منظور الہیٰ ترال
نئی نسل کسی بھی ملک کی معاشی،تعلیمی، اقتصادی اور سماجی فلاح و بہبود و ترقی میں ریڑھ کی ہڈّی کی حیثیت رکھتی ہے۔کہتے ہیں کہ جوانی وہ عرصہٴ حیات ہے، جس میں انسان کےارادے بہت قوی ومضبوط اور حوصلے بُلند ہوتے ہیں۔ایک باہمت جوان پہاڑوں سے ٹکرانے،طوفانوں کا رُخ موڑنے اور آندھیوں سے مقابلہ کرنے کا عزم رکھتا ہے اور نوجوان نسل ہی قوم کی تقدیر بدل سکتی ہیں۔ معاشرے میں نوجوان ایک اہم کردار نبھاتا ہے، ہم اگر ماضی پر نظر دوڑائیں تو ایک زمانہ تھا، جب اسکولوں، کالجوں میں کھیل کے میدان ہوتے تھے، جہاں کھیلوں کے مقابلے منعقد کئے جاتے تھے، اس میں ہر طبقے کے بچّے شامل ہوتے تھے، ان کھیلوں کے ذریعےبچوں میں صبر و برداشت،دوڑ دھوپ اورمقابلہ کرنے کے جذبات پیدا ہوتے تھے،مگر افسوس کہ آج ہماری نوجوان نسل جہد و عمل سے کوسوں دور ہوکر انٹرنیٹ اور منشیات کے خوف ناک حصار میں جکڑی ہوئی ہے ،اُسے اپنے مستقبل کی کوئی فکر نہیں،وہ توبس اپنی متاع حیات سے بے پرواہ ہوکر تیزی کے ساتھ منشیات جیسے زہر ہلاہل کو قند سمجھ رہی ہےاور بُربادی و ہلاکت کے گھاٹ اُتر رہی ہے۔اب تو سگریٹ وشراب نوشی کی وجہ مجبوری یا ڈپریشن نہیں دکھائی دیتی ہےبلکہ کہ ہم عصروں اور دوستوں صحبت ہی اُن کے دل میں انگڑائی لینے والا وہ غلط جذبہٴ شوق ہے،جواِن کی جوانیوں کو تباہ کرکے زندگی کو تاریک اور صحت کوبہ تدریج کھوکھلا کررہاہے۔اکثر دیکھا گیا ہے کہ دوسروں کی دیکھا دیکھی میں ایک دو بارنشہ استعمال کرنے والا فرد کچھ عرصے بعد ہی اس کا عادی بن جاتا ہے، پھر وہ اپنی زندگی کا بیشتر حصہ اس کی تلاش، خرید اور استعمال میں صرف کردیتا ہے اور چاہ کر بھی اس عمل کو روک نہیں سکتاہے ،جس کے نتیجے میں اس کی زندگی کے تقریباً سبھی اہم معاملات متاثر ہوجاتے ہیں۔ ایک تشویش ناک امر یہ بھی ہے کہ منشیات کی اس غلیظ وباءکے شکار نوجوانوں کی تعدادمیں دن بہ دن اضافہ ہوتا جا رہا ہے جو کہ ایک لمحہ فکریہ ہے۔ ہمارے مسلم معاشرہ کے نوجوان اس طرح منشیات کا استعمال کرتے ہیں جیسے کہ کوئی صحت مند حلال چیز ہو۔ جموںو کشمیر میں منشیات کی خرید و فروخت اور استعمال کے تئیں جہاں معاشرے کا ہر فرد فکر مندی کی بات کررہا ہے وہیں اس زہریلی وباء کو کنٹرول کرنے کے لئےحکومتی ایجنسیاں بھی سرگرم ِ عمل ہیں،نیز جموںو کشمیر کے بعض پرائیویٹ فلاحی ادارے بھی اس وباء کو روکنے کی پہل کر رہے ہیں جبکہ خطہ کے علمائے کرام اور ائمہ حضرات بھی اس غلیظ اور ہلاکت خیز وباء سے بچنے کے ہدایات اور تدابیر بیان کرکے اپنے فرائض انجام دے رہے ہیں۔