وادی اور جموں کے مختلف اضلاع میں گذشتہ تین چار دنوںکے دوران شدید بارشوں اور تیز ہوائوں کی خوفناک لہروں نے جو تباہی مچادی ،اُس پر جموں و کشمیر کا ہر فردِ بشر غم اندوہ اور افسردہ ہے۔شدید بارشوں اور تیز ترین ہوائوں کے تھپیڑوں کے سبب مختلف علاقوں کےباشندگان کو جہاں کئی انسانی زندگیوں کا اتلاف سہنا پڑا، وہیں بڑے پیمانے پر مالی نقصان سے بھی دوچار ہونا پڑ اہے۔درجنوں تعمیرات ڈَھہ اور بہہ کر نیست نابود ہو ئے ہیںاور سینکڑوں رہائشی ڈھانچےتباہ ہوکر رہ گئے ہیں جس کے باعث ان علاقوں کے باشندگان اپنے آشیانوںسے محروم ہوکر لاچار اور بے بس ہوگئے ہیں۔ظاہر ہے کہ جب بھی کہیں آفتِ الٰہی آنی ہوتی ہے تو اُسے کوئی انسانی طاقت روک نہیں سکتی اور نہ ہی انسان کی کوئی ہُنر کام آتی ہے۔چنانچہ اپنی اس وادیٔ کشمیرکے اطراف و اکناف میں گذشتہ برس کے دوران بھی، خصوصاً موسم سرماکے آغاز سے ہی وقفہ وقفہ کے بعد آتش زدگی کی وارداتوںکو جو سلسلہ چلا آرہا تھا،اُس میں بھی لوگوں کو مالی اور جانی نقصانات سے دوچار ہونا پڑا۔جبکہ آ ج بھی ایسی وارداتیں کی ذرائع ابلاغ کے لئے روزانہ کی خبریں بن جاتی ہیں،جن میں ہونے والے اثاثوں کے نقصانات کی تفصیل درج ہوتی ہیں۔ ان وارداتوں میں اگرچہ محدود پیمانے پر جانی نقصان ہوتا رہتا ہے لیکن بہت بڑے پیمانے پر لوگوں کو مالی نقصان اُٹھانا پڑرہا ہے۔ جس کے نتیجے میںزیادہ تر متاثرہ لوگوں کی نظام ِزندگی اس قدر مفلوج ہوکر رہ جاتی ہے کہ بے کسی اور بے بسی کے عالم میں وہ جانوروں سے بدتر زندگی جینے پر مجبورہو رہے ہیں۔ہر باشعور اور ذی حِس انسان اس بات کو محسوس کرتا ہے کہ جس کسی بھی فرد یا افراد کی زندگی بھر کی جمع پونجی ،مال و اسباب اور زندگی گذارنے کا ٹھکانہ جب چھِن جائے تو جینے کے لئےاُس کے پاس کیا رہ جاتا ہے۔اسی لئےبحیثیت انسان اس صورتِ حال کو دیکھ کر بیشتر انسانوں کا دل دہل کے رہ جاتا ہے اور وہ انسانی فطرت کے تقاضے کے تحت نوع ِ انسانی کی مدد کے لئے آگے آتے ہیں اور انسانیت کے ناطے وقتی طور پر متاثرین کے ساتھی اور مددگاربنتے رہتے ہیں،اُن کی ہمت بڑھاتے ہیں ،انہیں حوصلہ دیتے ہیں۔بے شک حکومتی ادارے بھی ان موقعوں پر فوراًحرکت میں آجاتے ہیںاور متعلقہ اداروںکے عملے اپنی ذمہ داریاں بخوبی نبھاتےہیںجبکہ بعض رضاکار تنظیمیں بھی اپنا کردار ادا کرتے ہیں،گویا ہرادارہ آفات زدہ متاثرین کو راحت پہنچانے کی حتی المکان کوشش کرتارہتا ہے ،مگر پھر کچھ دن گذر جانے کے بعد ہی معاملہ آیا گیا ہوجاتا ہےاور اس طرح یہ سلسلہ چلتا رہتا ہے۔مگر سوال یہ پیدا ہوجاتا ہے کہ کیا اسی طرح کے امداد سے متاثرین کی زندگی بحال ہوجاتی ہے؟جس پر سنجیدگی کے ساتھ غورو فکر کرنے کی ضرورت ہے۔ہاں! کسی بھی قدرتی آفت کے شکار لوگوں کی زندگی بحال کرنےکی اہم ذمہ داری حکومت کی ہی ہوتی ہے،تاکہ متاثرین جسم و جان کا رشتہ برقرا ر رکھ سکیں اوراُن کی زندگی کی بحالی کے لئےایسا سب کچھ کرے،جس سے وہ اپنے معاشرے میںپہلے جیسے کی طرح زندگی کا گذر بسر کرسکیں،کیونکہ اسی مقصد کے تحت حکومت،حکومت کہلاتی ہے ۔جموں وکشمیر کے اطرف و اکناف کےجن علاقوں میںحالیہ شدید بارشوں اور تیز ہوائوں نے قہر بپاکرکےلوگوں کو مسمار و برباد کردیا ہے ،اُن کے بچائو اور بحالی کے لئے حکومتی انتظامیہ کو ہنگامی سطح پر کام کرنے کی ضرورت ہے کیونکہ محکمہ موسمیات کی پیش گوئی کے مطابق ابھی بھی ان علاقوںمیں برف باری ،بارشیں ہونےاور تیز ہوائیں چلنے کا امکان ہے،جبکہ سردیوں کا سلسلہ بھی جاری ہے ۔ان حالات میں متاثرین ،بغیر آشیانوں اور بغیر بنیادی ضرورتوں کے زندگی کیسے اور کس طرح گزاریں، یہ تو کوئی بھی ذی حِس اور باشعور انسان بخوبی سمجھ سکتا ہے ،جبکہ حکومتی انتظامیہ کے متعلقہ اداروں سے منسلک اعلیٰ حکام اور دوسرے ملازمین بھی اس بات کو بخوبی محسوس کرتے ہیں۔ اس لئے ضرورت اس بات کی ہے کہ موجودہ یوٹی حکومت اپنے اُن اداروں کو متحرک ہونے کے لئے احکامات صادر کریں ،جو آفات سے متاثرہ لوگوں کی راحت اور بحالی کے لئے قائم کئے گئے ہیں۔خصوصاًمحکمہ آفات ِ سماوی کے عملےاورپولیس محکمے کے جوانوں کا فرض بنتا ہے کہ وہ متاثرین کے متعلق اپنی تفصیلی رپورٹیں متعلقہ محکمہ تک پہنچانے میں کوئی تاخیر نہ کریں، تاکہ بر وقت متاثرین کی ہر وہ سامان فراہم ہو پائے،جس کی اِس وقت اُنہیں اشد ضرورت ہے۔