رمضان المبارک کا آغازدو تین دن کے بعد ہونے جا رہاہے ۔ ہر چند کہ رمضان کا یہ مہینہ جہاں روحانی اعتبار سے اللہ تعالیٰ کی بے پایاں رحمتوں ، مغفرتوں اور سعادتوں کا حامل ہے وہیںصبر و استحکام، ہمدردی و غم خواری اور ایثار و قربانی کا مہینہ ہے۔ اس مہینہ میںجس طرح بندوں کے اعمال اور نیکیوں کے اجر و ثواب کو ستر گنا بڑھا دیا جاتا ہے ،اُسی طرح اللہ اپنے روزے دار بندوں کے رزق میں بھی برکت اور دسترخوان پر وسعت عطا کرتا ہے۔ اس تمام معاشی اور روحانی پس منظر میں رمضان المبارک کی سماجی و معاشرتی اہمیت بھی بڑھ جاتی ہے۔
روزے کی حالت میں بھوک پیاس پر صبر کرنے والے روزہ دار کو جہاں بھوک پیاس اور روٹی سے محروم انسانوں کی تکلیف کا احساس ہوتا ہے وہیں اُس میںاخوت و غم گساری کا شوق اور جذبہ بھی پیدا ہوجاتا ہے۔ہم دیکھ رہے ہیں کہ جب کسی انسان کو جائز طریقے سے روٹی نہیں ملتی تو وہ ناجائز طریقوں پر اُتر آتا ہے اور مرتا کیا نہ کرتا کے مصداق وہ حیوانیت کا راستہ اختیار کر لیتا ہے ۔ جس کے نتیجے میں معاشرے میں انسانوں کی شکل میں شیطانوں کی جماعت نظر آتی ہے، جیسا کہ آج ہمارے معاشرے کی کیفیت ہے۔ لہٰذا ایسے لوگوں کی خبر گیری کا خیال رکھنا ہماری ذمہ داری ہے، جن کو رمضان میں بھی روزہ افطار کرنے کو ایک کھجور بھی نصیب نہیں ہوتی، تاکہ وہ انسانیت کا جامہ چاک کر کے حیوانیت کا راستہ اختیار کرنے پر مجبور نہ ہوجائیں۔ہم یہ بھی دیکھ رہے ہیںکہ ہمارے معاشرے کا ایک بڑا حصہ معاشی بدحالی کا شکار ہے،ساتھ ہی مہنگائی کا سیلاب بلا خیز ہے کہ دن بدن بڑھتا ہی چلا جا رہا ہے۔ ہر چیز چاہے وہ کھانے پینے کی اشیاء ہوں یا پہننے کے کپڑے ، روزمرہ استعمال کی دیگر چیزیں ہوں، بجلی ، گیس ، پیٹرول ہو یا ادویات، ہر چیز عام آدمی کی پہنچ اور قوت خرید سے باہر ہوتی جارہی ہے اور قیمتیں آسمان سے باتیں کر رہی ہیں۔ پرائیویٹ تنخواہ دار و دہاڑی دار مزدور طبقہ اس ساری بدحالی سے بہت زیادہ متاثر اور شدید مشکلات کا شکار ہے۔ عام آدمی کی جو حالت ہے وہ ہم سب جانتے ہیں اور اس ساری صورتِ حال میں سب سے زیادہ مشکل سفید پوش طبقے کی ہے۔ جو’’پائے رفتن نہ جائے ماندن‘‘ کی کیفیت سے دوچار ہے ۔ معاشرے کی یہ معاشی حالت صرف ’’جگ بیتی ہی نہیں بلکہ ’’آپ بیتی‘‘ جیسی ہے۔ غرض یہ کہ معاشرے کا ہر طبقہ معاشرتی بدحالی سے دو چار ہے۔الغرض معاشرہ کے موجودہ معاشی حالات میں رمضان کے سماجی پہلو اور مواسات کا تقاضا یہی ہے کہ ہم اس مہینے میں غریبوں ، مسکینوں اور حاجت مندوں کو تلاش کر کے ان کی کفالت کا حتی المکان انتظام کریں تاکہ اُن کے چہروں کی اُداسی اور احساس محرومی کو دور کیا جا سکے۔خصوصی طور پر اپنے پاس پڑوس ، رشتے داروں اور دوست احباب کی خبر لیں، اُن میں جو مستحقِ زکوٰۃ ہو، اُسے باعزت طریقے سے زکوٰۃ دیں۔ عام طور پر شریف لوگ اپنی سفید پوشی کی خاطر خود نہیں مانگتے ،حالانکہ وہ سب سے زیادہ ضرورت مند ہوتے ہیں۔ انہیں ہم اس لئے نظر انداز کر دیتے ہیں کہ وہ ہمارے دروازے پر مانگنے نہیں آتے ،ہمارا یہ رویہ کسی طرح درست نہیں، ہمیں چاہئےکہ خود اُن کے دروازے پر جاکر انہیں رازداری سے اللہ کی دی ہوئی دولت میں سے اُن کا حق اور حصہ دیں ،اس کے لئے ضروری نہیں کہ زکوٰۃ ہی کی رقم سے مدد کی جائے۔کیونکہ ہر کسی پر زکوٰۃ فرض نہیں ہوتی ،بلکہ ہم عمومی ذرائع آمدنی سے بھی یہ غم خواری قائم کر سکتے ہیں۔ پھر سب سے بڑھ کر یہ کہ مومن کی صفت قرآن نے یہ بیان کی ہے کہ وہ اپنی ضرورت روک کر اپنے بھائی کی ضرورت پوری کر دیتا ہے۔ بے شک مومنین کی صفت یہی ہے کہ وہ خودتنگی میں کیوں نہ ہوں، دوسروں کی ضروریات کو اپنے اوپر ترجیح دیتے ہیں۔ فلاحِ انسانیت کا تقاضا بھی یہی ہے کہ معاشرے کا ہر فرد دوسروں کی نشوونما اور ان کی ضروریات کی تکمیل کو اپنی ضروریات پر ترجیح دے۔ اللہ کی ذات سے کیا بعید ہے کہ ہمارے ہاتھ سے افطار اور سحری کے وقت کسی ضرورت مند روزے دار کے منہ چند لقمہ خوراک کے چلے جائیں تو ہمارا یہ عمل آخرت میں ہماری مغفرت کا ذریعہ بن جائے۔ لیکن اس مواسات اور غم گساری میں ہمیں اس بات کا بھی بہت خیال رکھنا چاہیے کہ ہماری امداد اور تعاون حقیقی مستحق افراد تک پہنچے، نہ کہ رمضان میں لشکروں کی شکل میں شہر شہر اور گاؤں پڑاؤ ڈالنے والے پیشہ ور گداگروں کی نذر ہو جائے۔