تیس سال سے اوپر جوان نوکریاں حاصل کرنے سے قاصر ہیں تو نوجوان طلبہ پہلے سے ہی اپنی روزی روٹی کی تلاش میں ہاتھ پاؤں مارنے لگتے ہیں اور اسی کشمکش میں ولاگنگ سے دو دو ہاتھ کرتے ہوئے بھی نظر آتے ہیں۔ جب ایک نوجوان طالب علم اپنے سے بڑوں پڑھے لکھے جوانوں کو روزگار کی خاطر دربدر کی ٹھوکریں کھاتے دیکھتا ہے اور بیک وقت وہ انٹرنیٹ پر پروفیشنل ولاگنگ کرنے والے چھوٹے بڑے لوگوں کو لاکھوں میں کمائی کرتے ہوئے پاتا ہے تو وہ بھی ان کی ہی رو میں بہنے لگتا ہے۔ جب دس سال کا نا فہم بچہ ایک ولاگ سے ایک لاکھ کی کمائی کرتا ہے تو کشمیر میں کاندھوں پر اُٹھائی ہوئی تاریخ اور فزیکس کی دماغ کھانے والے کتابوں کا کونسا فائدہ ہے! ایک سمارٹ فون، ایک اچھا سا کیمرہ اور چرب زبان جیسی بنیادی ضروریات ہیں جن کی بدولت ایک عام سا دِکھنے والا طالب علم اپنی ناتجربہ کاری کی بھرپور نمائش کرے گا۔ اس کے علاوہ لوگ بھی فلسفے اور تواریخ کے خشک اسباق سے تنگ آچکے ہیں اور اس اُکتاہٹ سے چھٹکارا پانے کے لئے وہ اب نا فہم بچوں کے رنگ میں ہی رنگ جاتے ہیں اور اپنا خوبصورت اور بالغ رنگ پھیکا کرکے بدصورت کی علامت ہوکر رہ جاتے ہیں۔
تیسرا ہے والدین کی لاپرواہی : ۔
آج کے بیشتر والدین مادیت کے پجاری بن گئے ہیں۔ ان کا اُٹھنا بیٹھنا صرف مادیت تک محدود ہے۔ ان کے پاس اتنا وقت ہی نہیں ہے کہ وہ اپنے اولاد کی فکر کرسکیں۔ دوسرے کو پچھاڑنے کی دوڑ میں ان کو صرف شاندار مکانات، رنگین عمارتیں، بھرے ہوئے بینک کھاتے، وغیرہ دکھائی دیتے ہیں۔ ان والدین کو اپنے اولاد بھی پیسے دکھائی دیتے ہیں۔ اس غیر ذمہ دارانہ رویے کی وجہ سے ان کی اولاد خرافات کے شکار ہوجاتے ہیں ،جس کی ایک مثال ولاگنگ ہے۔ ایک نابالغ بچہ یا بچی اپنے فون کے کس ڈھنگ سے استعمال کرتی ہے، والدین کی سب سے اہم ذمہ داری ہے لیکن اس کے برعکس اپنے اولاد کو نئی زمانے کی رنگینیوں سے روشناس کرانا اور دوسروں سے ایک قدم آگے رہنے کے جنون کی وجہ سے والدین اپنے اولاد کا استعارے طور پر گلا گھونٹ دیتے ہیں۔ اس طرح بچے میں بری عادات کے حامل شخصیات بننے میں زیادہ دیر نہیں لگتی ہے۔
