اسد مرزا
’’گزشتہ ہفتے لاکھوں مظاہرین نے تل ابیب اور یروشلم میں عوامی ریلیاں نکالیں اور وزیراعظم بنجمن نیتن یاہو پر زور دیا کہ وہ غزہ کے جاری تنازعے کو ٹھیک طریقے سے حل نہ کرپانے کی بنیاد پراپنے عہدے سے مستعفی ہوجائیں۔ ساتھ ہی اس ہفتے میں یہ بھی بالکل واضح ہوگیا کہ کس طرح مسئلہ فلسطین پر اور اس کو حل کرنے کی کوششوں پر امریکہ لگاتار دوہری پالیسی اپناتا چلا آیا ہے اور ابھی بھی وہ اسی پر قائم ہے۔‘‘
30 مارچ کی شام تل ابیب اور دیگر مقبوضہ شہروں میں دسیوں ہزار اسرائیلی اپنے وزیر اعظم بنجمن نیتن یاہو کے خلاف احتجاج کے لیے جمع ہوئے۔پہلی بار، غزہ میں مزاحمت کاروں کے زیر حراست اسرائیلی قیدیوں کے اہل خانہ، جو عام طور پر اپنی الگ ریلیاں نکالتے ہیں، حکومت مخالف مظاہرین کے بڑے ہجوم میں شامل ہوئے ، جن کی تحریک کا آغاز گزشتہ سال وزیر اعظم کے متنازعہ عدلیاتی نظام کے نظر ثانی کے اقدام سے ہوا تھا۔اسرائیلی پولیس نے ایک درجن سے زائد افراد کو حراست میں لے لیا اور مظاہرین کے خلاف پانی کی تیز دھار کا استعمال کیا، جنہوں نے تل ابیب میں بڑی سڑکوں کو بند کر رکھا تھا۔ ایک ہزار کے قریب افراد نے تل ابیب میں اسرائیلی وزارت دفاع کے باہر احتجاج کیا اور قیدیوں کے تبادلے کے فوری معاہدے کا مطالبہ کیا۔ یروشلم میں بھی مظاہرین کی پولیس کے ساتھ جھڑپیں ہوئیں، جہاں 200 کے قریب افراد نے مقبوضہ مقدس شہر میں نیتن یاہو کے گھر کے باہر احتجاج کرنے کے لیے پولیس کی رکاوٹوں کی وجہ بھگدڑ مچ گئی تھی۔ مظاہرے کئی دوسرے مقبوضہ شہروں میں شروع ہوئے جن میں سڈروٹ، اور اکیوا اور بیرشیبا شامل ہیں۔ ٹائمز آف اسرائیل نے رپورٹ کیا کہ 7 اکتوبر کو جنگ شروع ہونے کے بعد سے یہ سب سے بڑے مظاہرے تھے۔
یہ مظاہرے قیدیوں کے اہل خانہ کی طرف سے جاری کردہ ایک بیان کے بعد ہوئے جس میں اسرائیلی وزیر اعظم کو ’’معاہدے کی راہ میں رکاوٹ‘‘ قرار دیا گیا تھا۔ غزہ میں قید فوجیوں کے اہل خانہ کے ارکان نے 28 مارچ کو نیتن یاہو سے ملاقات کی، جس میں کسی معاہدے تک پہنچنے میں ناکامی پر گہری ناراضگی اور غصے کا اظہار کیا۔یہ مایوسی اس وقت سامنے آئی ہے جب نیتن یاہو قطر میں مذاکرات کے تازہ ترین دور سے ہٹ گئے ہیں، جس کا مقصد جنگ بندی اور قیدیوں کے تبادلے کے معاہدے تک پہنچنا ہے۔حماس نے دشمنی کے مستقل خاتمے، غزہ سے اسرائیلی فوجیوں کے انخلاء، غزہ کی پٹی میں امداد کی تقسیم اور بے گھر افراد کی واپسی کے لیے اپنی شرائط پر قائم رہنا جاری رکھا ہوا ہے، جسے اسرائیل نے حالیہ مہینوں میں ہونے والے مذاکرات کے دوران بار بار مسترد کیا ہے۔
