فکرو ادراک
محمد امین اللہ
پچھلے تباہ شدہ تمام اقوام کی تاریخ کا مطالعہ سے یہ بات اظہر من الشمس ہے کہ وہ تمام اقوام جن کے تباہ شدہ کھنڈرات روئے زمین پر پھیلے ہوئے ہیں ان کے اندر درج ذیل خباثتیں بدرجہ فتنہ موجود تھیں جس کی بنا پر وہ قہر و غضب ِالٰہی کا شکار ہوکر نشان عبرت بن گئیں ۔ انہوں نے اپنے زمانے کے پیغمبروں اور رسولوں کی دعوت کو نہ صرف ٹھکرایا بلکہ ان کی تذلیل کی اور ان کواذیتیں دے کر شہید تک کر دیا ۔ وہ شرک میں اتنا آگے بڑھ گئے کہ خود ساختہ خداؤں کی پرستش شروع کردی اور ظالم بن گئیں ، انہوں نے انسانیت کو شرم سار کر دینے والے اخلاقی رذائل کو اپنا لیا،جس کی وجہ سے یہ اقوام اپنے زمانے کی تمام تر ترقی ، علم و فن ، مال و دولت اور طاقت کے باوجود نشان عبرت بن گئیں ۔
کسی کو سیلاب نے تباہ و برباد کر دیا تو کسی کو زلزلے نے ملیا میٹ کر دیا ۔ کوئی لگاتار گرم ہواؤں کے جھکڑ سے کھائے ہوئے بھس کی مانند بکھر گئے ۔ کسی کو بندر اور سور بنا کر ہلاک کر دیا تو کوئی اپنے بنائے ہوئے بندھ کے ٹوٹ جانے سے سیلابی ریلے میں بہہ گئیں۔ کوئی اپنی تمام تر ترقی یافتہ ہونے کے باوجود ریت کے ٹیلوں میں دب کر بے نام و نشان بن گئی، کسی کو آتش فشاں کے لاوے نےپتھروں کی مورت میں تبدیل کردیا ۔
ہر صاحب ایمان یہ بات جانتا ہے کہ اللّٰہ ہر طرح کے گناہوں کو بخشنے پر قادر ہے سوائے شرک کے ۔ ہمارے پیارے نبیؐ کو تو اللّٰہ نے توحید ورسالت ،فکر آخرت، تطہیر افکار و نظریات اور تعمیر سیرت و کردار کے لیے مبعوث فرمایا اور قرآن کے ذریعے حکیمانہ تعلیم سے روئے زمین پر ظلم و جبر کا خاتمہ کردیااور اخلاق حسنہ سے بگڑے ہوئے عرب کے بدوؤں کو بے مثال معاشرہ قائم کر دیا اور اک ایسا انقلاب برپا ہوا کہ چند سالوں میں دنیا کی کایا کلپ بدل گئی ۔
فحاشی، عریانی ، جوا ،شراب ، جھوٹ ، بد گوئی ، زنا، لواطت بازی ، مکاری ، عیاری ، ملاوٹ ، دھوکہ دہی ، چوری، ڈاکہ زنی ، خیانت، بد عنوانی ، اقربا پروری ، گالی گلوج ، قتل و غارتگری ، نظر بازی ، حق تلفی ، والدین کے ساتھ بد سلوکی ، رشتے داروں کی عدم داد رسی ، یتیموں اور مسکینوں کے ساتھ ناروا سلوک ، چغل خوری ، طعنہ زنی ، تجسس ، غیبت ، کسی کا مذاق اڑانا ، ناچ گانا، یہ وہ قول و فعل ہیں جو گناہ کبیرہ میں شامل ہیں ۔ اس سے نہ صرف معاشرہ تباہی سے دو چار ہوتا ہے بلکہ جسمانی ، روحانی ، اخلاقی بیماریاں پیدا ہوتی ہیں ۔ آج بہت ساری لا علاج بیماریاں تو شراب، زنا لواطت بازی اور نشہ کی پیداوار ہیں ۔ کروڑوں لوگ پوری دنیا میں متاثر ہیں اور سسک سسک کر دم توڑ رہے ہیں ، ایڈز ، ٹی بی ، کوڑھ و دیگر جنسی بیماریاں شامل ہیں ۔ہر صاحبِ ایمان یہ جانتا ہے کہ شیطان اس کا ازلی دشمن ہے ۔ وہ ہر طرف سے انسان کو ورغلاتا ہے ، ڈراتا ہے ، لالچ دیتا ہے اورآج پوری دنیا میں شیطانی و طاغوتی طاقتوں کا غلبہ ہے اور شیطانی دعوت ،اس کی پوجا و ترغیبات کی چھتری حاصل ہے ۔ اس کے راستے میں اہل ایمان ہر طرح سے جبر و تشدد کا نشانہ بن رہے ہیں ۔
