سید مصطفیٰ احمد
مادہ پرستی نمکین پانی کی طرح ہے۔ ایک انسان اسے جتنا پیتا ہے اتنی ہی اس کی پیاس بڑھ جاتی ہے۔جب سے میں نے ہوش سنبھالا ہے تب سے لے کر آج تک میں نے ہر انسان کو مادہ پرستی کے خلاف بولتے ہوئے سنا ہے۔ ایسا کیا اس مادیت میں چھپا ہے کہ سارے اس سے دور رہنے کی تلقین کرتے ہیں۔ لیکن کچھ اشخاص ایسے ہیں، جنہوں نے مادہ پرستی کے بھنور میں ایک راستے کو چن لیا ہے جو ساحل تک لے جاتی ہے۔ یہ نائو مادہ پرستی کی ہوس میں حقیقی عشق کی تمثیل پیش کرتی ہے۔ لیکن یہ میرا موضوع نہیں ہے۔ اس کے متعلق اگلے مضمون میں بات ہوگی۔ اگر ساری چیزوں کا بغور جائزہ لیا جائے تو یہ بات عیاں ہے کہ مادہ پرستی میں کہیں نہ کہیں ایسے جان لیوا کیڑے چھپے ہیں جو ایک انسان کو اندر ہی اندر سے کھوکھلا کرتے ہیں۔ لیکن پھر بھی انسان زیادہ سے زیادہ مادیت کے سامان جمع کرنے کی فکر میں رہتاہے۔ اس سے بڑھ کر جو بات قابل توجہ ہے ،وہ یہ ہے کہ مادہ پرستی کے بنیادی محرکات یا وجوہات کیا ہیں۔ کچھ کا مختصر ذکر آنے والی سطروں میں کیا جارہاہے۔
پہلا ہے دنیا پرستی۔دنیا کی ہوس ہی اصل میں مادہ پرستی کی جڑ ہے۔دنیا کی رنگینیاں اتنی پرکشش ہیں کہ ایک ذی حس انسان بھی متاثر ہوئے بغیر نہیں رہ سکتا ہے۔ انسان کے اندر چیزوں کی کشش قدرتی ہے۔اس کے اندر موجودحیوانی خصائل کی پیاس دنیا کی بہت ساری چیزوں سے وقتی طور بجھ جاتی ہیں۔ اس صورتحال میں ایک انسان کو لگتا ہے کہ دوسری قسم کی پیاس کو بھی دنیا کی دوسری چیزوں سے بجھایا جاسکتا ہے۔ اس طرح ایک انسان نہ تھمنے والی ہوس کا شکار ہوتا ہے جس سے نکلنے کی کوئی بھی راہ دکھائی نہیں دیتی ہے۔
دوسری وجہ ہے لالچ۔ ایک انسان کی ترقی دوسرے انسان کو ہضم نہیں ہوتی ہے، جس کی وجہ سے مادہ پرستی کی دوڑ میں اور اضافہ ہوتا ہے۔اگر ایک انسان کے پاس عالی شان محل اور چمچاتی گاڑیاں ہوں، تو دوسرا انسان اس ٹوہ میں رہتا ہے کہ کیسے اس امیر انسان کو پیچھے چھوڑ کر اس سے بڑے اور شاندار محلوں کی قطار کھڑی کردوں۔ یہ سلسلہ پھر نہ رکنے کا نام لیتے ہوئے ذلت کی موت پر اختتام ہوتا ہے۔پھر یاس و امید کے سوا کچھ بھی نہیں حاصل ہوتا ہے۔
تیسری وجہ ہے آخرت کی فراموشی۔ ترقی کی اس دوڑ نے خدا بیزار سماج کو جنم دیا ہے۔ اب لوگ تسلیم شدہ حقائق کو غلط ثابت کرنے کے لئے ایڑی چوٹی کا زور لگاتے ہیں۔ خدا کے وجود سے انکار کرنے کا نتیجہ اس شکل میں نکلا ہے کہ دنیا کی یہ چار روزہ زندگی سب کچھ دِکھتی ہے۔ جوابدہی کا ڈر اور نہ جنت اور جہنم کی پروا ہ نے لوگوں کو لاپرواہی کے دلدل میں دھکیل دیا ہے۔ اب سچ جھوٹ اور جھوٹ سچ دکھائی دیتا ہے۔ان لوگوں کو حقارت کی نگاہوں سے دیکھا جاتا ہے جو مادیت کی راہ میں روڑے اٹکاتے ہیں ۔ ان لوگوں کی باتوں کو ردی کی ٹوکری میں پھینک دیا جاتا ہے۔
چوتھی وجہ ہے نفس امارہ۔ اس قسم کا نفس ایک انسان کو حیوان بنا دیتا ہے۔ جو نفس بے لگام ہوجاتا ہے وہ مادیت کی پوجا کرنے لگتا ہے۔ نفس امارہ گند کا شوقین ہے۔ یہ نفس ایک انسان کی اندرونی اور بیرونی کوتاہیوں کا ناجائز فائدہ اٹھا کر اس کو انسان رہنے نہیں دیتا ہے۔یہ نفس ہر جگہ رسوائی کے ساتھ ملاقات کرواتا ہے۔ اس نفس کی وجہ سے جھوٹی تعریفیں سننے کا شوق بڑھنے لگتا ہے۔ اس طرح آہستہ آہستہ انسان مادہ پرستی کی ایسی خوفناک وادیوں میں داخل ہوجاتا ہے، جہاں سے لوٹ کر پھر کوئی صدا نہیں آتی ہے۔ لیکن ایک چیخ ضرور آتی ہے جو دوسروں کو اس نفس کی چالاکیوں سے دور رہنے کی التجائیں کرتی ہے۔