ایک طرف اسرائیل جنگ بندی پر رضامندی سے انکار کی ہٹ دھرمی کا مظاہرہ کر رہا ہے اور دوسری طرف ہمسایہ ممالک لبنان اور شام پر حملے بھی کر رہا ہے،جن سے وہ یہ ثابت کرنا چاہتا ہے کہ ہ وہ جو چاہے کر سکتا ہے، وہ کسی عالمی ادارے کے قوانین یا قراردادوں کو نہیں مانتا ہے۔ دریں اثنا، اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل، انتونیو گوتریس نے اس دھماکے کی مذمت کی ہے ،جس میں اقوام متحدہ کے تین فوجی مبصرین اور ایک لبنانی مترجم زخمی ہو گئے تھے، جب ان کے قریب گولہ پھٹ گیا جب وہ جنوبی لبنان کی سرحد پر گشت کر رہے تھے۔ اس کے علاوہ، شام میں اسرائیلی فضائی حملے میں 40 سے زائد افراد ہلاک ہوچکے ہیں، جنگی مانیٹر ویب سائٹ کا کہنا ہے کہ حلب کے ہتھیاروں کے ڈپو کے قریب ہونے والے حملے میں مبینہ طور پر حزب اللہ اور شامی فوجیوں کے علاوہ عام شہری بھی بڑی تعداد میں ہلاک ہوئے۔
ادھر امریکہ بھی مسئلہ فلسطین پر اپنی دوہری پالیسی دکھا رہا ہے۔ایک طرف اس نے اقوام متحدہ میں اسرائیل کے خلاف ووٹ دینے سے پرہیز کیا، پھر بھی اس کے صدر جنگ بندی اور فلسطینی ریاست کی بات کرتے رہے اور اس دوران حماس سے لڑنے کے لیے اسرائیل کو جدید ترین ہتھیار بھیجتے رہے۔تاریخی طور پر، اسرائیل کے لیے امریکہ میں وسیع تر دو طرفہ حمایت رہی ہے۔ لیکن غزہ کی صورتحال نے رائے منقسم کر دی ہے – امریکیوں کا ایک اہم حصہ اب اسرائیل کی کارروائی اور اس کے لیے مکمل امریکی حمایت دونوں پر تنقید کر رہا ہے۔ نومبر2024 میں ہونے والے صدارتی انتخابات کے تناظر میں بھی یہ مسئلہ اہم ہے۔ صدر جو بائیڈن کے لیے عرب اور مسلم ووٹوں کے ساتھ ساتھ ڈیموکریٹک پارٹی کے بائیں بازو کا ووٹ بھی اہم ہوگا اور یہ ووٹرز اسرائیل پر تنقید کرتے رہے ہیں۔ مشی گن اور وسکونسن جیسی ریاستوں (جن میں بائیڈن 2020 میں جیت گئے تھے) میں قابل ذکر مسلم آبادی ہے، اور ڈونلڈ ٹرمپ کے ساتھ ممکنہ طور پر دوبارہ انتخابات میں دونوں ریاستیں صدر بائیڈن کے لیے اہم ہوں گی۔ اس کے علاوہ، بہت سے عرب ممالک، جو امریکہ کے اہم شراکت دار ہیں، اسرائیل کے اقدامات پر تشویش میں اضافہ کر رہے ہیں۔جو بائیڈن نے جمعہ کے روز اعتراف کیا کہ غزہ کی جنگ اور اسرائیل کی امریکی حمایت اور اس کے فوجی حملے پر بہت سے عرب۔ امریکیوں کی طرف سے درد محسوس کیا جا رہا ہے، جس نے عربوں، مسلمانوں اور جنگ مخالف کارکنوں کو ناراض اور مایوس کر دیا ہے۔ واضح رہے کہ گزشتہ ہفتے ہی بڑی تعداد میں امریکی مسلمان قائدین اور سیاسی رہنماؤں نے صدر جوبائیڈن کی جانب سے منعقد کیے گئے روزہ افطار میں شرکت کرنے سے منع کردیا۔
