بلا شبہ کسی بھی معاشرے کی تشکیل مردو وزن کے درمیان شادی کے ذریعے ہوتی ہےاوریقیناً عورت بغیر معاشرے کا وجودنا ممکن ہے۔کیونکہ مرد و زن کے آپس میں ازدواجی رشتے میں بندھنے سے جو نسل ِانسانی کی افزائش ہوتی ہے، وہ افراد کا مجموعہ کہلاتی ہے ،پھر وہی افراد کا مجموعہ معاشرے کی شکل اختیار کرتی ہےاور جب معاشرہ وجود میں آتا ہے تو اس میں اچھائیاں بھی ہوتی ہیں اوربُرائیاں بھی۔لیکن اگر دور ِحاضر میں ہم اپنے معاشرے پر نظر ڈالتے ہیںتو وہ ہر معاملے میں ہمیں اچھائیوں کی بہ نسبت بُرائیوں کا ہی مرکز بنا ہوا نظر آتا ہے۔چنانچہ آج سے تقریباً پندرہ سوسال پہلے جن برائیوں کو ہمارے دین ِ مبین نے معاشرے سے نکال باہرکیا تھا، وہی بُرائیاں آج ہمارے معاشرے میں عام ہوتی ہوئی نظر آ رہی ہے،جوکہ ایک انتہائی تشویش ناک امر ہے۔ خاص کر ہمارے معاشرے میں شادی بیاہ کے معاملات میں جو طرزِ عمل اختیار کیا گیا ہے ،وہ ہمارے ہی معاشرےکی تباہی کا سبب بن رہا ہے۔ظاہر ہے نسل ِ انسانی کی افزائش معاشرے کی بالغ لڑکیوں اور لڑکوں کے درمیان نکاح اور شادی کے ذریعے ہی ہوتی ہے، جسے ایک مقدس رشتہ بھی کہا جاتا ہے،لیکن اس مقدس رشتےکو نبھانے اورآگے بڑھانےکے لئے ہم نے اپنے غلط طریقۂ کار،منفی سوچ ،لالچ ،اَنّاپرستی،دِکھاوے ،اسراف اور کئی دیگر بے جا رسومات ِ بد سے اتنا مشکل اور پیچیدہ بناڈالا ہے کہ آج ہمارےمعاشرے کے ہزاروں بالغ لڑکے اور لڑکیاںبغیر شادی کے زندگی گزارنے پر مجبور ہوگئے ہیں۔ ہمارے معاشرے میں یہ بات عام تھی کہ لڑکے والوں کی طرف سے جتنے باراتی لڑکی والوں کے یہاں پہنچتے ہیں تو ان کے کھانے پینے کا انتظام لڑکی والےہی کرتے تھے،جبکہ دیگر معاملات میں باہمی اخوت،رواداری ، ہمدردی اور دینداری کے جذبے کے تحت انجام دیتے تھے،جس کے نتیجے میں شادی بیاہ کی تقریبات کاسلسلہ آسانی کے ساتھ جاری رہتا تھا اوران رشتوں کا تقدس خوش اسلوبی کے ساتھ اختتام تک برقرار رہتا تھا ۔ لیکن آج اگرچہ بیشتر شادی بیاہ کی تقریبات میں باراتیوں کی تعداد محدود رہتی ہے ،تاہم دوسرے تمام معاملات،جس میں جہیز کا لین دین سر فہرست ہوتا ہے،آسمان کی اونچائی تک پہنچائے گئے ہیں۔گویا بُرائیوں اور خرابیوں کو اتنا فروغ دیا گیا ہے کہ عام اور متوسط طبقوں سے وابستہ لوگ اپنے بالغ بچوں کی شادیوں کے لئے ان تمام معاملات کے مسئلے کو حل ہی نہیں کرپاتے ہیںاور نتیجتاً بہت سارے لڑکے اور لڑکیاں اس مقدس رشتے میں بندھ ہی نہیں پاتے ہیں۔ایسا لگتا ہے کہ ٹیکنالوجی کی ترقی اور جدت سے ہم نے مادیت کی دنیا میں بہت کچھ تو پا لیا ہے لیکن بدقسمتی سے پُرخلوص رشتے،محبتیں،ہمدردی ،اخوت ، رواداری،یہاں تک کہ دینداری کے جذبے تک دم توڑ چکے ہیں۔اب معاشرے میں یہی ہورہا ہے کہ جو جتنا مالدار اور امیر ہے ،وہی زیادہ سے زیادہ جہیز کا مطالبہ کررہا ہے ۔ جس سے یہ بات اُبھر کر سامنے آتی ہے کہ ہمارے معاشرہ میں گھٹن، تنگ نظری اور دین سے دوری کا اثر بہت حد تک مرتب ہوچکا ہےاورمعاشرتی بگاڑ کا اثر ہمارے رویوں پرگہر ا پڑ چکا ہے۔جبکہ معاشی اونچ نیچ، معاشرتی تفاوت، جھنجلاہٹ، حسد، بغض، کینہ اور غصہ ہمہ وقت فروغ پذیر ہیں۔ انہی معاشرتی بیماریوں نے ہمارے رہن سہن، ہماری روز مرہ زندگی اور ہمارے رویوں کو اس قدر متاثر کردیا ہے کہ ہم نے شاید مثبت سوچنا ہی چھوڑ دیا ہےاور ہماری منفی سوچ سے ہی ہمارا معاشرہ روز افزوں پست اور خست ہوتا چلا جارہا ہے۔ اگرچہ ہر طرف سے یہ آواز ضرور سُنائی دیتی ہے کہ آخر لڑکوں اور لڑکیوںکے والدین ان کی شادی میں تاخیر کیوں کرتے ہیں؟تو ظاہر ہے یا تو وہ معاشرے میں رائج ہوچکی غیر ضروری رسموں کو ادا نہ کرنے کے باعث تاخیر کرتے ہیں ،یاپھر ابھی ان کے پاس ان غیر ضروری رسموں کو ادا کرنے کی قوت نہیں ہے یا یہ کہ ابھی کسی کا بیٹا اور کسی کی بیٹی کہیںسیٹل نہیں ہوئی ہے، یا علم حاصل کرنے کی غرض سے باہرچلے گئے ہیں۔ جب اتنی وجوہات ہوں گی تو ظاہر سی بات ہے، لڑکے اور لڑکیوں کی عمر یںبڑھتی ہی جائے گی اور شادیوں کی عمریں پار کرتی جائیں گی۔ حالانکہ جوانی کی عمر میں نفسانی خواہشات کو کنٹرول کرنا بہت مشکل ہوتا ہے،اور اتنے سارے تجربات، جانکاری اور معلومات ہونے کے باوجود بھی اپنے بچوں کی شادی میں تاخیر کرنا بہر صورت نقصان دہ ہے ۔ اس سے نہ صرف معاشرے میں مفاسد اور فتنوں کے دروازے کھل جانے کا احتمال رہتاہے بلکہ افزائش ِنسل انسانی کا سلسلہ بھی رُک جاتا ہے ۔اس صورت حال میں کیسے ہمارا معاشرہ ایک اچھا، عمدہ اور پاکیزہ معاشرے کی صورت اختیار کرے گا،اس پر ہم سب کو سنجیدگی کے ساتھ غورو فکر کرنے کی ضرورت ہے۔