رئیس یاسین
دنیا کے تجربات انسان کو کیا کیا نہیں سکھاتے ہیں۔ اِن ہی میں ایک اہم سبق یہ ہوتا ہے کہ مجھے زندگی میں دوست کس کو رکھنا اور کس کو نہیں۔ انسان جتنا سچا اور مخلص ہو گا، اس کے لئےسوچ سمجھ کر دوست کاانتخاب کرنا چاہیے۔ کیونکہ ایک مخلص اور سچائی پر چلنے والا انسان دل کا صاف اور نیت کا پاک ہوتا ہے۔ وہ ہر کسی شخص پر آنکھ بند کر کے بھروسا کرتا ہے کیونکہ وہ سمجھتا ہے، دنیا کے سبھی لوگ میرے جیسے ہیں لیکن ویسا نہیں ہوتا ہے۔ جس کے نتیجے میں اس کو دنیا میں بہت نقصان اٹھانا پڑتا ہے۔ دوست وہ ہو ،جو واقعی وفادار ،ہو ورنہ دوست نہ ہونا بہتر ہے۔ دوست وہ واحد شخص ہوتا ہے جس سے انسان اپنے سارے راز بیان کرتا ہے۔ انسان کو کسی بھی افراد پر تبھی بھروسہ کرنا چاہئے ،جب اسے لگے کہ وہ اس کے بھروسے کے قابل ہے،ورنہ بعد میں انسان کو پشیمانی کے سوا کچھ حاصل نہیں ہوتا۔ ایک اچھے دوست کی کچھ اہم نشانیاں یہ ہو سکتی ہیں۔ جودوست آپ کو اسلام کے حرام کردہ کاموں سے روکے اور اسلام پر عمل کرنے میں آپ کا تعاون اور ساتھ دے۔ وہ اگر آپ میں کوئی بُرائی دیکھے تو آپ کو اس کی نشاندہی کرکے نصیحت کرےاور اس سے باز لائے۔اگر آپ کو کوئی بُری عادت پڑ گئی ہو تو آپ کو اِسے نکال باہرلانے کی کوشش کرے۔نماز کا وقت ہو رہا ہے اگر آپ اپنے عزیز دوست کے ساتھ بیٹھے ہو۔ اس نے کہا نماز ضروری نہیں ہے، تو جان لیجئے یہ فائدہ مند دوست نہیں ہوسکتا۔ انسان کو ایسی صحبت اختیار کرنی چاہئے جو اس کو ہر وقت نیک اعمال اور نیکی کی راہ پر چلنے میں مدد کرے اور اس کو ہر وقت اپنے رب العزت کے قریب کرنے کی کوشش کرے۔ یہ چیز تب ہی ممکن ہے جب آپ کے دوست کے اندر آخرت پرستی ہو ۔ دوسری چیز ایک دوست آپ کو آپ کے برے وقت میں کام آنا چاہیے آپ کے دوست میں انسان دوست کا جذبہ ہو۔ جب کبھی دنیا میں آپ پر مصائب و مشکلات آئے تو آپ کا جو حقیقی دوست ہو گا آپ کو اکیلا نہیں چھوڑے گا۔ لیکن یہ بات ذہن نشین رہنی چاہیے کہ دوستی کے لئے دونوں طرف سے ایک دوسرے کے لئے قربانی ، محبت، اخوت کا جذبہ ہو۔ اگر ہم دنیا میں محض اپنے فائدے کےلئے اچھا دوست تلاش کریں گے تو یہ ہماری خود غرضی ہے۔ہم میں خود بھی ایسے اوصاف ہونے چاہئیں۔ دوستی کے لئےقربانیاں دینے کا حوصلہ ہونا چاہئے۔ جیسے آپ خود ہوں گے ویسے ہی آپ کو دوست بھی ملیں گے۔ اگر آپ خود دین دار ہوں گے تو آپ کو دین دار دوست ضرور ملیں گے۔ جو دوستی دینداری کے بنیاد پر ہو گی اس میں کبھی بھی نقصان نہیں اُٹھانا پڑتا ہے۔ حدیث پاک کے الفاظ ہے کہ وہ دو شخص جنہوں نے اللہ کے لئے ایک دوسرے سے محبت کی۔ وہ اسی پر جمع ہوئے اور اسی پر جدا ہوئے وہ قیامت کے دن عرش الٰہی کے سایہ میں ہوں گے ۔ یہ ان دوستوں کے لئے انعام ہو گا جو ایک دوسرے سے محبت کرتے تھے صرف اور صرف اللہ تعالیٰ کی رضا کے لئے۔ تو ہمیں دیکھنا ہو گا کہ کوئی شخص کیسا ہے تو ہمیں اس کے دوستوں سے پتہ چلے گا کہ وہ کیسا انسان ہے۔ دوست انسان کی پہچان ہوتی ہے۔
