محمد فداء المصطفیٰ
اسلامک کلینڈر یا اسلامی مہینوں میں سب سے معظم اور مقدس مہینہ، جس کی عزت و عظمت کا خیال ہر کسی کو ہوتا ہے اور جس میں ہر شخص اپنی طاقت و استطاعت کے مطابق نیک عمل کرنے کی کوشش کرتا ہے، وہ رمضان المبارک کا مہینہ ہے، جس میں ایک نیکی کا ثواب ستّر گنا زیادہ ملتا ہے، جس کا پہلا عشرہ رحمت، دوسرا عشرہ مغفرت اور تیسرا عشرہ جہنم سے آزادی اور نجات کا ہے ۔ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی بے شمار احادیث اس بات کے شاہد ہیں کہ رمضان المبارک کا مقدس مہینہ تمام مومنین کے لیے رحمت، مغفرت اور نجات کا مہینہ ہے۔ جو شخص اس مہینے میں دلجمعی اور نیک نیتی کے ساتھ عبادت کر یں، اُس کے تمام تر گناہ معاف کر دئیے جاتے ہیں۔ یقیناً یہ مہینہ تمام مہینوں میں افضل اور اعلیٰ ہے،کیونکہ یہی وہ عظمت والا مہینہ ہے جس میں قرآن مجید نازل کی گئی۔ جیسا کہ خالق کائنات اللہ رب العزت قرآنِ مجید میں ارشاد فرماتا ہے: ’’رمضان کا مہینہ ہے جس میں قرآن نازل کیا گیا جو لوگوں کے لئے ہدایت اور رہنمائی ہے اور فیصلے کی روشن باتوں پر مشتمل ہے۔‘‘ (البقرہ ،آیت: 185)
اس آیت کے ضمن میں رمضان المبارک کی تین فضیلتیں بیان کی گئی ہیں۔ پہلی تو یہ ہے کہ اس ماہِ مبارک میں قرآن جیسی مقدس اور معظم کتاب نازل کی گئی، دوسری تو یہ ہے کہ اس مہینے کو رمضان المبارک کے روزے کے لیے خاص کیا گیا اور روزے سے متعلق اللہ رب العزت قرآن مقدس میں ارشاد فرماتا ہے: ’’اے ایمان والو تم پر روزے فرض کیے گئے جیسے اگلوں پر فرض ہوئے تھے کہ کہیں تمہیں پرہیزگاری ملے۔‘‘( سورۂ البقرہ،آیت: 286)اور تیسری تو یہ ہے کہ اس امت کو لیلۃ القدر جیسی عظیم رات دی گئی ہے۔ لیلۃ القدر کی شان و شوکت بیان کرتے ہوئے اللہ تبارک و تعالی قرآن مقدس میں ارشاد فرماتا ہے:’’اور تم نے کیا جانا کیا شبِ قدر۔ شبِ قدر ہزار مہینوں سے بہتر ہے۔اس میں فرشتے اورجبرئیل اُترتے ہیں اپنے رب کے حکم سے ہر کام کے لیے۔وہ سلامتی ہے صبح چمکنے تک ۔‘‘(سورۂ القدر:5-2)
رمضان المبارک کی سب سے بڑی خوبی یہ ہے کہ اس ماہ میں شیطان کو زنجیروں میں جکڑ دیا جاتا ہے اور جنت کے دروازے کھول دیے جاتے ہیں۔ پھر آپ کے ذہن میں یہ خیال آتا ہوگا کہ رمضان المبارک کے مہینے میں شیطانوں کو زنجیروں میں جکڑ دیا جاتا ہے تو پھر انسان گناہ کیوں کرتے ہیں؟ ظاہر ہے کہ ہم سال بھر اتنے گناہ کرتے ہیں کہ ہمیں احساس ہی نہیں ہوتا کہ ہم گناہ بھی کرتے ہیں اور ہمارا نفس ہم پر اتنا غالب آ جاتا ہے کہ اس کو قابو میں لانے کے لئے تھوڑا وقت تو لگتا ہی ہے ۔ اگر ہم اپنے نفس پر قابض ہیں اور ہمارا ہر فعل شریعت مطہرہ کے اصول و ضوابط کے مطابق ہو رہا ہے تو یقیناً ہم رمضان المبارک کے مہینے میں شروعات سے ہی اچھے کام کرنے کے قابل رہیں گے اور بصورت دیگر ہمارا نفس ،ہم پر حاوی ہے توہم خسارے میں رہیں گے اور نیک کام کرنے سے دور رہیں گے ۔ جس نے نفس کو اپنے قابو میں رکھا،وہ رمضان المبارک میں گناہ نہیں کر سکتا اور جن کا نفس اپنے کنٹرول میں ہے تو وہ بارہ مہینے نیک کام کر سکتے ہیں اور گناہ سے اجتناب کرنے اور بچنے والوں میں رہیں گے ۔
ایک روایت میں آتا ہے کہ حضرت جبرائیلؑ نے دعا کی کہ ہلاک ہوجائے وہ شخص جس کو رمضان کا مہینہ ملے اور وہ اپنی بخشش نہ کرواسکے، جس پر حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا، آمین! حضرت جبرائیل ؑکی یہ دعا اوراس پر حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کا’ ’آمین‘ ‘کہنے سے ہمیں رمضان کی اہمیت کو سمجھ لینا چاہئےاور جتنا زیادہ ہو سکے نیک اعمال کرنے کی کوشش کرنی چاہیے ،کیونکہ کل بروزِ قیامت جب ہر کسی کو اپنے اپنے اعمال کا حساب دینا پڑے گا۔اس لئے رمضان کو لہو و لعب میں نہ گزاریں بلکہ پنچ وقتہ نماز کی پابندی، قرآن کی تلاوت، سنتوں اور نوافل کی ادائیگی اور نمازِ تراویح ادا کرتے ہوئے گزاریں، زندگی سنورتی ہوئی نظر آئے گی ۔