اس مادہ پرستی نے دنیا کو جنگوں کی آماجگاہ بنا دیا ہے۔ ایک ملک دوسرے ملک کے ساتھ نبرد آزما ہے۔ معصوموں اور بزرگوں کا خون ناحق بہایا جارہا ہے۔ لوگ ایک دوسرے کا گلا کاٹنے پر بضد ہیں۔ قدرتی وسائل کا زیاں ہورہا ہے ۔ سبز سونا، کالا سونا اور بھورا سونا انسان کی لالچ کے نذرہوگئے ہیں۔ ہر طرف کثافت کا بول بالا ہے۔ کہیں پر سیلابی صورتحال ہے تو کہیں زمین پانی کے لئے ترس رہی ہے۔ایک جگہ پر لوگ زیادہ کھانے سے موت کے منہ میں جارہے ہیں ،تو دوسری جگہ پر غذا کی قلت کی وجہ سے لوگ تڑپ تڑپ کر مر رہے ہیں۔ کسی کے ہاتھ میں اعلیٰ تعلیمی اداروں کی حاصل شدہ اسناد ہیں، تو دوسری طرف کچھ بچے سکول کے خواب دیکھنے سے بھی قاصر ہیں۔ اس کے علاوہ بےقراری اور بےسکونی لگ بھگ ہر انسان کا مقدر بن گئی ہے۔ قرار پانے کے لئے اب مختلف نشیلی ادویات کا استعمال کیا جاتا ہے۔ کسی کا گلا کاٹ کر بڑی پراپرٹی بنانے والے آج ایک کمرے میں پڑے ہوئے ہیں۔ یہ مادہ پرستی کا نتیجہ ہے۔ہسپتالوں میں لوگوں کی قطاریں لگی ہیں۔ وجہ ہے مادہ پرستی۔ گھروں کے گھر تک تباہ ہورہے ہیں کیونکہ مادیت نے ہمارے اذہان پر قابو پالیا ہے۔ باپ بیٹے سے بیزار اور بیٹا باپ سے۔ اس طرح مادہ پرستی کے اتنے نقصانات ہیں کہ گننا بھی مشکل ہے۔ایک باوقار زندگی گزارنے کے لئے ایک انسان کو چاہیے کہ وہ بتائے گئے راستے کی طرف لوٹ آئیں۔ ابھی بھی دیر نہیں ہوئی ہے۔ اپنا محاسبہ کرکے ان برائیوں کو مٹانے کی کوششیں کریں جو کامل انسان بننے کی راہ میں رکاوٹیں کھڑی کررہی ہیں۔ قناعت سب سے بڑی دولت ہے۔ ایک انسان کی زندگی تب بھی ممکن ہے اگر وہ صرف بنیادی ضروریات کو پورا کرنے کی فکر کرے۔ زیادہ کی ہوس ہی ایک انسان کو اندھا کر دیتی ہے۔ سقراط نے بھی قناعت کو سب سے بڑی دولت کہا تھا۔ اس کے مطابق زندگی کے ہر معاملے میں اطمینان کا رویہ سب سے اعلیٰ منصوبہ بندی ہے۔ مزید برآں اپنے سے پست لوگوں کی طرف دیکھنے سے زندگی میں سکون پیدا ہونے کے مواقع بڑھ جاتے ہیں۔ ان کی بے بسی کو دیکھ کر اللہ کی دی ہوئی نعمتوں پر شکر گزار ہونے کا مادہ پیدا ہوجائے گا۔ غرباء کے ساتھ بھی اٹھنا بیٹھنا اپنا معمول بنائیں۔ زمین پر ننگے پیر چلنے کی بھی عادت ڈالیں۔ اس سے غرور ٹوٹ جاتا ہے اور انسان کا دل نرم ہوجاتا ہے۔ قبرستان کا چکر لگانا بھی مادہ پرستی کا بڑا توڑ ہے۔ دنیا کی ناپائیداری کی سمجھ انسان کی نفسیات پر گہرا اثر ڈالتی ہےاور جاتے جاتے ہم سب کو چاہئے کہ زیادہ کی طلب کی میں اللہ کی دی ہوئی نعمتوں سے ہاتھ نہ دو بیٹھیں۔ توکل کا مادہ زیادہ سے زیادہ پیدا کرنے کی کوششیں کریں۔ توکل ایسی سواری ہے جو اپنے سوار کو کبھی بھی گرنے نہیں دیتی ہے۔ جینا ہمارے ہاتھ میں ہے تو کیوں نہ ہم ایسی زندگی گزاریں کہ ہم امر ہوجائیں۔ یہ زندگی خوشیوں کی نوید لیکن غموں کو دفع کرنے کا بہترین خاکہ بنے۔ تو آج سے ہی مادہ پرستی کی ہوس کو کم کرتے ہوئے خدا پرست بننے کی کوشش کریں اور یہی وقت کی ضرورت ہے۔
)حاجی باغ بمنہ، سرینگر،رابطہ۔9103916455)