اس وقت ہم مادیت پرستی کے دور میں زندگی گزار رہے ہیں تو خود ایک مخلص دوست بننا یا ایک مخلص دوست تلاش کرنا بہت مشکل کام ہے۔ کیونکہ دنیا میں چاہیے کوئی بھی رشتہ ہو یہ رشتہ تبھی کامیاب ہوتا ہے جب آپ کی مالی حالات ٹھیک ہو، اگر کسی وجہ سے آپ کی مالی حالات بگڑ گئی تو آپ بہت سے دنیاوی رشتے کھو دو گے۔ اس زمانے میںاگر آپ کے پاس دنیاوی رتبہ ہو، مالی حالت بھی مضبوط ہو تو آپ کے کیا کہنے ، تو ایسے میںکس شخص پر آپ بھروسہ جتائے، یہ اہم مسئلہ ہے۔ دنیا میں اللہ تعالیٰ کے بعد اگر کوئی آپ سے مخلص ہے تو وہ ہے آپ کے ماں باپ،اُن کے ساتھ ہر بات شیئرکرو، اُن سے اپنے مشکلات اور پریشانیوں کے بارے میں بات کرو۔ ماں باپ کے لئے اپنےبچوں سے دوستانہ تعلقات قائم کرنا وقت کہ اہم ضرورت ہے۔ بچپن سے ہی بچوںکے ساتھ ایسے پیش آنا چاہیے کہ وہ اپنے والدین سے کوئی بھی بات نہ چھُپائیں ۔ بچوں کو دل شکن کبھی نہیں کرنا، بلکہ اُن پر اعتماد کرناچاہئے۔ دوسری چیز کتابوں سے دوستی کرنا سیکھوں، ہاں! مفید کتابیں آپ کے سچے دوست ثابت ہو سکتے ہیں۔ کتاب وہ ہمدم ہے جو تمہیں تکبر میں نہیں ڈالے گا،جو تمہیں بھڑکائے گا نہیں۔کتاب ایسا رفیق ساتھی ہے، جو تمہیں اُکتاہٹ میں نہ ڈالے گی، ایسا دینے والا جو تم سے کبھی کچھ مانگے گا نہیں۔ جو تمہیں کبھی اشتعال نہیں دلائے گی، جو تمہیں افسردہ نہیں کرےگی۔
کتاب آپ کو بے کار خواہشوں، لہوولعب اور آرام پسندی سے بھی روک دے گی ۔ تو کتاب آپ کی نفع بخش دوست بن سکتی ہے۔ لیکن بدقسمتی سے آجکل کتابوں کا مطالعہ کوئی کوئی ہی کرتا ہے۔ دنیا میں اگر کوئی بھی مشکل معاملہ پیش آئے تو اپنے پروردگار سے دعا کےذریعے مدد مانگنی چاہیے۔ مومنوں کا حامی اور مدد گار خود اللہ تعالیٰ ہوتا ہے۔ ہر وقت کوشش کرنی چاہیے کہ بُری صحبت سے اجتناب اور نیک اور صالح لوگوں کی صحبت تلاش کرنی چاہیے۔ نیک کاروں کی دوستی ہمیشہ سے انسان کی زندگی میں ترقی کے لئے ایک نہایت اہم تقاضا رہی ہے۔ اچھے لوگوں کی دوستی سے انسان کو نفع ضرور پہنچتا ہے، اور اگر بالفرض ایسا نہ بھی ہو تو کم از کم وہ بُرائی سے اور نقصان سے محفوظ رہتا ہے۔ جبکہ بُرے دوستوں کی صحبت بہر صورت بالواسطہ یا بلا واسطہ نقصاندہ ہی ثابت ہوتی ہے۔ اسی بات کو ایک حدیث شریف میں حضور اکرمؐ نے خوشبو فروش اور بھٹی دھونکنے والے کی مثال سے واضح فرمایا: ’’نیک ہم نشین کی مثال مُشک والے کی سی ہے کہ وہ یا تو تجھ کو کچھ دے گا یا تو اس سے مشک خریدے گا، یاکم از کم اس کی خوشبو تجھے ضرور پہنچے گی، اور کسی بُرے ہم نشین کی مثال بھٹی دھونکنے والے کی سی ہے، یا تو کوئی چنگاری اُڑکر تیرا کپڑا جلادے گی، یاکم ازکم اس کی بدبو ضرور تجھے پہنچے گی۔‘‘ آج کے دور میں تو یہ بھٹی دھونکنے والے گلی گلی، کوچے کوچے میں پائے جاتے ہیں اور ایسے ہی دوستوں کی بہتات کی وجہ سے ہمارانوجوان طبقہ دن بہ دن تباہی کی کگار پر آگے ہی کھسکتا جارہا ہے۔