محمداشرف بن سلام
ایک رمضان کے روزوں کی خوشی، دوسری قیام شب کی خوشی، تیسری نزول قرآن، چوتھی لیلتہ القدر اور پانچویں اللہ تعالیٰ کی طرف سے روزہ داروں کے لئے رحمت و بخشش اور عذاب جہنم سے نجات ۔ ان تمام خوشیوں کا اظہار صدقہ و خیرات جسے صدقہ فطر کہا جاتا ہے کے ذریعے کرنے کا حکم ہے تاکہ عبادت کے ساتھ انفاق و خیرات کا عمل بھی شریک ہو جائےاورپورے ایک مہینے اللہ تعالیٰ کے حکم کی تعمیل کرکے روزے رکھنے ،اللہ کی بندگی اور عبادت کرنے کے بعد اللہ تعالیٰ مسلمانوں کو عید کی خوشی اور مسرت عطا فرماتے ہیں۔ یہ خوشی آخرت میں اللہ تعالیٰ سے ملاقات کے وقت حاصل ہونے والی خوشی کی ایک چھوٹی سی جھلک ہے جو اللہ تعالیٰ نے عید کی شکل میں بندوں کو عطا فرمائی ہے۔
ماہ رمضان نیکیوں کا موسم بہار اور عبادت وطاعت کا خصوصی مہینہ ہے لیکن اسکا آخری عشرہ تو اس موسم عبادت کا نقطہ عروج ہوتا ہے۔ اس لیے رسول رحمتؐ کی اقتدا میں ان دس دنوں اور راتوں میں تو بالخصوص خوب محنت اور جدوجہد کرکے اپنے رب کو راضی کرنے میں بالکل الگ تھلگ اور پورے تخفظ کے ساتھ اعتکاف کرنے میں خصوصی اہتمام فرماتے تھے۔ حضرت عائشہ ؓ بیان فرماتی ہیں کہ جب آخری عشرہ شروع ہوجاتا تو رسول اللہؐ شب بیداری فرماتے اور اپنے گھر والوں کو بھی بید ار کرتے اور عباد ت کےلئے کمرکس لیتے ۔(بخاری) آج یہ مدت پورا ہونے کے بعد مومن عیدالفطر منا رہے ہیں۔ ایک مسلمان کی حقیقی خوشی اور سچی عید تو یہ ہے کہ اس کاخدا اس سے راضی ہو جائے۔ اس لئے تیس دن کے روزے رکھنے کے بعد مسلمان خدا تعالیٰ کے شکرانہ کے طورپر دو رکعت نماز عید بھی ادا کرتے ہیں۔
حضرت عبداللہ ابن عباس ؓ ِوایت کرتے ہے کہ عید الفظر کی رات تشریف لاتی ہے تواِسے ’’ لیلتہ الجائزہ‘‘ یعنی ’’اِنعام کی رات‘‘ یعنی اللہ تعالیٰ ماہ رمضان میں روزہ رکھنے والوں کا اجر عطا فرمائے ۔ جب عید کی صبح ہوتی ہے تو اللہ تعالیٰ فرشتوں کو تمام شہروں میں بھیجتا ہے۔ فرشتے زمین پر تشریف لاکر سب گلیوں اور راہوں کے سروں پر کھڑے ہوجاتے ہیں اور اس طرح ندا دیتے ہیں ۔جسے جنات اور انسانوں کے سوا ہر مخلوق سنتی ہے ۔وہ کہتے ہیں اے امت محمدؐ ! آؤ اپنے رب کے حضور جو تھوڑا قبول کرتا ہے اور زائد عطا کرتا ہے جو بہت زیادہ عطا کرنے والا اور بڑے سے بڑا گناہ معاف فرمانے والا ہے۔‘‘ پھر اللہ تعالیٰ اپنے بندوں سے یوں مخاطب ہوتا ہے: ’’اے میرے بندو!مانگو!کیا مانگتے ہو؟ میری عزت وجلال کی قسم! آج کے روزاِس نماز عیدکے اِجتماع میں اپنی آخرت کے بارے میں جو کچھ سوال کرو گے وہ پورا کروں گا اور جو کچھ دنیا کے بارے میں مانگوگے ا س میں تمہاری بھلائی کی طرف نظر فرماؤں گا(یعنی اِس معاملے میں وہ کروں گا جس میں تمہاری بہتر ی ہو)میری عزت کی قسم ! جب تک تم میرا لحاظ رکھو گے میں بھی تمہاری خطاؤں کی پردہ پوشی فرماتا رہوں گا۔میری عزت وجلال کی قسم !میں تمہیں حد سے بڑھنے والوں (یعنی مجرموں ) کے ساتھ ر ُسوا نہ کروں گا۔ بس اپنے گھروں کی طرف مغفرت یا فتہ لوٹ جاؤ۔تم نے مجھے راضی کردیا اورمیں بھی تم سے راضی ہوگیا۔
