سہیل سالم
بستی میں جب سے نیا موسم وارد ہوچکا تھا تو ہر طرف اندھیرا ہی اندھیرا تھا۔لوگ روشنی کی تلاش میں سرگرداں پھرتے رہتے تھے۔ روشنی ہوتی ہے یا نہیں ۔اندھیرا ختم ہوگا یا نہیں ہوگا۔اندھیرے کے بارے میں آپ کیا جانتے ہیں ۔روشنی کے وجود کے بارے میں آپ کی کیا رئے ۓ ہیں۔
یہ تمام سوالات میں آپ کے افہام وتفہیم کے حوالے کرتا ہوں لیکن یہ بات بھی اہم ہے کہ جب روشنی کی زمین میں اندھیرے کا بیج بویا جائے تو ہر طرف اندھیرا ہی اندھیرا اُگ سکتا ہے۔ایک صبح یونیورسٹی کے ڈائنگ ہال میں ناشتہ کرنے کے بعد میں اپنے دوست جمیم کے ساتھ اندھیرے کے متعلق بحث و مباحثہ کر رہا تھا، تو وہ بھی اندھیرے کا خیر خواہ نکلا۔
“کیا تم روشنی کے خلاف ہو؟”
“جی ہاں” ۔”اس نے سنجیدگی سے کہا ۔آج شام کو میرے ساتھ سیاہ بابا کے یہاں چلئے۔”
“سیاہ بابا کے یہاں ۔۔۔وہاں کیا ہوگا۔”
“سیاہ بابا کے یہاں ۔۔۔وہاں گواہ بھی ملیں گے اور ثبوت بھی ۔”
“جی ضرور”
سیاہ بابا کی حویلی بڑے بڑے سیاہ پتھروں کی تھی۔بڑے بڑے سیاہ پتھر، لیکن خوفناک، جن سے اندھیرا کا رس ٹپک رہا تھا ۔حویلی کے آنگن میں سیاہ لوگوں کے علاوہ بے بس ،کمزور ،لاچار بچوں اور لوگوں کا جم غفیر بھی موجود تھا۔ان میں سے کئی بچے روشنی کی چمک دمک کو بر قرار رکھتے ہوئے نفسیاتی مریض بن گئے تھے۔
“آؤ بچے کیسے آنا ہوا؟”
“سیاہ بابا ۔یہ میرا بھائی موسی ہے۔اس نے آپ کے بارے میں سنا تو آپ کی خیریت اور حال چال پوچھنے کے لئے چلا آیا۔”
“بیٹھ جاؤ بچے۔”سیاہ بابا کے سامنے ایک معصوم لڑکا تھا جس پر چراغ کا سایہ تھا۔وہ آفتاب طلوع ہونے کے بعد چراغ ہاتھ میں لے کر بستیوں کو روشن کرتا تھا۔سیاہ بابا نے اپنے منتر سے اس کے من اور تن سے روشنی پھیلانے کی صلاحیت چھین لی اور اس کے بھائی سے پانچ ہزار لے کر اس کے خمیر میں اندھیرے کا بیج بو دیا۔
اس کے بعد یونورسٹی کی ایک پروفیسر صاحبہ اپنے خوبصورت اسکالر کے ساتھ داخل ہوئی۔
“سیاہ بابا۔یہ میرا اسکالر ہر روز میرے کمرے میں نئے نئے چراغ جلا کر اندھیرے کا قلع قمع کرتا رہتا ہے۔
سیاہ بابا نے ایک سیاہ پتھر نکالا ۔اس پر کچھ منتر پڑھا اور اس کے ماتھے پر ضرب کا نشان لگا کر کہا۔۔
“روشنی، نور، اُجالا، آب و تاب، چمک دمک سب ختم…”
یہ کہتے ہوئے بابا نے پتھر اس کے دونوں ہاتھوں پر رکھا۔
بتاؤ۔۔۔کہاں سے آئے ہو۔۔ اُجالا۔۔۔روشنی کیوں پھیلا رہے ہو۔۔نور کے ساتھ کیا رشتہ ہے۔۔۔۔تو کیوں اپنے آس پاس کے اندھیرے کو نگلنا چاہتے ہو۔
“تو کہاں سے آیا ہے۔۔۔تو کون ہے۔۔۔۔نالائق ۔۔۔”
بتاؤ کہاں سے آئے ہو۔۔۔بدبخت—-”
“اسکالر بولنے لگا۔”
“میرے خمیر میں نور پور کی مٹی شامل ہے۔میں نور پور کا رہنے والا ہوں ۔یہ پتھر ہٹائیے ،درد ہو رہا ہے۔۔۔آہ۔۔۔آف۔۔۔آ۔۔۔۔”
“میں مر گیا ۔میرا دم گھٹ رہا ہے ۔”
“سیاہ بابا۔اب بتاؤ روشنی پھیلانے کا پھر سے انتظام کرو گے ۔”
چراغ روشن کرنا چھوڑ دو ورنہ تمہاری آنکھیں حویلی کے کوے نوچ لینگے اور تمہاری روشنی کےسارے خواب ریزہ ریزہ ہوکر حویلی کے آنگن میں بکھر جائینگے۔
“ہا ہا ہا.کیا بک رہے ہو”
“سیاہ بابا ۔میں نے اپنی آنکھوں کی روشنی بھی دان کی ہے اور خود کو بھی۔میں نہ اس حویلی کے اندھیرے سے اور نہ ہی بستی کے اندھیرے سے ڈرتا ہوں۔میں نے اپنے من کے چراغ کو روشن رکھا ہے۔”
یہ سنتے ہی وہاں سارے لوگ اس اسکالر کی اور تجسس بھری نظروں دیکھنے لگے۔اس اسکالر کی ہمت دیکھ کر وہاں سارے لوگوں کے چہرے کُھل اُٹھے ۔کبھی میں موسی کو دیکھتا رہا،کبھی اپنے دوست جمیم کو،کبھی پروفیسر صاحبہ کے چہرے کو اور کبھی سیاہ بابا کی شان و شوکت کو دیکھتا رہا اور یہ سوچنے لگا کہ روشنی اور اندھیرے کی نئی تھیوری کا مستقبل کیسا ہوگا۔بستی اور حویلی کا آنے والا نیا موسم اور کیا لے کے آئے گا۔
���
رعناواری سرینگر
موبائل نمبر؛9103654553