امتیاز خان
سرینگر// سرینگر میںاعلیٰ کثافت والے سیب کی فارمنگ جموں و کشمیر میں اس صنعت میں ایک نئی تبدیلی کی نشاندہی کر رہی ہے۔ ہر گزرتے سال کے ساتھ اس طرح کے سیب کے پودے لگانے کی مانگ میں اضافہ ہو رہا ہے۔ستمبر 2015 میں جموں و کشمیر کے اس وقت کے وزیر اعلیٰ مرحوم مفتی محمد سعید نے ضلع اننت ناگ کے بمڈورہ میں سابق ریاست کے پہلے اعلیٰ کثافت والے سیب کے باغ کا افتتاح کیاتھا۔ وادی کے مختلف علاقوں سے تعلق رکھنے والے کاشتکاروں کا کہنا ہے کہ زیادہ سے زیادہ کسان اعلیٰ کثافت والے سیب کی کاشت کاری میں تبدیل ہو رہے ہیں۔انہوں نے کہا کہ زیادہ کثافت والے سیب روایتی اقسام کے مقابلے میں ان کی قیمت تقریباً دوگنی ہے۔وادی کے مختلف علاقوں سے تعلق رکھنے والے کچھ کاشتکاروں کا کہنا ہے کہ گزشتہ چند سالوں میں متعدد وجوہات کی بنا پر نقصانات کا مشاہدہ کرنے کے بعد اعلیٰ کثافت والے سیب کی کاشت نے ان کے چہروں پر مسکراہٹیں واپس لائی ہیں کیونکہ اس سے شاندار منافع حاصل ہوا ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ ان کے بارے میں سب سے اچھی بات یہ ہے کہ وہ پودے لگانے کے ایک سال بعد ہی پھل دینا شروع کر دیتے ہیں اور چوتھے یا پانچویں سال پوری پیداوار تک پہنچ جاتے ہیں۔ٹنگمرگ میں شیخ بلال محی الدین نامی ایک نوجوان نے چند سال قبل ہائی ڈینسٹی باغ قائم کیا۔اُس نے اس سلسلے میں اپنے تجربات سے کشمیر عظمیٰ کو آگاہ کرتے ہوئے بتایا ’’آپ کو پھلوں کو دیکھنے کیلئے طویل انتظار کرنے کی ضرورت نہیں ہے۔ زیادہ کثافت والے پودے پہلے ہی سال پھل دینا شروع کر دیتے ہیں‘‘۔انہوں نے بتایا کہ ’ہم نے اعلیٰ کثافت والے سیب کی کاشتکاری کو سودمند پایاکیونکہ اس کیلئے لاگت اور مزدوری کی کم ضرورت ہوتی ہے‘۔ انہوں نے مزید کہا کہ اس طرح کے سیب کا معیار ، رنگ اور سائز میں یکسانیت کے ساتھ اعلیٰ ہے۔شوپیان کے عبدالحمید پڈر برسوں سے باغبانی سے وابستہ ہیں۔ان کا کہنا ہے کہ زیادہ کثافت والے سیب کے پودے لگانے کے تیسرے سال تک تقریباً 50 سے 70 ٹن فی ہیکٹر پھل دیتے ہیں جبکہ روایتی اقسام صرف 10 سے 15 ٹن پیدا کرتے ہیں۔تاہم کئی سیب کے کاشتکاروں نے مایوسی کا اظہار کیا کیونکہ ان کی درخواستیں باغبانی کی ترقی کے دفاتر میں طویل عرصے سے زیر التوا ہیں۔حکام نے پودے لگانے کی محدود دستیابی کا حوالہ دیا اور زیر التواء کسانوں کو یقین دلایا کہ انہیں آنے والے برسوں میں جگہ دی جائے گی۔کاشتکاروں نے اعلیٰ حکام پر زور دیا کہ وہ اس مسئلے کو حل کریں اور پودے لگانے کے مواد کی دستیابی کو یقینی بنائیں۔باغبانی کے ایک سینئر افسر نے یقین دلایا کہ جموں و کشمیر میں مقامی طور پر اس طرح کے مواد کو تیار کرنے کی کوششیں جاری ہیں۔حکام نے انکشاف کیا کہ جموں و کشمیر میں تقریباً 600 ہیکٹر اراضی کو ہائی ڈینسٹی ایپل فارمنگ کے تحت لایا گیا ہے، جس میں اگلے چند سالوں میں اسے تقریباً 5500 ہیکٹر تک پھیلانے کا منصوبہ ہے۔ اعلیٰ کثافت پھلوں کی پیداوار قائم کرنے یا منتقل کرنے والے باغبان 50 فیصد سبسڈی کے اہل ہیں۔انہوں نے کہا کہ 50 فیصد سبسڈی باغبانوں کو فراہم کی جاتی ہے جو ہائی ڈینسٹی پھلوں کی پیداوار قائم کرتے ہیں یا تبدیل کرتے ہیں۔