اسی طرح دانشور طبقہ،قلمکار اور صحافتی ادارےبھی اپنا اپنا حتی المکان کردار ادا کررہے ہیں تاکہ منشیات کے دھندے اور اس کےاستعمال کی لت میںمبتلا نوجوان ہدایت کی راہ پر آ جائیں ،لیکن بد قسمتی سے اس زہریلی وائرس کو روکنے کے لیے تمام تر کوششیں ناکام ہی ثابت ہو رہی ہیں اور منشیات فروشوں کی تعداد میں دن بدن اضافہ ہوتا جا رہا ہے۔ نئی جنریشن منشیات کے سمندر میں ڈوب رہی ہےاور ہر طبقہ سے وابستہ ذی ہوش افراد فکر مند ہے اور اسی امید کا طلبدار ہے کہ کب وادیٔ کشمیرکو اس غلاظت کی وباءسے چھٹکارا حاصل ہوجائے۔ بعض حلقوں کا کہنا ہے کہ جب تک منشیات کے استعمال کو بڑھا وادینے والے اسباب ومحرکات کےخاتمے کے لئے سنجیدہ اور ٹھوس اقدامات نہیںاُٹھائے جاتے ،تب تک اس مسئلے کو کنڑول نہیں کیا جا سکتا ہے۔ اور زندگی کے دیگر شعبوں سے تعلق رکھنے والے ذمہ داران بالخصوص علمائے کرام وغیرہم منبرومحراب سے منشیات کی روک تھام کے لیے سنجیدگی کے ساتھ اپنی کوششیں جاری رکھے ہوئے ہیں۔ لیکن سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ آخر بہت سارے نوجوان ایسے بھی ہیں ،جنہوں نے بڑی بڑی ڈگریاں حاصل کی ہیں،کیوں منشیات کا استعمال کر رہے ہیں؟اور وہ کیوں ڈپریشن کے شکار ہو کر منشیات کے دھندے میں پھنس جاتے ہیں؟بیشتر عوامی حلقوں کی یہی رائے ہے کہ اس ساری صورت حال کی بنیادی وجہ بے روز گاری ہے۔ اس لیے سرکار کو چاہیے کہ ایسے نوجوانوں کے لیے کوئی سکیم ترکیب دے تاکہ جو ڈگری یافتہ نوجوان جو گھروں میں بیٹھے بیٹھے ڈپریشن کے شکار ہو رہے ہیں، کے لیے روزگار کے وسائل پیدا ہو سکیں ۔ تمام والدین کے لئے لازم ہےکہ وہ اپنے بچوںکی ذہنی،جسمانی اور اخلاقی کیفیات کو سمجھیںاور اُنہیںعصری تعلیم کے ساتھ ساتھ دینی تعلیم سےبھی آراستہ کروائیں تاکہ وہ زندگی کے تمام معاملات کوحقیقی معنوں سمجھ پائیں۔جبکہ معاشرے کا ہر ذی ہوش فرد اس غلیظ دھندے میں ملوث کسی بھی عنصر کی پردہ پوشی کرنے کی کوشش نہ کرےاور جو کوئی بھی منشیات کے دھندے یا منشیات کے استعمال میں ملوث ہو ،اُسے سرِعام ننگا کرکے قانون کے حوالے کریں۔پولیس کو بھی چاہیے کہ اس ذلیل اور زہریلے کاروبار میں ملوث،چاہے وہ مرد ہویا عورت کے خلاف سخت سے سخت کاروائی کر کے سلاخوں کے پیچھے ڈالیں تاکہ آنے والے کل میں جموں کشمیر منشیات کی اس غلیظ و ہلاکت خیز وباءسے صاف و پاک ہوجائے۔
<[email protected]>