مغل روڈ سے مراد ایک تاریخی سڑک ہے جسے مغل شہنشاہ اکبر نے 16ویں صدی میں تعمیر کیا تھا۔ یہ وادی کشمیر کوجموں خطے میں راجوری اور پونچھ سے جوڑتی ہے۔ مغل روڈ کی اقتصادی اہمیت کئی پہلوؤں سے اہم ہے۔شاہراہ وادی کشمیر اور جموں خطے کے درمیان ایک اہم متبادل رابطے کا کام کرتی ہے جو کہ روایتی جموں سری نگر قومی شاہراہ کا متبادل راستہ ہونے کیساتھ ساتھ دیہی علاقوں تک بہتر رابطہ اور رسائی کی سہولیت فراہم کرتی ہے ۔شاہراہ پونچھ ضلع کے بفلیاز علاقہ سے وادی کشمیر کے شوپیاں ضلع کے درمیان پہاڑی سلسلے میں سے ایک اہم رابطہ ہے جو کہ 11,500 فٹ کی بلندی پر 84 کلومیٹر لمبائی کے ساتھ پیر پنچال پہاڑیوں کے دامن سے ہو کر گزرتی ہے ۔
مغل شاہراہ کی اہمیت اس خطہ کیلئے اس لئے بھی اہم ہے کہ یہ شاہراہ شوپیاں اور پونچھ راجوری کے درمیان روایتی فاصلہ 588کلو میٹر سے کم کر کے محض 126کلو میٹر تک محدود کر دیتی ہے ۔یہ سڑک جموں اور کشمیر کے مختلف علاقوں کے درمیان سامان اور اشیاء کی نقل و حرکت میں سہولت فراہم کرتی ہے جبکہ تجارتی سرگرمیوں اور تجارت کو فروغ دینے میں ایک اہم کردار ادا کرتی ہے، جس سے کاروباری اداروں کو مصنوعات کو زیادہ مؤثر طریقے سے منتقل کرنے میںسہولیت ملتی ہے۔جموں و کشمیر کی معیشت زراعت پر بہت زیادہ انحصار کرتی ہے۔ مغل روڈ زرخیز وادی کشمیر سے خطے کے دیگر حصوں تک زرعی پیداوار کی نقل و حمل کو آسان بنانے میں اپنا منفرد مقام رکھتی ہے جبکہ دونوں اطراف کے کسانوں کی مصنوعات کو منتقل کر کے ان کی معیشت میں ایک اہم حصہ بھی ڈال رہی ہے ۔اس کیساتھ ساتھ مغل روڈ کی قدرتی خوبصورتی اور تاریخی اہمیت اُسے سیاحوں کے لئے ایک مقبول راستے کے طورپر کام کرنے کی اہلیت رکھتی ہے ۔یہ شاہراہ دلکش مناظر، تاریخی مقامات اور سیب کے باغات سے گزرتی ہے، جو مسافروں کو اپنی طرف متوجہ کرتے ہیں اور خطے میں سیاحت کی صنعت میں اپنا حصہ ڈالتی ہے۔
مغل روڈ خاص طور پر دفاعی افواج کے لئے سٹریٹجک اہمیت کا حامل ہے۔ یہ فوجیوں اور رسد کی نقل و حرکت کے لئے ایک متبادل راستہ بھی ہے ۔اس شاہراہ کی مدد سے جہاں وادی کا زرعی ساز و سامان ملک کے دیگر حصوں تک منتقل کرنے میں مدد ملتی ہے وہیں خطہ پیر پنچال کے پسماندہ علاقوں میں رہنے والے لوگوں کیلئے روز گار کا موقعہ بھی فراہم کرنے میں پیش پیش ہے لیکن اس شاہراہ پر صرف 5سے 6ماہ تک ہی سفر کیاجاسکتا ہے کیونکہ موسم سرما میں پیر پنچال پہاڑیوںپر ہونے والی برفباری کی وجہ سے شاہراہ پر 4سے6ماہ تک سڑک آمد ورفت کیلئے پوری طرح سے بند رہتی ہے جس کی وجہ سے خطہ پیر پنچال کے لوگوں کو وادی جانے کیلئے پہلے جموں آنا پڑتا ہے اور بعد میں وادی کا سفر کرتے ہیں جو کہ سینکڑوں میل اضافی سفر بھی بنتا ہے ۔
یہ نوٹ کرنا ضروری ہے کہ مغل روڈ کی اقتصادی اہمیت وقت کے ساتھ ساتھ بنیادی ڈھانچے کی ترقی، تجارتی پیٹرن میں تبدیلی اور علاقائی حرکیات جیسے عوامل کی بنیاد پر تیار ہو سکتی ہے۔ قابل ذکر بات یہ ہے کہ خطے کے دونوں اطراف یکساں طور پر اہم اور ایک دوسرے پر منحصر ہیں۔ درحقیقت، پونچھ راجوری کشمیریوں کے لئے اس لحاظ سے مشہور ہے کہ اس میں بابا غلام شاہ بادشاہ کا ایک مشہور مزار ہے اس لئے ہزاروں کشمیری عقیدت مند پونچھ کے راستے راجوری کا دورہ کرنے آتے ہیں اور اس سے بھی اہم بات یہ ہے کہ سینکڑوں طلباء جوبابا غلام شاہ بادشاہ یونیورسٹی میں تعلیم حاصل کرتے ہیں اسی شاہراہ سے زیادہ سفر کرنا پسند کرتے ہیں ۔اس کے علاوہ، دوسری طرف، کشمیر اس لحاظ سے مجموعی طور پر اہم ہے کہ یہ پونچھ راجوری کے لئے ایک تعلیمی اور کام کا مرکز ہے۔اس کے علاوہ دونوں اطراف کے رہائشی ملازمین کی ایک بڑی تعداد اس شاہراہ سے خطہ پیر پنچال میں آنے اور واپس جانے کیلئے سفر کرتے ہیں ۔ان سبھی معاملات بالخصوص خطہ کی معیشت کو ذہن میں رکھ کر شاہراہ پر بغیر کسی تاخیر اور خلل کے آمد ورفت یقینی بنانے کی خاطر ایک جامع پلان مرتب کیاجائے تاکہ لوگ معاشی اعتبار سے ترقی کرنے کیساتھ ساتھ سہولیات بھی حاصل کر سکیں ۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