پیرپنچال کا خطہ اپنی قدرتی خوبصورتی اور ثقافتی دولت سے مزین ہے اور فطرت کی گود میں بسا ہوا پیرپنچال کا خطہ ایسی امنگوں اور خوابوں کی آبیاری کرتا ہے جنہیں ایک مضبوط اور توجہ دینے والے اعلیٰ تعلیمی نظام کے ذریعے پروان چڑھایا جا سکتا ہے۔پیرپنچال کا خطہ اعلیٰ تعلیمی اداروں میں بنیادی سہولیات کی کمی،سٹاف کی قلت ،عمارتیوں کی عدم موجودگی ودیگر بنیادی سہولیات کی قلت سے دوچار ہے جس کی وجہ سے بہت سے خواہشمند طلباء کو معیاری تعلیم تک محدود رسائی حاصل ہے۔ جغرافیائی طور پر ایک مشکل خطے میں کئی ایک مقامات پر اعلیٰ تعلیمی اداروں کی قلت پائی جارہی ہے جبکہ جن علاقوں میں اعلیٰ تعلیمی ادارے قائم ہیں ان میں سے کئی ایک کی عمارتیں پوری طرح سے دستیاب نہیں ہیں اور کچھ میں دیگر بنیادی سہولیات میسر نہیں جبکہ کچھ ایسے بھی کالج ہیں جہاں پر بچوں کیلئے کالج میں تمام سبجیکٹ ہی دستیاب نہیں ہیں ۔خطے میں موجودہ اعلیٰ تعلیمی اداروں کو بنیادی ڈھانچے کی قلت کا سامنا ہے، پرانے کلاس رومز، ناکافی لائبریریاں، اور جدید سہولیات کی کمی مجموعی سیکھنے کے تجربے میں رکاوٹ ہے۔ ان کمیوں کو دور کرنا ،تعلیمی ترقی کیلئے سازگار ماحول کو فروغ دینے کیلئے بہت ضروری ہے۔اہل فیکلٹی ممبران کی کمی پیر پنجال میں اعلیٰ تعلیم کے معیار میں ایک اہم رکاوٹ ہے۔ طالب علموں کو ایک بہترین اور عصری تعلیمی تجربہ فراہم کرنے کے لیے ہنر مند معلمین کو راغب کرنا اور برقرار رکھنا بہت ضروری ہے۔بہت سے اعلیٰ تعلیمی اداروں کے نصاب میں اکثر تنوع کا فقدان ہوتا ہے، جو طلباء کے لئے دستیاب انتخاب کو محدود کر دیتا ہے۔ پیشہ ورانہ اور ہنر پر مبنی پروگراموں سمیت کورسز کی صف کو بڑھانا نوجوانوں کی متنوع دلچسپیوں اور خواہشات کو بہتر طریقے سے پورا کر سکتا ہے۔خطے کے بیشتر کالجوں بلکہ سبھی کالجوں میں بیچلر آف بزنس ایڈمنسٹریشن،میوزک ،ارضیات،شعبہ ابلاغ عامہ اور صحافت،شماریات،پبلک ایڈمنسٹریشن کیساتھ ساتھ دیگر اہم شعبوں کا آج تک شروع ہی نہیں کیاگیا جس کی وجہ سے طلباء پرانے طرز عمل سے گریجویشن کر کے پوسٹ گریجویشن کی جانب جاتے ہیں اور اُس کے بعد سرکاری نوکری کا انتظار کرتے ہیں جس کی وجہ سے خطہ میں بے روز گاری کی شرح بڑھتی جارہی ہے ۔خطہ پیر پنچال کے دونوں اضلاع میں اس وقت ایک درجن کے قریب گور نمنٹ کالج قائم ہیں لیکن ان میں سے بیشتر کالجوں کی عمارتیں ہی مکمل نہیں ہیں جبکہ کچھ ایک کالجوں کی عمارتیںگزشتہ کئی برسوں سے تعمیر ہی نہیں ہو سکی جس کی وجہ سے بچے سرکاری سکولوں میں کالج کی تعلیم حاصل کررہے ہیں جن میں کوٹرنکہ اور منڈی کالج شامل ہیں ۔اس کے علاوہ راجوری ضلع کے منجا کوٹ اور پونچھ ضلع کے بالاکوٹ علاقہ کی عوام گزشتہ کئی عرصہ سے کالج کے قیام کا مطالبہ کررہے ہیں لیکن مشکلات حالات میں مذکورہ علاقوں کے بچے دیگر علاقوں میں قائم کالجوں میں جانے پر مجبور ہیں ۔پیشہ ورانہ تربیت اور ہنرمندی کی ترقی کے پروگراموں کو اعلیٰ تعلیم میں ضم کرنے سے روزگار میں اضافہ ہو سکتا ہے اور تعلیمی پیشکشوں کو خطے کی معاشی ضروریات کے ساتھ ہم آہنگ کیا جا سکتا ہے۔ انتظامیہ کو چائیے کہ وہ خطہ کے کالجوں میں سبھی مضمومین بالخصوص ہنر پر مبنی شعبوں کو شامل کر کے بچوں کو ان شعبوں میں تعلیم حاصل کر کے خود روز گار کمانے کے اہل بنایا جائے ۔یہ نقطہ نظر اس بات کو یقینی بناتا ہے کہ گریجویٹس مقامی صنعتوں سے متعلقہ عملی مہارتوں سے لیس ہیں۔حکومتی اقدامات، پالیسیاں، اور مالی مدد اعلیٰ تعلیم کے منظر نامے کی تشکیل میں اہم کردار ادا کرتی ہے۔ بڑھتی ہوئی فنڈنگ، سٹریٹجک پالیسیوں، اور ہدفی مداخلتوں کی وکالت پیر پنجال میں مثبت تبدیلیوں کو آگے بڑھا سکتی ہے۔آن لائن کورسز اور ورچوئل لرننگ ماحول جغرافیائی رکاوٹوں کو دور کر سکتے ہیں، طلباء کو تعلیمی وسائل اور مواقع کی وسیع رینج تک رسائی فراہم کرتے ہیں۔پیر پنجال میں اعلیٰ تعلیم پر فوری توجہ دینے کی ضرورت محض ایک تعلیمی ضرورت نہیں ہے۔ یہ خطے کے مستقبل میں سرمایہ کاری کرنے کا مطالبہ ہے۔ چیلنجوں سے نمٹ کر اور مواقع کو قبول کر کے، ہم فروغ پذیر اعلیٰ تعلیمی نظام کی راہ ہموار کر سکتے ہیں۔