بشارت بشیر
انسان اپنی تخلیق کے دورِ اول سے ہی اپنے خیالات و احساسات دوسروں تک پہنچانے کا متمنی رہا ہے اور ہر زمین و زمن میں اِس نے اِس حوالہ سے دستیاب و سائل کو بروئے کار لایا۔ کبھی کسی اونچائی پر چڑھ کر اپنی بات دوسروں تک پہنچائی اور کبھی ایلچیوں اور قاصدوں سے یہ کام لیتا۔ ایک زمانہ میں تو کبوتر بھی پیغام رسانی کا کام کرتے رہے تاریخ یہی بتاتی ہے۔ قلم و قرطاس سے بھی انسان نے کام لیا اور پھر اپنی بات دوسروں تک پہچانے کے لئے مراسلوں اور خطوط سے یہ کام لیا جاتا رہا، اِسلام کی تاریخ بھی اس بات کی شاہد عادِل ہے کہ دیگر اقوام کے حکمرانوں اور شاہوں کو اِسلام کے درس زریں سے آگاہ کرنے کے لئے معتبر قاصدوں کے ذریعہ اُنہیں خطوط روانہ کردئیے گئے۔ پھر زمانہ کچھ آگے بڑھا اخبارات و رسائل منصہ شہود پر آگئے اور معلومات میں اضافہ کے ساتھ ساتھ مختلف النوع مضامین نے اپنے رنگ دکھانے شروع کئے۔اِس ذریعہ سے جہاں آپسی رابطہ و تعلق میں اضافہ ہوا ،وہاں دین ِمبین کی ترویج کے لئے علماء ربانئین نے ادب و صحافت کے اِس میدان میں قدم رکھ کر امر معروف اور نہی منکر کا فریضۂ بانداز احسن انجام دیا۔ خود ہندوستان کی تاریخ دیکھئے، بہترین دینی رسائل و مجلات نے انسانی اذھان کو تبدیل کردیا۔ عقائد کی درستگی ہوئی، معاشروں کی تطہیر کا کام ہوا، انصاف و عدل کی باتیں ہوئی ۔ انسانیت کے تحفظ و امان کے بے لاگ اصول بیان کئے گئے ،سماجی بدعات و خرافات پر قلم نے نشتر چلادئے۔ عبادات کا صحیح انداز و مفہوم بیان کیا گیا، ادب و صحافت کے اصول و اضح کئے گئے۔ مولانا ثناء اللہ ؒ امرتسری کے اخبار اہل حدیث کو آج بھی دیکھ لیجئے ذہن سکون اور قلب راحت محسوس کرتا ہے، مولانا ابوالکلام آزادؒ کا الہلال والبلاغ نے آفاقی شہرت حاصل کی ،نواب صدیق حسن خان ؒکی کتب نے دِلوں کی دنیا کو بدل ڈالا۔ اِن ہی پر بس نہیں بلکہ بہت سارے جید علماء کی نگارر شات و تصانیف نے دعوت دین کا جو فریضہ انجام دیا،تاریخ ہر دور میں اُن کی تعریف میں رطب اللسان رہے گی۔ پرنٹ میڈیا کے بعد پھر الیکٹرانک میڈیا وجود میں آیا۔1983 ء میں انٹر نیٹ کی ایجاد نے تو ایک نئی ہی دنیا کی بناء رکھی۔ 1990کے بعد یہ ترقی مزید نکھر گئی۔ جب ورلڈ وائیڈ ویب WWW کی ایجاد ہوئی انسانی رابطہ و تعلق کی نئی راہیں کھل گئیں، نئے ذرائع وجود میں آتے رہے اور گھر بیٹھے انسان کو محض ایک Click کرنے سے دنیا جہاں کی معلومات حاصل کرنے کا راستہ ہموارہوگیا،ان اشیاء کے اندر جہاں الیکٹرانک دنیا کے کمپوٹر ڈیسک ٹاپ اور لیپ ٹاپ نے آسائیش فراہم کیں۔
