پروفیسر قدوس جاوید
۔6فروری 2024کی ایک ٹھندی سہ پہر ، انجینئر اسلم شہزاد کی نئی تصنیف ’’لالہ صحرائی ‘‘ کی تقریب رونمائی ۔ میں ،خالد حسین اور شبیر مجاہد کے ساتھ،کلچرل اکادمی(جموں ) کے ہال میں محو ِ گُفتگو ، تقریب کے آغاز کا منتظرتھے کہ خالد حسین، جو موبائل پر کسی کو سُن رہے تھے ،اچانک ہماری طرف متوجہ ہوئے اور کہا’’ فاروق نازکی۔۔۔۔ڈاکٹر سُہیل مُرتضی نازکی(کٹرہ سوپر اسپیشلٹی ہاسپٹل میں تعینات فرزند) اور ایاز نازکی انہیں گھر( سرینگر ) لے جا رہے ہیں ۔ شبیر مجاہد نے کُرسی سے کھڑے ہو کر کہا ’’ابھی پرسوں تو میں ان سے کٹرہ ہسپتال میں مل کر آیا تھا‘‘ ۔ پھر شبیر مجاہد نے اپنا موبائل نکا ل کر ایک ویڈیو دکھائی ۔ بیمار صورت فاروق نازکی مولانا روم کے اشعار پڑھ رہے ہیں ۔ شام اور پھر رات گزری ۔ دوسرے دن(7فروری زوال سے قبل فاروق نازکی اپنے عزیزو اقارب کو سوگوار چھوڑ کر ، اپنی منزل آخر میں جا کر سو گئے۔لیکن ابھی بھی اس کی سرگوشی سنائی دے رہی ہے
کون کہتا ہے ؟تری بزم سے باہر ہوں میں
جھانک کر دیکھ ترے سینے کے اندر ہوں میں
فاروق نازکی کون تھا، کیاتھاَ؟ اور کہاں چلا گیا؟یہ اسی کی ایک غزل کے حوالے سے سنئے ،
وہ خوش دماغ تھا ،خوشبو میں ڈھل گیا ہوگا۔۔۔۔۔۔۔ نظر نواز تھا منظر بدل گیا ہوگا
صبا کی نرم روی تھی سرشت میں اس کی ۔۔۔۔۔۔عجب نہیں کہ وہ پتھر میں ڈھل گیا ہوگا
وہ دھوپ دشت کا پالا ہوا مسافر تھا۔۔۔۔۔۔۔۔۔جبینِ کاک پہ سُورج کو مَل گیا ہوگا بہت دنوں سے مُقَید تھا اپنے کھوکھے میں ۔۔۔۔ ۔ حدود ذات سے باہر نکل گیا ہوگا
بلندیوں سے لُڑھک کر زمیں پہ آیا تھا ۔۔۔۔۔ بعید کیا ہے ؟وہ گِر کر سنبھل گیا ہوگا
تاریخ ساز شاعر حضرت غلام رسول نازکی کے بعد فاروق نازکی ’دبستان نازکی‘ کے دوسرے (تیسرے ایاز رسول نازکی )ایسے شاعر ہیں جن کے بارے میں یہ فیصلہ کرنا مشکل ہے کہ وہ دانشور زیادہ بڑے تھے یا شاعر ؟ ۔ان کی شاعری کو ان کی دانشوری صیقل کرتی ہے یا روِش عام سے مختلف شعری رویہ ان کی بصیرت مندی (Vision )کو جمال آفریں بناتی ہے ۔
فاروقی نازکی( پیدائش1940ء ۔وفات 6فروری2024ء) کی ذات اور زندگی کی کی داستان آزاد ریاست جموں و کشمیر کے فسانے سے کچھ زیادہ ہی طویل ہے ۔کشمیر کے ایک مثالی خاندان کے مثالی فرزند فارق نازکی نے شہر سری نگر سے پچاس میل دور ضلع بانڈی پورہ میں حضرت غلام رسول نازکی اور بیگم عائشہ بانوکے ایک عام سے گوشہ عافیت میں 1940میں آنکھیں کھولیں ۔فاروق نازکی کے والد غلام رسول نازکی خود ایک استاد، ماہر تعلیمات، اور کشمیری، فارسی ،عربی اور انگریزی کے ساتھ ساتھ اردوئے معلی میں مہارت رکھتے تھے اور بڑے یقین کے ساتھ یہ دعوی کرتے تھے کہ ؎
