سیّد آصف رضا ۔ناربل
حضرت اُسامہ بن زید ؓ، حضرت زید بن حارثؓ کے فرزند تھے۔ آپؓ ہجرت سے سات سال قبل مکّہ میں پیدا ہوئے۔ اپنے والد محترم کی طرح حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ ساتھ رہتے تھے۔ حضورؐ بھی حضرت اسامہؓسے بہت محبت فرماتے تھے، اسی لئے آپؓ کا لقب’’حِب‘‘ اور’’ابن الحِب‘‘ (محبوب بن محبوب) پڑ گیا۔
سنہ۱۱ ہجری میں حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے رومیوں کے خلاف جنگ کے لئے ایک فوج کی تیاری کا حکم دیا اور اس میں جلیل القدر صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کو شامل کیا۔ حضرت اُسامہؓ کی عمر اُس وقت تقریباً 20 سال تھی۔ حضورؐ نے اس پوری فوج کی قیادت آپ رضی اللہ عنہ کے سپرد فرمائی۔
حضرت فاروق اعظم رضی اللہ عنہ جب آپؓ سے ملتے تو فرماتے’’مَرْحَبًا باَمِیْرِی‘‘ (میرے امیر! خوش آمدید)۔
حضرت اُسامہ ؓ اپنا ایک واقعہ یوں بیان فرماتے ہیں :
’’رسول اللہؐ نے ہمیں جہاد کے لئے حرقہ کی طرف روانہ کیا جو قبیلہ جہینہ کی ایک شاخ ہے۔ ہم صبح وہاں پہنچ گئے اور انہیں شکست دے دی۔ میں نے اور ایک انصاری نے مل کر اس قبیلہ کے ایک شخص کو گھیر لیا، جب ہم اس پر غالب آ گئے تو اس نے کہا: لَا اِلٰہَ اِلَّا اللہُ۔ انصاری تو (اس کی زبان سے) کلمہ سن کر الگ ہو گیا لیکن میں نے نیزہ مار مار کر اسے ہلاک کر ڈالا۔ جب ہم واپس آئے تو حضور نبی اکرمؐ کو بھی اس واقعہ کی خبر ہو چکی تھی۔ حضورؐ نے مجھے فرمایا: اے اسامہؓ! تم نے اسے کلمہ پڑھنے کے بعد قتل کیا ہے؟ میں نے عرض کیا: یا رسول اللہؐ! اُس نے جان بچانے کے لئے کلمہ پڑھا تھا۔ پھر فرمایا: تم نے اسے کلمہ پڑھنے کے بعد قتل کیا؟ حضورؐ بار بار یہ کلمات دہرا رہے تھے اور میں افسوس کر رہا تھا کہ کاش آج سے پہلے اسلام نہ لایا ہوتا۔‘‘(ایک اور روایت میں ہے)’’حضور نبی اکرمؐ نے حضرت اسامہ ؓ کو بلا کر دریافت کیاکہ تم نے اسے کیوں قتل کیا؟ عرض کیا: یارسول اللہؐ! اس نے مسلمانوں کو تکلیف دی، چند صحابہ کرامؓ کا نام لے کر بتایا کہ فلاں فلاں کو اس نے شہید کیا ہے۔ میں نے اس پر حملہ کیا جب اس نے تلوار دیکھی تو فوراً کہا: لا اِلٰہ الا اللہ۔ رسول اللہؐ نے فرمایا: تم نے اسے قتل کر دیا؟عرض کی: جی حضورؐ! فرمایا: فَکَیْفَ تَصْنَعُ بِلَا اِلَہَ اِلَّا اللّٰہُ اِذَا جَاءَتْ یَوْمَ الْقِیَامَۃِ؟ (جب روزِ قیامت لا اِلٰہ الا اللہ کا کلمہ آئے گا تو تم کیا جواب دو گے؟) عرض کیا: یا رسول اللہؐ! میرے لئے استغفار کیجیے۔ آپؐ نے پھر فرمایا: جب روزِ قیامت لا اِلٰہ الا اللہ کا کلمہ آئے گا تو تم کیا جواب دو گے؟ حضورؐ بار بار یہی کلمات دہراتے رہے کہ جب قیامت کے دن لا اِلٰہ الا اللہ کا کلمہ آئے گا تو اس کا کیا جواب دو گے؟‘‘
(بخاری: کتاب المغازی، الرقم: ۴۰۲۱، کتاب الدیات، الرقم: ۶۴۷۸، مسلم: کتاب الایمان، الرقم: ۹۴-۹۷)
ہم اپنی حالت پر نظر ڈالیں۔دورِ حاضر میں ذرا سا اختلاف کیا ہوا لوگوں کو دائرہ اسلام سے خارج کر دیا! کہیں شرک کے فتوے ہیں تو کہیں کفر کے الزام! غور فرمائیں! حضرت اسامہؓ، حضور نبی رحمت صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے ساتھ قربت ہونے کے باوجود اپنے فعل پر اظہارِ افسوس کرتے ہیں اور فرماتے ہیں ’’کاش آج سے پہلے اسلام نہ لایا ہوتا۔‘‘ دوسروں پر کفر کے فتوے لگانے والے حضرات آقا کریم ؐ کے ان مقدس الفاظ پر غور فرمائیں: فَکَیْفَ تَصْنَعُ بِلَا اِلَہَ اِلَّا اللّٰہُ اِذَا جَاءَتْ یَوْمَ الْقِیَامَۃِ؟ (جب روزِ قیامت لا اِلٰہ الا اللہ کا کلمہ آئے گا تو تم کیا جواب دو گے؟) ۔