حضرت انسؓ سے روایت ہے کہ اہل مدینہ دو دن بہ طور تہوار منایا کرتے تھے، جن میں وہ کھیل تماشے کیا کرتے تھے۔ رسول اللہؐ نے ان سے پوچھا: ’’یہ دو دن جو تم مناتے ہو، ان کی حقیقت اور حیثیت کیا ہے؟ انہوں نے عرض کیا کہ ہم عہد جاہلیت میں یہ تہوار اسی طرح منایا کرتے تھے۔ تو پیغمبر اسلام ؐنے فرمایا: ’’ اللہ تعالیٰ نے تمہارے ان دونوں تہواروں کے بدلے میں تمہارے لیے ان سے بہتر دو دن مقرر فرما دیے ہیں، یوم عیدالاضحی اور یوم عیدالفطر۔‘‘
حضرت شیخ عبدالقادر جیلانی ؒ،’’غنیہ الطالبین‘‘ میں لکھتے ہیں،’’عید ا ُن کی نہیں جنہوں نے عمدہ لباس سے اپنے آپ کو آراستہ کیا بلکہ عید ا ُن لوگوں کی ہے جو خدا کی وعید اور پکڑ سے بچ گئے اور اس کے عذاب و عتاب سے ڈر گئے۔ عید اُن کی نہیں، جنہوں نے بہت زیادہ خوشیاں منائیں، بلکہ عید تو اُن کی ہے، جنہوں نے اپنے گناہوں سے توبہ کی اور اس پر قائم رہے۔ عید اُن کی نہیں، جنہوں نے بڑی بڑی دیگیں چڑھائیں اور دسترخوان آراستہ کئے بلکہ عید تو اُن کی ہے، جنہوں نے نیک بننے کی کوشش کی اور سعادت حاصل کی۔ عید اُن کی نہیںجو دنیاوی زیب و زینت اور آرائش و زیبایش کے ساتھ گھر سے نکلے بلکہ عید تو اُن کی ہے، جنہوں نے تقویٰ، پرہیزگاری اور خوف خدا اختیار کیا۔ عید اُن کی نہیں، جنہوں نے اپنے گھروں میں چراغاں کیا بلکہ عید تو اُن کی ہے جو دوزخ کے پل سے گزر گئے۔‘‘
خلیفہ ثانی امیرالمومنین حضرت عمر فاروق ؓ کا ارشادِ گرامی ہے ،’’یہ عید کا دن بھی ہے اور وعید کا دن بھی ہے۔ آج جس کے نماز روزہ مقبول ہوگئے، بلاشبہ اس کے لیے آج عید کا دن ہے لیکن آج جس کی نماز ،روزہ کو مردود کرکے اس کے منہ پر مار دیا گیا ہو، اُس کے لیے آج وعید ہی کا دن ہے۔‘‘
امیر المومنین حضرت علی المرتضیٰ ؓعید کے دن جَو کی بھوسی کی بنی ہوئی روٹی کھا رہے تھے۔ایک شخص آیا اور آپ سے پوچھنے لگا کہ آج تو عید کا دن ہے اور آپ ؓجو کی بھوسی کی روٹی تناول فرمارہے ہیں؟آپؓ نے جواب دیا کہ آج عید کا دن ہے، اس نیک بخت انسان کے لیے ، جس کا روزہ اللہ تعالیٰ کی بارگاہ میں قبول ہو گیا ہو اور اس کے گناہ بخش دیئے گئے ہوں۔آج کا دن عید کا دن ہے اور ہر وہ دن عید کا دن ہے جس دن ہم گناہ نہ کریں۔
اسلام چونکہ ایک مکمل دستور حیات ہے، جو زندگی کی ہر موڑ پر ہر انسان کی مکمل راہنمائی کرتا ہے ۔ خوشیوں کے لمحات میں مسرت کے اظہار پر کوئی قدغن نہیں لگاتا، مگر ایسی خوشی کو قطعاً پسند نہیں کرتا جس سے اللہ تعالیٰ اور اس کے رسولؐ کی نافرمانی اور غرور و تکبر کی بوائے آئے۔ اسلام ہمیں جو اجتماعیت کا درس دیتا ہے ،اس میںہر طرح نیکی موجود ہے ۔اب جہاں روزوں کا خاتمہ باالخیر پر ایک فطری خوشی محسوس ہوتی ہے اور عید مسلمانوں کیلئے خوشیوں کا دن ہے، انعام کا دن ہے، جو ہمیں اپنے پروردگار کی طرف سے دیا گیا ہے۔
عید کا یہ دن ہمیں اجتماعت اور خدا پرستی درس دیتا ہے اور اس درس میں الفت و محبت، ہمدردی، خیر خواہی موجود ہے ۔دین اسلام کی ہمیں عید کے دن پریشان حال بھائیوں ، مسکینوں، محتاجوںکے ساتھ نیک سلوک کرنے کی تعلیم دیتی ہے،ورنہ عید کی یہ مسرت و شادمانی ادھوری رہ جائیں گی اور عید کے دن اُن مصیبت زدہ کا بھر پور خیال رکھنا چاہئے، جو ہمارے آس پاس رہتے ہیں، نہ کہ انہیں نظرانداز کریں ۔اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ یہ عیدالفطر ہمارے لئے دنیوں اور اُخروی سعاتوں کا پیش خیمہ ثابت ہو۔
(رابطہ۔ اومپورہ بڈگام ۔ 9419500008)