قیصر محمود عراقی
جس طرح ہوا اور پانی کے بغیر جینا ممکن نہیں، اُسی طرح کتاب کے بغیر انسانی بقاء اور ارتقاء محال ہے ۔ کتاب نے علم کے فروغ اور سوچ کی وسعت میں بنیادی کردار ادا کیا ہے ۔ دنیا جب تحریر کے فن سے روشناس ہو ئی تو انسان نے چٹانوں ، درختوں کی چھالوں ، جانوروں کی ہڈیوں اور کھالوں ، کھجور کے پتوں ، ہاتھی کے دانت اور کاغذ غرض ہر شئے لکھنے کے لئے استعمال کی ،جس سے وہ اپنی بات دوسروں تک پہنچا سکے ۔ بحیثیت مسلمان ہمارا کتاب کے ساتھ ایک خاص تعلق رہا ہے ، اس سلسلے میں ہم ایک شاندار تاریخ کے مالک ہیں کیونکہ ہم سب جانتے ہیں کہ علم سیکھنا مسلمان کی میراث ہے ، لیکن ہم اس میراث کو کھوتے جا رہے ہیں۔ماضی میں تاتاریوں نے جہاں مسلمانوں کے سروں کے مینار تعمیرکئے وہیںمگر ہمارے قیمتی کتب خانوں کو بھی دجلہ کی گہرائیوں میں غرق کر دیا تا کہ مسلمان فکری، علمی اور ادبی لحاظ سے مفلس اور اپاہج ہو کررہ جائیں ۔
وہ کتابیں جو ہمارے اسلاف کی تحقیقات کا نچوڑ تھیں اور اُن کی سائنسی تحقیقات کی بنیادوں پر انہوں نے فلک بوس ایوان تعمیر کرتے گئے۔ حالانکہ اہل مغرب کی سائنسی تب و تاب میں ہمارے ہی آبا و اجداد کے خون جگر کی سرخی جھلکتی ہے ۔ کتاب ایک قوم کی تہذیب و ثقافت اور معاشی ، سائنسی اور عملی تر قی کی آئینہ دار ہو نے کے ساتھ ساتھ انسان کی بہترین دوست بھی ہوتی ہے، لیکن بد قسمتی سے ہمارے آنے والی نسل اس بہترین دوست سے د ور ہو تی جا رہی ہے اور ہمارے یہاں لکھنے اور تحقیق کا کام محدود ہو تا جا رہا ہے ۔ ہمارے طالب علم نصابی کتب میں اُلجھ کر رہ گئے ہیں ۔ ہماری شاندار تاریخ اور روایات ان کی نظروں سے پوشیدہ ہو تی جا رہی ہیں ، وہ مغرب کی دل فریبیوں میں کھو کر اپنے اسلاف کے سنہرے کارناموں سے بے خبر ہو تے جا رہے ہیں اور ہمارے کتب خانے ویران ، مٹی اور دھول سے اَٹے پڑے ہیں اور کتابیں چند لکڑی اور لوہے کی شلفوں میں مقید ہو کر رہ گئی ہیں ۔
فی زمانہ کتاب سے دوری کے حوالے سے کئی لوگ یہ دلیل بھی دیتے نظر آتے ہیں کہ ٹیکنالوجی کی تر قی نے ہمارے نوجوانوں سے کتاب چھین کر انہیں موبائل اور بائیک تھما دی ہے، جس کی وجہ سے اس کے شوق اور مشغلے بدل کر رہ گئے ہیں اور کسی حد تک اس دلیل میں وزن بھی ہے ، لیکن صرف اس کو ہی مطالعے سے دوری کی واحد وجہ نہیں سمجھا جا سکتا کیونکہ ہم سے کئی گنا جدید تر قی یافتہ ممالک جیسے جر منی ، انگلینڈ ، فرانس اور امریکہ نے تو کتاب اور مطالعے سے اجنبیت کو جنم نہیں دیا ہے اور وہاں آج بھی لوگ اپنے فارغ اوقات کو گذارنے کے لئے کتاب پڑھنے کو تر جیح دیتے ہیں ۔ اس کے بر عکس آج ہماری لائبرریاں اس لئے ویران نظر آتی ہیں کیونکہ ان کی جگہ نیٹ کیفوں نے لے لی ہے ۔ ایک طرف یہ کہا جا تا ہے کہ علم کسی کی میراث نہیں ، لیکن دوسری طرف اسی تعلیم کو اس قدر مشکل بنایا جا رہا ہے جو مطالعے کے زوال کا ایک بہت بڑا سبب بنتا جا رہا ہے۔
کتب خانے کسی قوم کی ذہنی رفعت کا نشان ہو تے ہیں ، جس قوم کے کتب خانے قیمتی اور نایاب کتابوں سے پرُ ہو نگے اس قوم کا ذہنی شعور بھی اسی قدر پختہ ہو گا ۔ یہ وقت کی اشد ضرورت ہے کہ ہماری قوم کے مخیر حضرات ، دانشور حضرات ، علما حضرات اور والدین اپنی نوجوان نسل کو کتب بینی کی طرف راغب کر نے کے لئے اپنے حصے کا کردار نبھائیں ،ورنہ انٹر نیٹ کے دور میں ہماری نسل نو اپنے تاریخی ورثہ سے نا آشنا ہو جائے گی ۔ اس کے لئے ہر سطح پہ موجود اہل نظر اور صاحبان اختیار اور بالخصوص اساتذہ اور والدین کی اس جانب تو جہ دینی ہو گی اور نئی نسل میں مطالعے کا شغف پیدا کر نا ہو گا ۔ کتاب سے یہ بیزاری خصوصاً نوجوان نسل میں قومی المیے سے کم نہیں ، اس لئے نئی نسل میں کتابوں سے رغبت پیدا کر نے کی اشد ضرورت ہے۔
رابطہ۔6291697668