تباہ شدہ اقوام میں جو برائیاں فرداً فرداً موجود تھیں وہ تمام اخلاقی برائیاں اور جرائم مجموعی طور پرآج پوری دنیا کے لوگوں نے اپنا لی ہیں ۔ مثال کے طور پر قوم لوط جس ہم جنس پرستی کے قبیح فعل میں مبتلا تھی بلکہ یوں کہا جائے کہ انہوں نے ہی اس بد فعلی کو ایجاد کیا، آج یہ بُرائی اور گناہ خبیثہ عالمی سطح پر پوری دنیا میں ریاستی قانون کی سرپرستی میں انسانی حقوق کے نام پر جاری و ساری ہیں ۔ گو کہ مسلم دنیا ابھی اس سے محفوظ ہے مگر عالمی طاغوت مسلسل مسلم دنیا کے حکمرانوں کو اس کو آزادی دینے کے لئے دباؤ ڈال رہا ہے حالانکہ کے اقوام متحدہ نے بھی اس فعل قبیحہ کو انسانی حقوق قرار دے چکی ہے ۔جبکہ اس کے اثراتِ بد کا عالم یہ ہے کہ ایڈز جیسی لا علاج بیماری تیزی سے پھیل رہی ہے ۔ اس بدکاری میں آزاد خیال کے حقوق نسواں کی علمبردار عورتیں میرا جسم میری مرضی کے نام پر تقریبات کا اہتمام تک کر رہی ہیں، جس کو میڈیا کے ذریعہ فروغ دیا جا رہا ہے ۔ 1914۔ 1939 میں دو عالمی جنگوں میں کروڑوں انسانوں کی موت نے بھی لوگوں کو ہشیار نہیں ہونے دیا اور اب تک مسلسل دنیا جنگ و جدل میں مبتلا ہیں ۔ ہوس زر نے صنعتی ترقی کی وجہ سے پوری دنیا میں گلوبل وارمنگ کی وجہ سے موسم خطرناک حد تک تبدیل ہو چکا ہے اور سیلاب ، طوفان اور سونامی کی وجہ سے مسلسل تباہی پھیل رہی ہے ۔ جدیدیت اور فیشن کے نام پر آج عورت کی حیثیت ایک بکاؤ مال سے زیادہ نہیں ہے، اسی ترقی کو وہ آزادی نسواں کا نام دے رہی ہیں ۔
گویاصورت حال بالکل تبدیل ہو چکی ہے ۔ جھوٹ بولنے میں مہارت کو لوگ چالاکی اور فن کاری سمجھتے ہیں ۔ بے حیائی کو حسن سمجھا جاتا ہے ۔ہنر مند کو کمینہ فراڈی کو ذہین کہتی ہے ۔قمار بازی ایک عالمی کاروبار بار کی حیثیت اختیار کر چکی ہے اور حکومتوں کی جانب سے بھی یہ کارو بار لاٹری کے نام پر کیا جاتا ہے ۔ آج فلموں کی صنعت سے وابستہ اداکار اور شخصیات عالمی شہرت کے حامل ہیں اور فلم انڈسٹری سے وابستہ افراد اور مالکان اربوں کھربوں کے بزنس کرتے ہیں ۔ پوری نوجوان نسل کے لئے یہ لوگ مثالی کردار کے حامل ہیں ،ان کی نقالی اور پیروی کی جاتی ہے ،لباس سے لے کر بالوں کی تراش خراش سب اپنایا جاتا ہے اور ان کے کنسرٹ دیکھنے کے لئے لاکھوں نوجوان اکٹھے ہوتے ہیں اور دیوانگی کی حد تک خود کو ان اخلاق باختہ اداکاروں اور ہیروئنوں کی پرستش کرتے ہیں ۔ یہ تمام گناہ کبیرہ کے کام عالمی صنعت میں تبدیل ہو چکے ہیں ۔
