روزہ اسلام کا چوتھا رکن ہے اور ہر بالغ مسلمان مرد عورت پر فرض ہے ۔مسلمان کے لئے یہی کافی ہے کہ یہ اللہ کا حکم ہے اور اس کی اطاعت ہر صاحبِ ایمان پر فرض ہے۔ روزے کی فضیلت تو بے شمار ہے مگر اس کی ایک بنیادی فضیلت یہی ہے کہ ہرمسلمان پرہیزگار بن جائے اور اُس کے اندر تقوے کی صفت پیدا ہو جائے ۔کیونکہ تقویٰ وہ بنیادی صفت ہے جو مجموعی طور پر انسان کو دنیا اور آخرت کی تمام کامیابیوں کا حقدار بنا دیتی ہے جبکہ پرہیز گاری کے بغیر نہ تو انسان ہدایت کے نور سے اپنے قلب و جگر کو منور کر سکتا ، نہ صراطِ مستقیم پر چل سکتا ہے اور نہ ہی مغضوبین کی چالوں سے بچ سکتا ہے ۔رمضان المبارک کے روزے تقویٰ اور پرہیز گاری کی صفت پیدا کرنے کے لئے نازل کئے گئےہیں، تاکہ ا عمال سے کمزورانسان بھی اس ماہِ مبارک میں نماز، تلاوتِ قرآن، تراویح کی نمازوں اور ذکر واَذکار کی طرف لوٹ آئے اور ایسی بصیرت و بصارت حاصل کرلے،جس سے وہ حق اور ناحق،جائز اور ناجائز ،سچ اور جھوٹ، ایمان داری اور بے ایمانی کی پہچان کرسکے۔اس اعتبار سے جب ہم اپنے کشمیری معاشرےپر نظر ڈالتے ہیں تو ہم بھی ر مضان کے ان ایامِ متبرکہ کا اہتمام زور وشور سے کرتے ہیں،روزہ رکھتے ہیں،نمازیںادا کرتے ہیں،فلاح و بھَلا کی باتیںکرتے ہیں،خیرات و مروت کے کام کرتے ہیںاور زکوٰۃ بھی دیتے ہیں۔لیکن اس سب کچھ کے باوجود ہمارے یہاں کا انسان،مسلمان نہیں بنتااور مسلمان ہونے کے ناطے انسانیت کے وہ کام نہیں کرتا ،جس پر اُسے اشرف المخلوقات کا درجہ دیا گیا ہے۔ایک طرف ہم دین کی پاسداری کے روادار بنتے ہیں تو دوسری طرف دین داری پرعملاً قائم نہیں رہتے ہیں۔زندگی کے کسی بھی شعبے سے وابستہ بیشتر افرادایمانداری ،دیانت داری اور فرض شناسی کی فضیلت اور اہمیت کو بھول جاتے ہیں اور بالواستہ یا بلا واستہ دِینوی اور دُنیاوی معاملات میں اپنے آپ کو آزاد سمجھ کر، وہی کچھ کر بیٹھتے ہیں،جس سے اُن کی نہ دنیا بنتی ہے اور نہ آخرت۔ان متبرک ایام کے دوران بھی کسی نہ کسی بہانے کی آڑ میںخود غرضی، لالچ اور بد دیانتی کا کھلم کھلا مظاہرہ کرتے ہوئےبلا کسی جواز کے روز مرہ استعمال ہونے والی اشیائے ضروریہ کی قیمتوں میں اضافہ کرتے رہتے ہیںاور غریب اور متوسط طبقے کے لوگوں کو لوٹتےمیں کوئی کسر نہیں چھوڑتے ہیں۔خصوصاً موجودہ حالات میں جبکہ بیشتر لوگ پہلے ہی مختلف مسائل سے دوچار ہیں اور اُن کی مالی حالت بھی اچھی نہیں ہے۔یہی طرزِ عمل سرکاری شعبوں میںکام کرنے والے اُن ملازمین کا ہے جو ان مقدس مہینہ میں بھی کام چوری،بد عنوانی،رشوت خوری اور سینہ زوری سے گریز نہیں کرتے ہیں۔جبکہ واضح ہے کہ اس ماہِ مبارک میں تین عشرے ہیں ، پہلا عشرہ رحمتوں اور برکتوں والا ، دوسرا مغفرت کا اور تیسرا جہنم سے رہائی کا ہے،جبکہ اسی مہینے کے آخری عشرے کی طاق راتوں میں ایک رات کو اللہ تعالیٰ نے قرآن مجید کو لوح محفوظ سے آسمانی دنیا پہ نازل کیا ہے۔ظاہر ہے کہ قرآن مجید وہ کتاب ہے جو حق اور باطل کو چھانٹ کر الگ کر دیتی ہے ۔روزے کی حالت میں آدمی ترغیبات نفس سے خود کو بچاتا ہے تاکہ اس کا روزہ ضائع نہ ہو جائے لیکن ترغیباتِ نفس کے اُس شیطانی حربے کو مار نہیں دیتا ،جس سے انسان ہر بُرائی کی جانب راغب ہوتا ہے ۔حالت روزہ میں ایک مسلمان شدید پیاس کی حالت میں وضو کے دوران منہ میں پانی کا ایک قطرہ بھی نہیں جانے دیتا، اس لئے کہ اُسے اللہ کا براہ راست ڈر رہتا ہے کہ کوئی دیکھے یا نہ دیکھے، اللہ تو دیکھ رہا ہے ۔در حقیقت روزےسے ہی براہِ راست یہ کیفیت پیداہوجاتی ہےجبکہ اللہ تعالیٰ کو یہی مطلوب ہے کہ اُس کا بندہ پوری زندگی اِسی اطاعت اور بندگی کے ساتھ زندگی گزارے اور فلاح حاصل کرے۔گویا پرہیز گاری پوری زندگی کا عمل ہے جس کی تربیت ایک مسلمان کو روزوں سے حاصل ہوتی ہے ۔ روزہ سے یہ صفت اُس وقت حاصل ہو جاتی ہے جب ایک مسلمان اس کے تمام تقاضوں کو پورا کرتا ہے ۔رمضان المبارک کے روزے جسمانی مشقت اور نفسانی فطری خواہشات کے جبر کے خلاف صبر سے مقابلہ کرنے کا نام ہے اور نفس لوامہ کو طاقتور بنانے سے تقویٰ کی صفت پیدا ہوتی ہے۔ اس کے لئے یہ لازم ہے کہ ہماری فکر ِ آخرت زیادہ سے زیادہ مضبوط ہو اور قبر اور حشر کے مراحل کی پُرشِش کے بارے میں زیادہ فکرمند ہو۔جبکہ آج کے اس دجالی اور مادیت پرستی کے دور میں نیکی کے راستے پر چلنے کا اَجر پہلے سے زیادہ اس لئے ہے کہ بہک جانے کا ماحول اور مواقع زیادہ ہیں۔چنانچہ رمضان تمام نیکیوں کے کرنے کا ماحول میسر ہوتا ہے،لہٰذا ہمیں حق و ناحق،جائز و ناجائز اور سچ اور جھوٹ کی پہچان ہی پرہیز گاری کے راستے پر گامزن کر سکتی ہے۔ مگرافسوس! آج بھی ہمارے معاشرے کی ایک خاصی تعداد نے رمضان کے روزوں کو ایک رسمی عبادت بنا لیا ہے اور اس کے فیوض وبرکات سے محروم ہونے کا اُنہیں کوئی خوف و ڈر نہیں،بس عالمِ غفلت میںحسبِ عادت لکیر کے فقیر بنے ہوئے ہیں۔