کشمیر کا رہنے والا ہوں ، اردو ئے معلی لکھتا ہوں
اس دیس میں مجھ سا کوئی بھی اردو کا سُخنور ہو نہ سکا
اور اردو ہی کیوں ؟کشمیری ،اور فارسی میں بھی غلا م رسول نازکی کی غیر معمولی صلاحیتوں کا اعتراف ریاست جموں و کشمیر ہی نہیں ،ایران و توران کے دانشوروں نے بھی کیا ہے ۔غلام رسول نازکی اپنی نوجوانی، پندرہ سولہ سال کی عمر میں ہی، اساتذہ کے معیار کی فارسی شاعری کرنے لگے تھے ۔ ان کی ایک فارسی غزل ایک عالمی انتخاب میں بھی شامل ہے انتخاب ’’مشاعرہ‘‘کے نام سے سوویت روس کے ’’ادارہ ادبیات ‘‘کی جانب سے شائع کیا گیا تھا اور اس میں ایران ،ترکستان،افغانستان اور روس کے نمائندہ شعرا کے علاوہ برِصغیر ہند سے علامہ اقبال ،صوفی غلام مصطفی تبسُم اور یکتا بھوپالی جیسے سر بر آوردہ اساتذہ کا کلام شامل ہے ۔ اس کا ذکر کشمیری کے مشہور ادیب اختر محی الدین نے اپنے ’دورہ سوویت یونین سے متعلق سفر نامہ ’’سلاوامہ ‘‘ میں اور ڈاکٹر نِکہت نذر ؔ نے اپنے مضمون ’‘نازکی ایک عہد ساز شاعر ‘‘میں کیا ہے۔ اس فارسی غزل کا مطلع اس طرح ہے ۔
از تو قائم گرمئی ہنگامئہ بود و نمود ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔خیز و کم کن شکوہ ہائے گردشِچرخِ کبود
محترم ایاز رسول نازکی نے اپنے ایک مقالہ’’قندِ پارسی ‘‘میں میر غلام رسول نازکی صاحب کی فارسی کی کئی غزلیں اور نظمیں نقل کی ہیں۔ان میں مرحوم نازکی صاحب کی ایک نظم ’ لاہ کول‘ اور’ نوحہ حضرت علامہ اقبال (متوفیہ18اپریل1938) بھی شامل ہیں ۔ غرض یہ کہ یوں تو غلام رسول نازکی کی پہلی اولاد ایک بیٹی نادرہ بانو تھیں،جن کی شادی بانڈی پورہ کے ایک باعزت گھرانے کے اعلی تعلیم یافتہ شخص سید محمد سعید اندرابی سے ہوئی تھی ۔ ان کے بعد غلام رسول نازکی کے یہاں ایک کے بعد ایک سات بیٹوں کی پیدائش ہوئی جن کے اسمائے گرامی اس طرح ہیں ۔جناب ریاض الاسلام نازکی، محمد فاروق نازکی ، محمد طارق نازکی ،محمد اقبال نازکی ،محمد بلال نازکی ،ایاز رسول نازکی اور محترم وقار الملک نازکی ۔ نازکی خانوادے کے عالم فاضل بزرگوں کے فیض سے یہ سب کے سب اعلی تعلیم یافتہ اور حسن و جمال کے ساتھ ساتھ اپنے اپنے شعبوں میںمنصب کمال و جلال پر فائز رہے ۔اسی لئے ان ساتوں بھائیوں کو ’خانوادہِ نازکی‘ کے سات ستارے ( SEVEN STARS)بھی کہا جاتا ہے ۔ ان میں فاروق نازکی اور ایاز نازکی کو ورثے میں شرافت و ذہانت کے ساتھ ساتھ بطور خاص شعرو ادب کا ذوق و شوق بھی ملا جس کا عملی مظاہرہ انہوں نے اپنی اردو ،کشمیری شاعری اور نثر میں کمال عمدگی اور پختگی کے ساتھ کیا ہے ۔