حضرت ابوہریرہؓ سے مروی ہے کہ وہ فرماتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو فرماتے ہوئے سنا ہے: ’’جس شخص نے ایمان اور احتساب کے ساتھ رمضان کے روزے رکھے، اس کے پچھلے تمام گناہ معاف کر دئیے جاتے ہیں‘‘۔ (صحیح البخاری) اس حدیث میں جو ایمان اور احتساب کی قید لگائی گئی ہے اس کا مطلب یہ ہے کہ جب بندۂ مؤمن روزہ رکھے تو یہ اعتقاد رکھے کہ اللہ تبارک و تعالی کی نازل کردہ ہر شے کو میں دل سے مانتا ہوں،اور اس کا اقرار اس طریقے سے کرتا ہوں کہ: ’’آمنت بالله وملائكته وكتبه ورسله واليوم الاخر‘‘ کہ اللہ، اس کے فرشتے، اس کی نازل کردہ کتابیں،اس کے بھیجے ہوئے انبیاء کرام اور رسولانِ عظام علیہم السلام اور اس کے حساب و کتاب پر میں اعتقاد رکھتا ہوں اور اللہ احکم الحاکمین ہے سب سے بہتر فیصلے کرنے والا ہے، اس کے حکم کے بغیر ایک پتہ بھی نہیں ہل سکتا ہے۔
حضرت عبدالرحمن بن عوف ؓ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: ’’جس نے ایمان اور احتساب کے ساتھ رمضان کے روزے رکھے، وہ گناہوں سے اس طرح پاک ہوجاتا ہے جس طرح ابھی ماں کے پیٹ سے پیدا ہوا ہے ہو۔‘‘(سنن نسائی) بے شک اس میں کوئی شک و شبہ کی گنجائش نہیں کہ رمضان المبارک کا روزہ رکھنے والا شخص اپنے گناہوں سے پاک ہوجاتا ہے اوراس کا ایک گناہ بھی باقی نہیں رہتا، گویا ابھی ماں کے پیٹ سے پیدا ہوا ہے۔
رمضان المبارک کی فضیلت و عظمت کو سمجھتے ہوئے، احکام شریعت اور رسول اکرم سرکارِ دو عالم صلی اللہ علیہ وسلم کے فرمان کے مطابق ،رمضان المبارک کا پہلا عشرہ رحمت کا ، دوسرا عشرہ مغفرت کا اور تیسرا عشرہ نجات حاصل کرنے کا ہے۔ لہٰذا ہر مومن کو چاہیے کہ رمضان المبارک کے پہلے عشرے میں اللہ سے رحمت طلب کرے، روئے، گڑگڑائے ،آنسو بہائے اور اللہ کو راضی کرنے کی کوشش کرے ۔ دوسرے عشرے میں اللہ تبارک و تعالی کی بارگاہ میں ہاتھ اٹھائے اپنے گناہوں سے توبہ کرے اور یہ عہد کرے کہ آج کے بعد میں تمام تر گناہوں کو چھوڑ دوں گا اور ہر وہ کام کروں گا جس میں اللہ کی رضا شامل ہوگی ۔ تیسرے عشرے میں ہر بندۂ مؤمن کو چاہیے کہ وہ کل قیامت محشر کے عذاب، اللہ کی ناراضگی، جہنم کی ہولناک و خوفناک منظر، حساب کی سختی اور طرح طرح کی مصیبتوں، پریشانیوں اور مشکلات سے اللہ کی بارگاہ میں نجات طلب کرے، بے شک وہ اپنے بندوں پر رحم و کرم اور فضل فرمانے والا ہے۔ اللہ تعالیٰ صراحتاً اپنے بندوں سے مخاطب ہو کر ارشاد فرما رہا ہے کہ اے میرے بندوں! تم مجھ سے اپنے گناہوں کی معافی طلب کرو، اپنے کئے پر افسوس کرو،بندوں کے حقوق کو ادا کرو اور میرے حضور سجدہ ریز ہو جاؤ، میں تمہارےتمام گناہوں کو معاف کر دوں گا، اگرچہ وہ سمندر کے جھاگ کے برابر ہوں۔ رمضان المبارک کا مقدس مہینہ جس میں ہم تیس روزے رکھتے ہیں ، نہایت خاص اور شاندار مہینہ ہے کیونکہ ہم ان ایام میں روزوں کی بدولت اللہ سے بہت قریب ہو جاتے ہیں۔ یقینا ًیہ مختصر سے عرصے کا روزہ ہمارے لیے باعث نجات،عزت،شرف اور باعث فخر ہوتی ہے کیونکہ ان روزوں کی برکت سے ہمارے درجات بلند کر دئیے جاتے ہیں، ہمارے گناہ معاف کر دئیے جاتے ہیں اور ہمیں صالحین اور بزرگان دین کی صف میں کھڑا کر دیا جاتا ہے۔ ہمیں اپنے اعمال کا جائزہ لینے کی ضرورت ہے اور اللہ کے حضور صف بہ صف کھڑے ہونے کی ضرورت ہے ۔