وہاں اُن سے جڑے ایسے سماجی رابطہ کے ذرائع بھی ہیں جو سوشل میڈیا کے نام سے موسوم ہیں۔ سوشل میڈیا عصر حاضر میں فیس بک ، واٹس اپ،ٹویٹر، انسٹاگرام، گوگل پلس اور کئی بلاکس کوکہتے ہیں ۔ ان سے استفادہ کرکے دین مبین اور ملک و ملت کی خدمت بھی بہت خوب کی جاسکتی ہے، اور اُدع الی سبیل ربک بالحکمۃ والموعظۃ الحسنۃ کے حکم ربانی پر عمل کیا جاسکتا ہے، اس خدمت کے لئے سماجی رابطہ کے ذریعہ فیس بک کا اچھا اور مناسب استعمال کیا جاسکتا ہے۔ جس کے ساتھ اس وقت حاصل معلومات کے مطابق دنیا کے دو ارب لوگ جڑے ہوئے ہیں۔ 2002 ء میں کیلفورنیا کے مارک زکر برگ نے ہاروڈ یونیورسٹی کے اپنے ساتھیوں کے ساتھ گفتگو اور مشاورت کے بعد4 فروری کو شروع کیا تھا اور یہ اسلوب وا نداز رابطہ کاری لوگوں کا اتنا بھایا کہ 14 سال کی مختصر مدت میں اس کا استعمال بے تحاشا ہونے لگااور14 برس کی اس مدت میں ہزاروں اسکالرز دانشور، اہل قلم اور صاحبانِ فکر و دانش اس کے ساتھ جڑ گئےاور اسلام کی ترویج و اشاعت کا کام خوب خوب ہوتارہا۔جدید و قدیم قلم کاروں نو آموز لکھنے والوں ، صحافت کی دنیا میں نئے قدم رنجہ لوگوں کو ایک سٹیج فراہم ہوا۔ جیسا کہ عرض کرچکا ہوں کہ فیس بک کے صارفین کی تعداد میں روز افزوں اضافہ ہے اور BBC کی ایک رپورٹ کے مطابق ان کی تعداد دو ارب تک پہنچ گئی ہے اوراس کا درست استعمال پریشان حال انسانیت کو سکون و راحت فراہم کرسکتا ہے۔ جید اور مستند علماء اس سوشل میڈیا کا استعمال کرکے کائنات ارضی کو سکون و راحت کی آماجگاہ بنانے کے لئے قرآن و سنت کے راحت رساں پیغام کو عام کرنے کے لئے اس سے فوائدحاصل کرسکتے ہیں، اُمت کو اختلافات سے بچانے اور نوع انسانی کی بلاتمیز علمی رہنمائی کرنے کا کام کیا جاسکتا ہے۔نئے و جدید مسائل کا حل پیش کیا جاسکتا ہے۔ سماجی رابطہ کے ان وسائل کے ذریعہ مرد وزن کا اختلاط بھی دیکھا گیا ہے اوربہت ساری شر انگیز یاں بھی چشم فلک دیکھ رہی ہے لیکن اس کے فوائد کو بھی کسی طور نظر انداز نہیں کیا جاسکتا ہے ۔ایک اندازے کے مطابق ساری دنیا میں ایک ارب 8 کروڑ 8 لاکھ 68 ہزار 6 سو 60 سوشل میڈیا کے صارفین ہیں، اگر مذکورہ وسائل کا درست استعمال ہوتو ہم ساری انسانیت کی صلاح وفلاح کے لئے اسلام کی مہر نیمروز کی طرح تابندہ تعلیمات کو ان تک پہنچاسکتے ہیں۔ اس کے لئے دنیا کی مختلف زبانوں پر دسترس بھی لازمی ہے اور ساتھ ہی ساتھ زبان و بیان میں مٹھاس ،نرمی و تواضع لازم ہے۔ بات کو دِلچسپ اور مختصر انداز میں پیش کرنے کے ڈھنگ سے بھی آگاہ ہوں ۔ اسلام کے خلاف لگائے جارہے الزامات و اتہامات کا بھی احسن انداز میں جواب دیا جاسکتا ہے اور ہر کام متدین سنجیدہ فکر اور وسیع الذھن علماء ہی کرسکتے ہیں۔
یہاں پریہ بات بھی ملحوظ نگاہ رہے کہ عالمی سطح پر بھی کچھ لوگ اسلام کی شبیہ کو خراب کرنے پر تلے ہوئے ہیں اور وہ قرآن وسنت کی تعلیمات کو توڑ مروڑ کر پیش کرتے ہیں ،اس لئے نوجوان اور معصوم نسل جب اِسلام کے حوالہ سے کچھ جاننا چاہتی ہے تو یہ مواد اُنہیں فراہم ہوتا ہے اور یہ نسل فکری انحراف کی شکاربھی ہوجاتی ہے۔کتنی ویب سائٹس ایسی بھی ہیں جو اسلام کے نام پر ہی تو قائم کی گئی ہیں مگر بلاوا اپنے مشائخ و پیر مرشدوں کی جانب ہے اور اُن ہی کے افکار و نظر یات کو دین کی اساس بنا کر پیش کیا جارہا ہے۔جماعتوں اور مسالک و مشارب کے فروغ پر زور ہے لیکن اسلام کی بے لاگ تعلیمات یہاں نہیں ملتیں۔ اس جانب بھی سوشل میڈیا پر کام کررہے علماء حق توجہ دیں۔سوشل میڈیا اپنے اقرباء سے ملنے اور ہم کلام ہونے کا بھی بہتر ذریعہ ہے لیکن بہرحال دین مبین کی ترویج و اشاعت کے ہم مکلف ٹھہرے ہیں ،اس لئے اس کا درست استعمال کرکے دین کی بنیادی باتوںکو لوگوں تک پہچانے کی ہم سب کی ذمہ داری اس شرط کے ساتھ ہے کہ ہم جو کچھ اس پر لکھ رہے یااَپ لوڈ کررہے ہیں کیا یہی واقعی قرآن تشریح اورحدیث کی توضیح ہے، میڈیا صارف کے وسیع المطالعہ ہونے کی بہت ضرورت ہے۔
اُدھر سے کچھ ملا اِدھر فاروڑ کردیا، اس انداز سے حق تبلیغ ادا نہیں ہوتا اور بعض اوقات مسائل جنم لیتے ہیں، نئی بحث کا آغاز ہوتا ہے اور پھر ہمارے سوشل میڈیا کے شیروں کا کمال بھی دیکھنے میں آتا ہےکہ فوراًکسی کو اسلام سے باہر کردیتے ہیں اور کسی پر اور کوئی لیبل چسپان کرنے میں دیر نہیں لگاتے، رویوں میں لچک نظر میں وسعت ، صبر اور جذبات پر قابو لازم ہے، بالخصوص اُن لوگوں کے لئے جو ابلاغ کے ذرائع کا استعمال کرتے ہوں اور ساتھ ہی ساتھ اُن میں تبحر علمی ہو، کسی نے سوال کیا پوچھ لیا کہ مفت میں اَن گنت مفتی صاحبان ملےاور اُس کے ذھن کو پراگندہ و پریشان کرکے رکھد یتے ہیں کہ کس کی مانیں کس کی نہ مانیں ۔یاد رکھئے یہ علم کی دنیا ہے جس کی کوئی اتھاہ نہیں ،بڑے بڑے علماء و ائمہ جواب دینے سے صاف بچ جاتے تھے یا کسی اور کے پاس بھیج دیتے تھے یہاں تک کہ برسر مجلس کئی مسائل کے جواب کے بارے میںیہ کہتے ہوئے کوئی باک اور شرم محسوس نہیں کرتے تھے کہ ہمیں ا ن سوالات کا جواب معلوم نہیں، اس لئے سوشل میڈیا پرجو بھی مسلمان سرگرم ہوں اس تعلق سے سنجیدگی کا مظاہرہ کریں۔
سوشل میڈیا پر عریاں تصاویر بھی گھوم رہی ہوتی ہیں۔ اس کی اصلاح کے لئے قرآن وسنت کی تعلیمات سے آگاہی دینا بھی بہت اہم ہے۔ بہرحال ساری انسانیت کی فوز و فلاح اور دین مبین کی ترویج و اشاعت کے لئے سوشل میڈیا کا بہتر استعمال ہو تو بہتر اور دیر پا نتائج ضرور حاصل کئے جاسکتے ہیں۔ یہ کام مشکل ضرور ہے اور علمی وسعت ، تدبر فہم و فراست دور بینی نرم لہجہ اور ملائم تحریر کا تقاضا کرتا ہے۔
ہاں ابلاغ کے ان ذرائع کے استعمال کے دوران سنسنی خیزی سے دور رہیں۔ جھوٹ، کذب، افترا اور بہتان تراشیوں سے دور بچیں۔ کسی گناہ کی تشہیر نہ کریں۔ کسی کی بات پسند نہ آئے تو اخلاق کا دامن ہاتھ سے مت جانے دیجئے، کسی کے قد و قامت میں کیڑے مت نکالئے ،اپنی غلطی کو فوراً مانئے کسی کی کردار کشی سے باز رہیے۔آپ کے فکر و سوچ سے اگر کوئی اختلاف رکھتا ہے، اُسے اپنا دشمن مت سمجھئے ،اپنی حق بات مدھراورملائم لہجہ میں اسے سمجھائیے، وہ اگر برا فرختہ ہوتاہے، آپ غصہ مت کیجئے ،اعراض کیجئے، فتاویٰ جاری کرنے سے باز رہیے، بہت پڑھئے سنئے اور کم لکھئے بولئیے۔ موضوع وسیع ہے زندگی رہی پھر کبھی گفتگو ہوگی تفصیلی ۔ ان شاء اللہ
رابطہ۔7006055300
(نوٹ۔ اس مضمون میں ظاہر کی گئی آراء مضمون نگار کی خالصتاً اپنی ہیں اور انہیں کسی بھی طور کشمیر عظمیٰ سے منسوب نہیں کیاجاناچاہئے۔)