2024 کے انتخابات سے قبل اپنی مہم کے لیے فنڈ ریزنگ تقریب میںصدر جوبائیڈن سابق صدر بارک حسین اوباما کے ساتھ شامل ہوئے، شاید اس خیال سے کہ غالباً حسین اوباما کی موجودگی سے امریکی مسلمانوں کی ناراضگی دور ہوسکے لیکن ایسا نہیں ہوا۔ اس کے ساتھ ہی بائیڈن کے جمعہ کے بیان کے چند گھنٹے بعد، واشنگٹن پوسٹ نے رپورٹ کیا کہ ان کی حکومت نے حالیہ دنوں میں اسرائیل کے لیے اربوں ڈالر مالیت کے اضافی بموں اور جنگی طیارے بھیجنے کے آرڈر پر دستخط کیے ہیں۔ساتھ ہی ایک دوسری بڑی وجہ جو کہ صدر بائیڈن کی اسرائیل حمایت میں نمایاں کردار ادا کرسکتی ہے وہ ہے کم عمر ۔ 24 سے 30 سال تک۔ وہ امریکی شہری اور ووٹرس جو کہ نومبر2024 میں ہونے والے صدارتی انتخابات میں کلیدی کردار ادا کرسکتے ہیں۔ ایک حالیہ سروے کے مطابق زیادہ تر نو عمر جو کہ مسلسل مختلف سوشل میڈیا پلیٹ فارمس اور ٹی وی چیلنس پر غزہ میں ہونے والی ہولناک اور غیر انسانی تباہ کاری کی تصویریں مسلسل دیکھ رہے ہیں وہ پوری طریقے سے امریکی حکومت کی اسرائیلی پالیسی کے خلاف ہیںاور وہ چاہتے ہیں کہ امریکہ فلسطینیوں کو ان کا حق دلانے میں اپنا صحیح کردار ادا کرے۔
کیا اسرائیل کے بارے میں امریکی مؤقف میں کسی بنیادی تبدیلی کا اشارہ ملتا ہے؟
جی نہیں، امریکہ نے یہ پوزیشن انتہائی مخصوص صورتحال میں لی ہے۔ اس کے رہنما امریکہ اسرائیل کے وسیع تر تعلقات میں سرمایہ کاری کرتے رہتے ہیں۔ وہ نیتن یاہو کے ساتھ تمام اسرائیل کی شناخت نہیں کرتے، جن کے موجودہ امریکی انتظامیہ کے ساتھ تعلقات نمایاں طور پر خراب ہو چکے ہیں۔ اس ماہ کے شروع میں، سینیٹ کے اکثریتی رہنما چک شومر نے نیتن یاہو کو امن کی راہ میں رکاوٹ قرار دیا، اور اسرائیل میں قبل از وقت انتخابات کا مطالبہ کیا – یہ وہ لائن ہے جسے ڈیموکریٹس اختیار کر رہے ہیں، خود کو حکمرانی اور اپنے سیاسی انتخابات سے دور رکھتے ہوئے، لیکن ضروری نہیں کہ وہ اسرا ئیل کی حمایت کو مکمل ختم کردیں۔مجموعی طور پر حالیہ امریکی اقدامات امریکہ کی اس دیرینہ پالیسی کی عکاسی کرتے نظر آرہے ہیں جو اس نے گزشتہ 75 برسوں سے اپنا رکھی ہے۔ وہ ہر طریقے سے اسرائیل کی حمایت کرتا رہا ہے اور فلسطین مسئلے کے کسی بھی ممکنہ حل کی راہ میں رکاوٹیں پیدا کرتا رہا ہے۔ لیکن اب موجودہ صورت حال میں جب کہ اسرائیلی عوام بنجامن نیتن یاہو کے خلاف لام بند ہوتے نظر آرہے ہیں اور دوسری طرف امریکی صدر کو اپنا سیاسی کیریئر بحال رکھنا ہے تو شاید کوئی ایسی صورتحال بن سکے جو کہ آخر کار فلسطینی عوام کو ان کا حق دلانے میں کامیاب ہوسکے۔
(مضمون نگارسینئر سیاسی تجزیہ نگار ہیں ، ماضی میں وہ بی بی سی اردو سروس اور خلیج ٹائمزدبئی سے بھی وابستہ رہ چکے ہیں۔ رابطہ کے لیے: www.asadmirza.in)