فاروق نازکی نے والد سے فارسی ،اردو اور عربی کی تعلیم حاصل کی اور سری نگر سے میٹریکولیشن اور گریجویشن کرنے کے بعد شعبہ اردو کشمیر یونیورسیٹی سے اردو میں ایم اے کیا ۔اس کے بعد فاروق نازکی نے صحافت کی ڈگری اور تربیت یونیورسیٹی آف برلن،جرمنی سے حاصل کی۔ فاروق نازکی نے اپنی خداداد صلاحیتوں کی بنا پر مرکز اور ریاست میں مختلف اداروں سے وابستہ رہے ۔جب انہیں ریڈیو کشمیر سرینگر کا ڈائریکٹر بنایا گیا تو اس عہدہ کی ذمہ داریاں کس جس خوش اسلوبی نبھائیں اس کا اعتراف ان کے ساتھ کام کرنے والے افسران اور چھوٹے ملازمین آج بھی کرتے ہیں ۔ مثلاً بجاڑ صاحب کہتے ہیں’’فاروق نازکی ایک سادہ لوح انسان تھے کسی بھی طرح کے تکبر اور احساس برتری سے ماورا ۔ وہ بڑے افسران سے ہی نہیں چھوٹے ملازمین سے بھی ان کے کمروں میں جا کر بڑی اپنائیت سے جا کر ملتے تھے اور ان کی خیریت اور حالات اور شکایات پوچھتے اور فوری طور پر ان کا ازالہ کرنے کے لئے اقدامات بھی کرتے‘‘۔ریڈیو کشمیر کے حوالے سے دنیا جانتی ہے کہ آزادی کے بعد پہلے جموں میں آل انڈیا ریڈیو کا اسٹیشن قائم کیا گیا تو فاروق نازکی کے والد غلام رسول نازکی صاحب کو پروگرام اسسٹنٹ کے گزیٹیڈ عہدے پر فائز کیا گیا ۔ لیکن چند مہینوں کے بعد 1949میں سری نگر میں بھی آل انڈیا ریڈیو کشمیر نے کام کرنا شروع کردیا تو اس کے لئے غلام رسول نازکی کی ہی خدمات حاصل کی گئیں۔ ریڈیو کشمیر سے نشریات کا آغاز ان الفاظ سے کیا
’’یہ ریڈیو کشمیر سری نگر کشمیر ہے ۔حق و صداقت کی آواز ۔ریڈیو کشمیر ،نشریات کے اس تاریخ ساز دِن کا آغازمادرِمہربان بیگم شیخ محمد عبداللہ تلاوتِ کلام پاک سے کریں گی ‘‘۔
تلاوت کلام پاک کے بعد شریمد بھگوت گیتا اور گرو گرنتھ صاحب کے شبد بھی نشر کئے گئے ۔ اور پھر غلام رسول نازکی صاحب نے اعلان کیا ’’اب قومی کلچرل محاز کے فنکار مولانا محمد سعید مسعودی کا مقبول ترانہ پیش کریں گے‘‘ ؎
لہرا ، اے کشمیر کے جھنڈے طفل و جوان و پیر کے جھنڈے
بازوئے بے شمشیر کے جھنڈے لہرا اے کشمیر کے جھنڈے
(بحوالہ ۔ ’میرے استاد،میرے شفیق، نازکی صاحب ۔از پران کشور ۔مطبوعہ ۔ شیرازہ۔شمارہ۔۱۔تا ۵۔ص۔۱۶۷)
یہ زمانہ وہ تھا جب آل انڈیا ریڈیو کے ہیڈ کوارٹر سے نامور ادیبوں کو چُن چُن کر ریڈیو کشمیر میں کام کرنے کے لئے بھیجا جاتا تھا ،ان میںراجندر سنگھ بیدی، ارجن دیو رشک، سُہیل عظیم آبادی ، مضطر ہاشمی،کمال احمد صدیقی اور سلام مچھلی شہری وغیرہ کے اسمائے گرامی اہم ہیں۔اس زمانے میں مشہور محقق و ادیب جناب محمد یوسف ٹینگ بھی ریڈیو کشمیر سے براڈ کاسٹر کی حیثیت سے وابستہ تھے اور خبریں رپورٹیں اور دیگر پروگرام پیش کیا کرتے تھے ۔ غلا م رسول نازکی ، جواب جُملہ ، گنبد کی آواز اور ’آج کی بات وغیرہ مختلف پروگراموں کے اسکرپٹ لکھتے تھے ۔ صاف ظاہر ہے کہ فاروق نازکی نے ’حرف و صوت ‘کے حوالے سے اپنے والد کی اس تخلیقی اور اظہاری ْ مہارتوں کو نئی بلندیوں تک پہنچایا۔اوتار موٹا ؔکے مطابق فاروق نازکی ایک الگ ہی مٹی سے بنا ہوا غیر معمولی انسان تھا۔ بے حد پڑھا لکھا ، مثبت سوچ کا مالک مہذب اور انسان دوست درویش صفت شخص تھا۔ فاروق نازکی نے ریڈیو اور دوردرشن کے ڈائریکٹر کی حیثیت سے مواصلات کے میدان میں ادب و ثقافت، سنیما اور فلسفہ کے حوالے سے امکانات کے نئے دروازے کھولے ۔ فاروق نازکی نے مالی اور تکنیکی سہولیات کی کمی کے باوجود عوامی ذہن سازی کے لئے ترسیل کے جدید ترین تجربے کئے ۔ ڈائریکٹر دوردرشن کی حیثیت سے انہوں سیکڑوں نئے آرٹسٹوں کواپنی صلاحیتوں کا مظاہرہ کرنے کے مواقع دئے اور انہیں اپنے مالی مسائل دور کرنے میں مدد کی ۔ جب کشمیر میں حالات خراب ہونے کے بعد دوسرے پنڈت بھائیوں کے ساتھ پنڈت فنکاروں کو بھی کشمیر چھوڑ کر جموں جانا پڑا ۔ان دنوں فاروق نازکی نے بحیثیت ڈائریکٹر کشمیر کے پرایئویٹ پروڈیوسروں کو واضح طور پر ہدایت دی کہ وہ اپنے پروڈکشن میں جلاوطن کشمیری پنڈت فنکاروں کو بھی شامل کریں کیونکہ وہ جموں میں بھوکوں مر رہے ہیں ۔ اور ایک پرودیوسر ایکٹر ایاش نے بتایا کہ انہوں نے اپنے بہت ساری ریکارڈنگ جموں میں صرف اس وجہ سے کی کہ پنڈت فنکاروں کو بھی کام مل سکے ۔ یہی وجہ ہے کہ فاروق نہ صرف دور درشن کے افسران اور ملازمین بلکہ عام سامعین بھی ان کا احترام کرتے تھے/ کرتے ہیں ۔
منفرد ذہانت ،سادگی اور نرم و ملائم لب و لہجے کی وجہ سے ادب و صحافت،موسیقی ،ساز و آواز اور بیوروکریسی کی دنیا کے بڑے بڑے سورماوئوں سے ان کے دوستانہ مراسم تھے ۔ ان میں سردار جعفری، مجروح سلطان پوری ، کملیشور( ہندی ادیب)غلام رسول سنتوش،کشیپ بندھو،جگر مراد آبادی ،گریش سکسینا ، فاروق عبد اللہ، شکیل الرحمن ، اور صادق علی (جعفر علی فنکار کے فرزند )۔فاروق کے دوستوں میں دانشوروں کی ا یک جماعت تھی ۔اس جماعت میں پی این کاچرو،شاعر مظفر عازم،پروفیسر کاک،جے ایل رینہ،چمن لال ابھئے ،پردھیمن کرشن واتل، صادق علی (ایم ایل سی) ،امین اندرابی، مشعل سلطانپوری،جواہر دھر(سیتا ٹریویلز)اور سِدھارت زارو وغیرہ شامل تھے۔فاروق نازکی ایک صوفی منش، سیکولر محب وطن کشمیری تھے۔کشمیر اور کشمیریت کے حوالے سے وہ علم اور معلومات کا دریا تھے۔جموں و کشمیر کی مذہبی ، سیاسی ، ثقافتی ،لسانی اور علمی و ادبی تاریخ ، عظیم شخصیات ،صنعت و حِرفت اور رسوم وروایات کی جتنی تہدار اور گہری واقفیت رکھتے تھے اس کی مثال کہیں اور نہیں ملتی۔ فاروق نازکی ’جہان گرد تھے ۔ ملک اور بیرون ملک کے ان گنت تہذیبی،علمی اور ادبی مراکز کی سیر کی لیکن وہ جہاں بھی گئے اور رہے، کشمیر ان کے ساتھ ساتھ رہا اور وہ ہر جگہ ایک مقام اور معیار سے کشمیر اور کشمیریت کی نمائندگی بھی کرتے رہے ۔ فاروق نازکی کا یہ بھی ایک منفرد اختصاص ہے کہ انہوں نے خود اپنی شاعری ،اپنے سکرپٹ ، ڈراموں اور فیچرس کے علاوہ ریڈیو