چوتھا ہے ملی فقدان : ۔ ہم بحیثیت قوم ہار چکے ہیں، جس شعور کی بدولت قومیں پروان چڑھتی ہے، وہ شعور اب ہماری زندگیوں سے ناپید ہوچکا ہے۔ سماج کے ذی شعور انسان اب اصلاح کرنے کے عمل سے ہی نفرت کرنے لگے ہیں۔ پہلے زمانے میں نصیحت کی محفلیں سجا کرتی تھیں، جن میں بچوں کی اخلاقی اور شعوری تربیت ہوا کرتی تھیں۔ لیکن آج اس کے برعکس ہر کوئی انسان اپنی دنیا میں اتنا مگن ہے کہ اپنے اردگرد اگر کوئی مر رہا بھی رہا ہو، اس پر جُوں بھی نہیں رینگتی ہے۔ حالِ مست کی طرح ایک جعلی دنیا کے باشندے بن کر سماج کے داناؤں کی چُپ نے سماج کا حال بے حال کرکے رکھ دیا ہے۔ ہر کوئی اپنی من مانی پر بضد ہے، کوئی کسی اور کا سُننے کے لیے تیار ہی نہیں ہے۔ انسانی رویے اب خواب ہوتے جارہے ہیں، بے بسی کا جیسے کوئی حل ہی نہیں نکل پارہا ہے۔
یوٹیوبرس اور ولاگنگ کرنے والوں کی حوصلہ افزائی : ۔
ہم ہی توہے جنہوں نے بے ہودگی اور بداخلاقی کو اپنے سر پر بٹھا دیا ہے۔ اگر ہم نے وقت کی آواز پر لبیک کہا ہوتا تو نوبت یہاں تک نہ پہنچتی۔ نوجوان ہمارے ہاتھوں سے ریت کی طرح پھسلتے جارہے ہیں۔ ولاگنگ اور دوسرے اقسام کے جنون یا پھر وہ جادو جو سر چڑھ کر بولے کے مصداق، نے ہمارے نونہالوں کو اپنی لپیٹ میں اس طرح لے رکھا ہے کہ اب کوئی چارہ اور چارہ ساز دکھائی بھی نہیں دیتا ہے۔اس ولاگنگ کے نتائج تو ہمارے سامنے عیاں ہیں، انسانی شکل میں آہستہ آہستہ حیوان پل بڑھ رہے ہیں، گھریلو خوشیوں پر بھی نوجوان نسل کی بے راہ روی کی بُری چھاپ پڑنی شروع ہوگئی ہے، اس سے بڑھ کر پورا سماج اس کی لپیٹ میں آنا شروع ہوگیا ہے۔ تعلیم اب بچوں کے اذہان میں ایک رسمی بات بن کر رہ گئی ہے، ترقی کی آڑ میں تباہی ہمارا منہ چڑا رہی ہے، ہمارا مستقبل داؤ پر لگا ہوا ہے، بدتمیزی کے بھنور میں ہم سارے پھنس چکے ہیں۔
اس سے پہلے کہ پانی سر سے اوپر چلا جائے، حکومت اور سماج کے ذم دار اشخاص کو اس کام میں پہل کرنی چاہیے۔ جو نوجوان ولاگنگ کرتے ہیں ان کو سمجھا کر اس کام سے دور رکھا جائے۔ مفلوک الحال نوجوانوں کو یا تو روزگار کے دوسرے مواقع فراہم کرنے ہوںگے یا پھر کچھ مدت کے لئے ان کی مالی معاونت کرنی ہوگی تاکہ وہ اس حالت میں ہوں کہ اپنے پیروں پر کھڑا ہوسکیں۔ بیت المال اور دوسرے زکوٰۃ پر مبنی اداروں کو فعال بنانے کی اشد ضرورت ہے۔ اس سے بیشتر گناہوں کی جڑیں کاٹ دی جاسکتی ہیں۔ مزید برآں والدین کو بھی چاہئے کہ اپنی اولاد پر خاص نظر رکھیں۔ بے جا ڈانٹ ڈپٹ سے پرہیز کریں۔ وقت کی نزاکت کو دیکھ کر ان سے بات کریں اور جاتے جاتے یہ ہماری قومی ذمہ داری ہے کہ ہم اپنے نوجوانوں کو سیدھے راہ پر لانے کی حتی الامکان کوشش کریں تاکہ ہمارے اس خوبصورت چمن سے بےہودگی کی گھٹائیں دور ہو اور نوجوان نسل اپنی فکر کریں۔
[email protected]

Share This Article