بلا شبہ ہمارا معاشرہ ترقی یافتہ نہیںبلکہ ترقی پذیر ہے، جس کی ترقی کی رفتار ہمارےنوجوانوں کی درست سمت میں رہنمائی اور پیشرفت سے ہی مشروط ہے۔ نوجوان، جو کسی بھی مُلک یا معاشرے کی تعمیر و ترقّی میں ایندھن کی سی حیثیت رکھتے ہیں، لیکن اگر مشین ہی زنگ آلود یامشین چلانے والاہی اناڑی ہو تو ایندھن بھی بھلا کس کام کا ،تو یہی کچھ حال ہمارے معاشرے کی نسلِ نو کا بھی ہے۔ ہمار ے بیشتر نوجوان جو معاشرےمیں تبدیلی کے خواہاں ہیں، لیکن ہمارے یہاں انہیں آگے بڑھنے اور ترقی کرنے کے مواقع میسر نہیں ہوتے ہیں۔ ہمارے یہاں ایسا نظام بھی قائم نہیں کہ جس میں ہر نوجوان کا مستقبل محفوظ ہواوراُسے باعزت روزگار ملے۔یہی وجہ ہےکہ بیشمار نوجوان ملک کی دوسری ریاستوں یا غیر ممالک میں اپنی صلاحیتیں دکھاتے ہیںاور نام بھی کماتے ہیں۔
ماضی پر نگاہ ڈالیں تو ایسے کئی واقعات ہمارے سامنے آتے ہیں کہ بڑوں نے ارادہ کیا تو نوجوانوں نے ارادے کو عملی جامہ پہنایا۔ بڑے منزل کی طرف بڑھے تو نوجوانوں نے منزل پر پہنچ کر دم لیا۔ بڑوں نے اشارہ کیا تو نوجوانوں نے اشارے کو منزل کا نشان سمجھ لیا۔مگرآج کے بیشترنوجوان با صلاحیت ہوکر اپنی نشانِ منزل تک نہیں پہنچ پاتی ہے۔سبھی جانتے ہیں کہ کوئی قوم یا معاشرہ اتنی دیر تک ترقی نہیں کر سکتا، جب تک اس کے نوجوان ارادوں کے مضبوط نہ ہوں اور شعوری طور پر بیدار نہ ہوں۔
جموں و کشمیر کوقدرت نے ہر نعمت سے نوازا ہے ،جس میں بہترین موسم ،سرسبز پہاڑ اور معدنیات کی دولت شامل ہے، مگر ہمارے حکمران اور ارباب اختیار رب کائنات کی طرف سے عطا کئے گئے ان خزانوں سےصحیح طریقے پر اِکتساب نہیں کرپائے۔دنیا میں معیار زندگی بہتر ہو رہا ہے، مگر ہمارے یہاں کی سماجی و معاشی فضا بدستور ابتر ہے۔ تعلیم یافتہ نوجوان، غیر تعلیم یافتہ نوجوانوں سے زیادہ مایوسی کا شکار نظر آ تے ہیں۔ ملازمت کے حوالے سے شدید عدم تحفظ کا شکار ہیں۔ اہل نوجوانوں کی جگہ نااہل نوجوان اپنے اثر و رسوخ کی بنیاد پر ہر جگہ براجمان ہیں۔ ایسے میں اہل نوجوان تذبذب میں مبتلا ہوکر تنزل کا شکار ہورہے ہیں۔
ظاہر ہے کہ بہتر مواقع مضبوط معیشت کے بغیر ممکن نہیں اور مضبوط معیشت مستحکم اورمثبت حالات کے بغیر ممکن نہیں۔ ہمارے نوجوانوں کی تخلیقی صلاحیت صرف اُسی وقت اُبھر کر سامنے آ سکتی ہیں جب اعلیٰ و معیاری تعلیمی نظام پر سرمایہ کاری کی جائے اور ایسا نظام قائم کیا جائے، جس سے تعلیمی عوامل کو سماجی واقتصادی ترقی سے منسلک کیا جاسکے۔
یہ بات بھی توجہ طلب ہے کہ اگرزراعت اور صنعت کے شعبوں پر توجہ مرکوز نہ کی گئی تو یہاں روزگار کا مسئلہ مزید سنگین سے سنگین صورتحال اختیار کر جائے گا۔ اگر زراعت کو جدید سائنسی خطوط پر استوارکر دیاجائے گا تو نہ صرف معیشت مستحکم ہو گی بلکہ براہ راست نوجوانوں کے لیے روزگار کے مواقع بھی کھلیں گے کیوں کہ مضبوط معاشی نمو کےلئے تکنیکی موافقت لازمی ہے۔ ترقی یافتہ دنیا کی کامیابی اسی لئے ہے کہ اس نے ٹیکنالوجی میں مستقل طور پر سرمایہ کاری کی ہے۔ ہمارےنوجوان زرخیز تخلیقی صلاحیتوں کے مالک ہیں۔ ان کی تخلیقی صلاحیتوں کو مزید اُجاگر کر کے سائنس، انفارمیشن ٹیکنالوجی، ٹیلی کمیونیکیشن جیسے شعبوں میں ایک انقلاب لایا جاسکتا ہے۔ بہترین منصوبہ بندی کے ساتھ افرادی قوت کے درست اور بروقت استعمال کے ساتھ معاشرہ تیز ترین معاشی و سماجی ترقی کی نئی جہتوں پر گامزن ہوسکتا ہے۔ لیکن صرف سوچ پر انفرادی طور پر کام ممکن نہیں۔ ان کے لیے ایسے ماحول کو پروان چڑھانا ہوگا، جہاں وہ اپنی تخلیقی صلاحیتوں کے بل بوتے پر ملک اور معاشرےکی ترقی میں اپنا حصہ ڈال سکیں۔اُنہیںعدم تحفظ کے احساس سے نکال کر ملک کی تعمیر و ترقی کی نئی بلندیوں سے ہم کنار کرانے کی ضرورت ہے۔ یاد رکھیں دنیا میں اُڑنے والے پرندوں کے دو ہی پر ہوتے ہیں لیکن ہر پرندہ آسمان کی بلندیوں پر نہیں اُڑ پاتا۔ کیونکہ بلند فضائوں میں پرواز کرنےکے لئے مضبوط پروں کی نہیں بلند حوصلوں کی ضرورت ہوتی ہے۔اس وقت سب سے اہم ضرورت یہ ہے کہ نوجوان بیدار مغزی کا ثبوت دیں، اپنے خوابیدہ دل کو بیدار کریںاور مرد آہن کی صفات پیدا کریں، اندھیرےکا شکوہ کرنے کے بجائے اپنے حصّےکا چراغ جلا کر روشنی کی شروعات کریں۔