اور ’ٹیلی ویژن کے باصلاحیت قلم کاروں اور آرٹسٹوں کے وسیلے سے کشمیر کی ششجہات حقیقی تصویر دنیا کے سامنے پیش کرنے کا کارنامہ انجام دیا ۔ فاروق نازکی1999میں حکومت ہند کی وزارت نشریات سے ڈپٹی ڈائریکٹرجنرل کی حیثیت سے ریٹائر ہوئے ۔فاروق نازکیTake one Tvسے بھی وابستہ رہے۔ اس کے علاوہ وہ ریٹائر منٹ کے بعد ایک عرصہ تک حکومت جموں و کشمیر کے میڈیا ایڈوائزر کی حیثیت سے بھی کام کرتے رہے ۔
اردو دنیا فاروق نازکی کو ایک منفرد لب و لہجے کے شاعر کی حیثیت سے زیادہ جانتی ہے ۔ فاروق نازکی کے تین شعری مجموعے شائع ہو چکے ہیں ۔۱۔آخری خواب سے پہلے ۔۲۔لفظ،لفظ نوحہ۔۳۔یہ دھواں سا کہاں سے اٹھتا ہے (2018)۔ یہ مجموعہ لیاقت جعفری ،محمد سلیم وانی اور عمر فرحت نے مرتب کر کے شائع کروایا تھا ۔اس مجموعہ میں غزلوں اور نظموں کے علاوہ فاروق نازکی کی شاعری سے متعلق مشہور معاصر شاعر ظفر اقبال اور اردو میں جدید یت کے رحجان کے امام مشہور نقاد شمس الرحمن فاروقی کے خیالات بھی درج ہیں۔
کچھ عرصہ قبل فاروق نازکی نے اپنی شاعری کا ایک انتخاب مرتب کرنے کی ذمہ داری مجھے اور اپنے برادر خورد ایاز نازکی صاحب کو سونپی تھی ۔ چونکہ حضرت غلام رسول نازکی سے متعلق میری ایک مختصر کتاب (مونو گراف) 2016میں ’’قومی کونسل برائے فروغ اردو زبان ‘‘کی جانب سے شائع ہوچکی تھی، اس لئے میرے پاس محترم ایاز نازکی کا فراہم کردہ بہت سارا ’مواد ‘موجود تھا۔ اس لئے ایک رائے یہ بنی کہ میں ’’ دبستان نازکی ‘‘ کے نام سے ایک جامع کتاب ترتیب دوں جس میںخانوادہِ نازکی کے نسلی پس منظر،شجرہ نسب وغیرہ کے علاوہ غلام رسول نازکی ، فاروق نازکی اور ایاز نازکی کی شخصیت ، احوال و کوائف اور شعری و ادبی کارناموں کا تفصیلی جائزہ پیش کیا جائے ۔ اس منصوبے پر بہت سارا کام بھی ہوا،لیکن پھر ’کورونا‘ کا شکار ہوجانے کی وجہ سے یہ کام پایہ تکمیل کو نہ پہنچ سکا لیکن اب جب کہ فاروق نازکی نہیں رہے، ان کو سب سے اچھا خراج عقیدت یہی ہوگا کہ’ دبستان نازکی ‘ مکمل کرنے کا خواب شرمندہ تعبیر ہو جائے۔
(مضمون نگار سابق صدر شعبہ اردوکشمیر یونیورسٹی ہیں اور ان سے موبائل نمبر 9419010472پر ابطہ کیاجاسکتا ہے ۔زیر نظر مضمون ایک طویل مقالے کا حصہ ہے)۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