بے شک ہمارے معاشرے میں بھی پچھلےپندرہ بیس سال کے درمیان ابلاغ کے ایسے ذرائع عام ہوئے ، جنہیں ’سوشل میڈیا ‘ کہا جاتا ہے ، اس کا امتیازی پہلو یہ ہے کہ ہمارے یہاں ابھی تک اس پر کسی خاص گروہ کی اجارہ داری نہیں ہے ، اس میں خاصا تنوع بھی ہے، جس میں واٹس اَپ ، فیس بک ، یوٹیوب ، ٹیوٹر ، اسکائپ وغیرہ شامل ہیں، لیکن یہ ایک بہتا ہوا سمندر ہے ، جس میں ہیرے اور موتی بھی ڈالے جاسکتے ہیں اور خس و خاشاک بھی، اس میں صاف شفاف پانی بھی اُنڈیلا جاسکتا ہے اور گندہ بدبودار فُضلہ بھی، اس سے دینی ، اخلاقی اور تعلیمی نقطۂ نظر سے مفید چیزیں بھی پہنچائی جاسکتی ہیں اور انسانی و اخلاقی اقدار کو تباہ کرنے والی چیزیں بھی۔ دوسری طرف اس کا اثر اتنا وسیع ہوچکا ہے اور زندگی کے مختلف شعبوں میں اس کا نفوذ اس درجے کا ہے کہ اسے نظر انداز بھی نہیں کیا جاسکتا اور گزرنے والے ہر دن کے ساتھ اس کی اہمیت بڑھتی جاتی ہے۔گویاایک ارتقائی عمل کے ساتھ جس طرح مختلف شعبوں میںہماری زندگی کی ترقی کا سفرآگے بڑھ رہا ہے،اُسی طرح ذرائع ابلاغ کے میدان میں بھی پوری قوت اور تیز گامی کے ساتھ جاری و ساری ہے ، بلکہ اس میدان میں ٹیکنالوجی کی ترقی دوسرے شعبہ ہائے زندگی کے مقابلے میں زیادہ تیز ہے ۔چنانچہ پرنٹ میڈیا اور الیکٹرانک میڈیا نے دُور دُور تک اپنی بات پہنچانے کو آسان کردیا ہےاور اس کی رفتار ہوا کی رفتار سے بھی بڑھ گئی ،لیکن افسوس کہ ہم ان تمام مرحلوں میں مسلسل پسماندگی کا شکار ہیں ، ہم ترقی کے قافلے کا سالار بننے کی بجائے اس قافلے میں شامل آخری فرد بھی نہ بن پائےہیں،بَس ہر معاملے کی طرح اس معاملے میں بھی گردِ کارواں بنناہی بڑی نعمت سمجھا ہے ، اس کا نتیجہ یہ ہوا کہ پرنٹ میڈیا اور الیکٹرانک میڈیا پر عالمی اعتبار سے ہم اتنے گئے گذرے ہیں کہ ہمارے معاشرتی مفادات ، تہذیبی اقدار ، اور دینی افکار کو حد درجہ نقصان سے دوچار ہونا پڑتا ہے۔لہٰذا ذرائع ابلاغ کے استعمال خواہ اس کا تعلق پرنٹ میڈیا سے ہو یا الیکڑانک میڈیا سے، اسی طرح سوشل میڈیا کے استعمال میں اس کے مثبت اور تعمیری پہلوؤں کو پیش نظر رکھنا انتہائی ضروری ہے،اور ایک ایسے وقت جب دنیا گلوبل ولیج کی شکل اختیار کرچکی ہےاور ذرائع ابلاغ کے مؤثر ذرائع دنیا بھر میں پیغام رسانی کے لیے عام ہوچکے ہیں، ان کے مثبت استعمال کے ذریعے جہاں ہم اقوام عالم میں اپنے جائز مفادات،تہذیبی اقدار اور اپنے دینی افکارکے تئیں مثبت اور مدلل انداز میں اپنی بات رکھ سکتے ہیںاور اُن کا کوئی بھی شک و شُبہ دور کرسکتے ہیں۔وہیں ہم تمام مسلمانوں خصوصاً معاشرے کی نوجوان نسل کو ابلاغ کے تمام ذرائع کے مثبت اور منفی پہلوئوں سے آگاہ کرسکتے ہیں۔اگرچہ کئی لوگوں نے خلوص اور بہتر جذبے کے ساتھ یہاں کے نوجوان نسل کو ذرائع ابلاغ اور سوشل میڈیا کے زیادہ استعمال سے روکنے کی کوشش کی لیکن بالاخر انہوں نےسرکش موجوں کے سامنے ہتھیار ڈال دیئے ہیں۔اس لئے ضرورت اس بات ہے کہ ایک نئے عزم کے ساتھ نئے نسل کو سوشل میڈیا کے منفی پہلوئوں سے بچائیں،خصوصاًچھوٹے بچوں کو جہاں تک ممکن ہو ، اس سے دُور رکھا جائے تاکہ ان کی پہنچ ایسی تصویروں تک نہ ہوجائے ، جو اُن کے ذہن کو پراگندہ کردے ، یا تشدد و قتل کے مناظر دیکھ کر اُن میں مجرمانہ سوچ پیدا ہو ۔ طلبہ و طالبات اور نوجوانوں کو تعلیمی اور تعمیری مقاصد کے لئے ایک مختصر وقت ان ذرائع سے استفادہ کے لئے مخصوص کرلینا چاہئے، کیوںکہ اس کا بہت زیادہ استعمال انسان کو وقت ضائع کرنے کا عادی بنادیتا ہے اور پیغامات کی تسلسل کی وجہ سے وہ بعض اچھی چیزوں کو بھی اتنی دیر تک دیکھنے کا خوگر ہوجاتا ہے کہ اصل کام سے اس کی توجہ ہٹ جاتی ہےجوکہ ایک طرح کا لہو و لعب ہی ہے اور صحت کے نقطۂ نظر سے بھی نہایت نقصان دہ ہے۔ظاہر ہے کہ ذرائع ابلاغ کے استعمال خواہ اس کا تعلق پرنٹ میڈیا سے ہو یا الیکڑانک میڈیا سے، اسی طرح سوشل میڈیا کے استعمال میں نہ صرف اس کے مثبت اور تعمیری پہلوؤں کو پیش نظر رکھنا چاہیے بلکہ اس ذریعہ ابلاغ کے مفید و نقصان دہ پہلوئوں کا تجزیہ بھی کرنا چاہئےاور پھر اس سلسلے میں معاشرہ اور معاشرے کی نوجوان نسل کی رہنمائی کرنی چاہئے۔