ماہِ ستمبر ۲۰۲۰ء میں معروف عالم دین حضرت علامہ ذیشان احمد مصباحی (جامعہ عارفیہ، سید سرواں، کوشامبی، الٰہ آباد، اتر پردیش) کی تحقیقی تصنیف ’’مسئلہ تکفیر و متکلمین“ منظرعام پر آئی جس میں حضرت علامہ نے مسئلہ تکفیر کی نہ صرف تاریخ پیش کی ہے بلکہ اس موضوع پر تحقیق کا حق بھی ادا کیا ہے۔ وہ سبھی حضرات جن کے قلوب مسلمانوں کے آپسی سرپھٹول اور تکفیر بازی کی وجہ سے تنگ ہیں اور جو واقعی مسلمانوں کے آپسی اتحاد کے خواہاں ہیں، اُن کے لئے اِس کتاب میں دعوت فکر ہے۔
سر دست یہاں موضوع کے اعتبار سے اسی کتاب سے ایک اقتباس پیش خدمت ہے:
’’پچھلے سو سالوں سے مسلمان برائے نام خلافت سےبھی محروم ہو چکے ہیں ۔ تعلیم و ٹیکنالوجی ہو کہ سیاست و اقتصاد، ہر سطح پر مسلمان دوسری قوموں کے دست نگر بن کر رہ گئے ہیں۔ زندگی کے ہر شعبے میں آج مسلمان حاکم کے بجائے محکوم اور امیر کی جگہ مامور بن چکے ہیں۔ طاغوتی عفاریت اور سرکش فراعنہ، اسلام اور مسلمانوں کے خلاف تعصب و عناد سے بھرے پڑے ہیں۔ چراغِ مصطفوی شرار بو لہبی کی زد پر ہے۔ خارجی سطح پر مسلمانوں کو کمزور و لاچار اور مجبور و محبوس بلکہ منضم یا معدوم کرنے کی ہر کوشش جاری ہے۔ لادینی افکار، مغربی تہذیب اور لہولعب میں ڈوبی ہوئی جدید زندگی مسلم بچوں اور بچیوں کے سینوں سے مسلمانیت کو کھرچ دینے کے درپے ہے۔ مسلمانوں کے افکار پر ہی پہرے نہیں بٹھائے گئے ہیں، بلکہ مختلف ملکوں میں ان کا جسمانی قتل عام بھی جاری ہے۔ ایسے ماحول میں انہیں بلند آواز سے احتجاج و فریاد کا بھی حق نہیں رہا ایسی صورت میں روئے زمین کے کلمہ خوانِ محمدؐ اگر اپنے دین و ثقافت اور سیاست و اقتصاد کے مشترکہ مقاصد کے لیے جمع نہیں ہوئے اور اس کے بجائے حسب سابق ہر فرقہ دوسرے فرقے کی تکفیر و تضلیل میں لگا رہا تو ان کی حالت بد سے بد تر ہوتی چلی جائے گی، جس کے بہت سے مظاہر اس وقت ہماری نگاہوں کے سامنے ہیں۔
آج صورتحال صرف یہ نہیں ہے کہ مسلمانوں کا ایک فرقہ دوسرے فرقوں کی تکفیر کرتا ہے بلکہ چھوٹی چھوٹی باتوں پر ایک فرقے کے لوگ باہم خود ایک دوسرے کی تکفیر میں جٹے پڑے ہیں۔ آج کامسلم نوجوان اس صورتحال سے پریشان بھی ہے اور نالاں و فریادکناں بھی۔ غلو فی التکفیر کی وجہ سے مسلمانوں کا ذہن اسلام کی دعوت سے منحرف ہو گیا ہے۔ ظاہر سی بات ہے کہ جب ان کی پوری ذہنی و فکری اور علمی و عملی کوششوں کا محور تکفیر و تضلیل ہوگا تو بھلا وہ اسلام کی تبلیغ کے لیے فرصت ہی کب پائیں گے!
غلو فی التکفیر کی وجہ سے اسلامی دعوت کو ایک اور نقصان پہنچا ہے ۔ مدعو قومیں جب مسلمانوں کو آپس میں لڑتے اور ایک دوسرے کو کافر کہتے دیکھتی ہیں تو اسلام کی طرف ان کا اٹھتا ہوا قدم ر ک جاتا ہے۔ وہ تذبذب کا شکار ہو جاتی ہیں۔ یہ بہت بڑا المیہ ہے۔ ان حالات میں مسلمانوں کا فرض ہے کہ وہ تبلیغ کے ایشو کو زیادہ نمایاں کریں اور تکفیر کے ایشو کو حتی الامکان کم کریں، کیوں کہ مسلمانوں کا فرض اوّلین تبلیغ ہے نہ کہ تکفیر۔‘‘
(مسئلہ تکفیر و متکلمین، مولانا ذیشان احمد مصباحی، صفحہ: 33-34)
شاید کہ اُتر جائے ترے دل میں میری بات
(نوٹ۔ اس مضمون میں ظاہر کی گئی آراء مضمون نگار کی خالصتاً اپنی ہیں اور انہیں کسی بھی طور کشمیر عظمیٰ سے منسوب نہیں کیاجاناچاہئے۔)