ظاہر ہے کہ حق تلفی ایک ایسا گناہ کبیرہ ہے کہ اللّٰہ اس کو معاف نہیں کرے گا ۔ لیکن آج کے دور جدید میں یہ گناہ ہر خاص و عام سے زد ہو رہا ہے ۔ سب سے زیادہ کوئی متاثر ہے تو وہ بوڑھے والدین ہیں جن کی اولادیں بوڑھاپے میں ان سے یا تو لا تعلق ہو چکی ہیں یا پھر ان کو اولڈ ایج ہوم کے حوالے کر دیا ہے ۔
شراب کی عالمی تجارت سے صنعت کار 1.6 ٹرلین ڈالر کی سالانہ آمدنی کرتے ہیں ۔ جسم فروش عورتوں کوسیکس ورکر کا نام دے کر قانونی تحفظ دے دیا گیا ۔ ننگی فلمیں جس کو Blue film کا نام دیا جاتا ہے اور جس میں ملوث مرد و زن کو Porn Star کا نام دیا جاتا ہے، عالمی کاروبار بن چکا ہے ۔ Child pornography کا گھناؤنا کاروبار بھی عالمی تجارت بن چکی ہے ۔ اس طرح کے انسانیت سوز بُرائیوں نے پورے مغربی اقوام سے ان کے خاندانی نظام کو چھین لیا ہے ۔ نیز تمام تر انتظامی اور ضروریات زندگی کی سہولیات کے باوجود ان کو ازدواجی زندگی کا حقیقی سکون میسر نہیں ہے ۔
کہا جاتا ہے کہ دولت اور عورت جب تک پردے میں ہے محفوظ ہے مگر آج ان دونوں چیزوں کو ہر کوچہ و بازار میں رقص ابلیس کرتے ہوئے دیکھا جا سکتا ہے ۔ اس اخلاقی زوال میں کے تابوت میں آخری کیل انٹرنیٹ اور سوشل میڈیا نے ٹھوکنا شروع کر دیا ہے ۔ اس ہوائی شیطان نے چھ سال کے بچے سے لے کر ساٹھ سال کے بوڑھے تک کو ایک جیسے اخلاقی زوال کی سمت دوڑنے پر مجبور کر دیا ہے، اس کا استعمال مہلک نشہ سے بھی بُرا اثر ڈال رہا ہے ۔ گویاایک دلدل ہے جس میں گرنے کے بعد بچنے کی کوئی امید نہیں ہوتی، اسی طرح اس کا عادی فرد ہر بات سے بے گانہ ہو کر رہ جاتا ہے، یہ تو ہر طرح کے جرائم کرنے کا ہنر بھی سکھاتا ہے ۔
عورت اور مرد کے چار کردار قدرت نے متعین کی ہے۔ایک عورت ، ماں ، بہن ، بیٹی اور بیوی ہے۔ ایک مرد ، باپ ، بھائی ، بیٹا اور شوہر ہے ۔ یہی چار کردار کے دائرے میں رہ کر زندگی پر سکون اور محفوظ رہ سکتی ہے ورنہ دنیا اور آخرت کی تباہی مقدر ہے ۔ایک مشین بنانے والا میکینک جس کام کے لئے مشین بناتا ہے اگر وہ مشین وہ کام نہ کرے یا مطلوبہ نتائج نہ دے تو بنانے والا اس کو کاٹھ کباڑ کے دام کباڑیئے کو بیچ دیتا ہے ۔ ٹھیک اسی طرح قدرت نے جتنی بھی مخلوقات بنائی ہے ان سب میں انسان کو افضل بنایا اور زمین کا خلیفہ بنایا اور اس کو کچھ تفوضی اختیارات دے کو اس کا Code of life متعین کر دیا جو انبیاء اور رسولوں کے ذریعے اپنی نازل کردہ کتابوں کے توسط سے فراہم کیا ۔ وہ یہ ہے کہ ’’ہم نے جنوں اور انسانوں کو صرف اپنی عبادت کے لئے پیدا کیا‘‘ اس سے انحراف ہی انسان کی تباہی اور بربادی ہے ۔